سن دو ہزار سے دو ہزار آٹھ تک تعلیمی پیشرفت

Saturday / Sep 08 2018

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

جمہوری نظام کی بنیادیں جس اہم عنصر پر قائم ہوتی ہیں وہ ہے تعلیم۔ جب میں 2001ء میں سائنس و ٹیکنالوجی کا وفاقی وزیر اور بعد میں 2008 ء تک چیئر مین اعلیٰ تعلیمی کمیشن تھا تو مجھے اعلیٰ تعلیم کے شعبے پر توجہ دینے کا موقع ملا ۔میں نے حکومت کو مجبور کیا کہ سائنس کے لئے ترقیاتی بجٹ تقریباََ 6000 فیصد اور اعلیٰ تعلیم کے لئے ترقیاتی بجٹ میں 3500 فیصد اضافہ کیاجائے. اس نےہمیں اعلیٰ تعلیمی شعبے کو وسعت دینے میں خاطر خواہ مدد دی۔ اس بجٹ سے شروع کردہ پروگراموں نے جامعات میں تحقیق کو فروغ دیا اورمعیار کو بہتر بنانے میں مدد ملی. سال 2000میں پاکستان میں صرف 59 جامعات اور ڈگری دینے والے ادارے تھے. ایسے اداروں میں 2008 ء تک میں 127 اور 2017 ء تک 187سے زائد تک اضافہ ہوا.جامعات میں اندراج تین گنا سے زیادہ بڑھ گیا، 2002 میں صرف 276،000 سے بڑھ کر 2010 ء میں 900،000 طلباء تک ، اور پھر 2017 تک14 لاکھ تک پہنچ گیا ۔ 2003 میں 23- 17سے سال کی عمر کے گروپ کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی 2.3 فیصد، 2010ء میں 10٪ اور پھر 2017ء میں 12٪ تک پہنچ گیا۔ اس کے علاوہ تعلیم کے معیار کو بہتر اور قومی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کے لئے کئی اقدامات اٹھائے گئے۔ ان اقدامات میں سب سے زیادہ اہم مضبوط فیکلٹی تیار کرنا تھا . حقیقت یہ ہے کہ سال 2003 میں پاکستانی جامعات میں 75 فیصد سے زائد فیکلٹی ممبران پی ایچ ڈی نہیں تھے اسی سے اس وقت تعلیم کی بری حالت کا اندازہ ہو جاتا ہے. لہٰذا تقریباًگیارہ ہزار روشن ترین طالب علموں کو وظائف سے نوازا گیا جن میں سے 5000 وظائف دنیا کی اعلیٰ ترین جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے دئیے گئے تھے. باقی وظائف مقامی پی ایچ ڈی کی سطح پر غیر ممالک کی جامعات میں سینڈوچ پی ایچ ڈی کے پروگراموں کے لئے تھے جس کے تحت مقامی طور پر رجسٹرڈ پی ایچ ڈی کے طالب علموں کو کچھ وقت کسی اہم غیر ملکی تحقیقی جامعہ سے بھی تربیت حاصل کرنا تھا. تعلیم اور تحقیق میں کیریئرز کو منتخب کرنے کے لئے ہائی اسکول سے گزرنے والے روشن ترین طالب علموں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے، ایک نیا " ٹینیور ٹریک" (Tenure Track) تقرری کا نظام نافذ کیا گیا جو کہ فیکلٹی ممبروں کی تقرریوں کے لئے ان کی تحقیقی پیداواری صلاحیت کا بین الاقوامی جائزہ لینے کے بعد اہل قرار دیتا ہے ۔ اسی لئے فیکلٹی کے اراکین کی تنخواہوں میں وفاقی وزراء کی تنخواہوں سے کئی گنا اضافہ کیا گیا! اس طرح کے فیکلٹی کے اراکین کی پہلی تشخیص 3 سال کے بعد اعلیٰ ماہرین پر مشتمل بین الاقوامی پینل کی جانب سے کی جاتی ہے جبکہ دوسری تشخیص 6 سال کے بعد ہوتی ہے اور دونوں تشخیصوں کی اطمینان بخش رپورٹ کے بعد ہی انہیں مستقل کر دیا جاتا ہے. بیرون ملک سے پی ایچ ڈی ڈگری لے کرواپس آنے والے طالب علموں کو ان کی واپسی کی تاریخ سے ایک سال پہلے تحقیقی گرانٹس کے لئے درخواست دینے کا موقع دیا جاتاتھا، تاکہ جب وہ واپس آئیں تو فوراً تحقیق شروع کر سکیں. اس کے علاوہ فیکلٹی کو مضبوط بنانے کے لئے بیرون ملک میں کام کرنے والےاعلیٰ درجے کے اہل فیکلٹی ممبران کو بہترین تنخواہ اور آزادانہ تحقیقی فنڈز کے ساتھ پاکستان میں واپس آنے کے لئے کئی نئے پروگرام شروع کیے گئے ۔ کچھ 600 ایسے افراد ان پروگراموں کے تحت پاکستان آئے، ان میں سے نصف مستقل طور پر اور دوسرے نصف بطور عارضی فیکلٹی کے طور پر آئے ۔ تمام سرکاری اور نجی جامعات میں فیکلٹی کے اراکین کے لئے ٹیکس کی شرح 35٪ سے کم کر کے صرف 5٪ تک کر دی گئی ۔ غیر ملکی فیکلٹی ممبران کو مختلف اداروں میں جمع کیا گیا تھا تاکہ تحقیق میں بہتری کے لئے ضروری اجتماعی سہولیات تیار کر سکیں. یہ اور اس طرح کے دیگر اقدامات کی وجہ سے جامعات کے معیار اوربین الاقوامی درجہ بندی میں اچانک اضافہ ہوا. 1947 سے 2002 کے تک 55 سالہ مدت کے دوران، بین الاقوامی جامعاتی درجہ بندی میں دنیا بھر کی چوٹی کی 500 جامعات کی صف میں پا کستان کی ایک بھی جامعہ شمار نہیں کی جا سکتی تھی. تاہم 2008 تک، پاکستان کی کئی جامعات نے یہ اعزاز حاصل کیا جس میں 273 سائنس کے میدان پر نسٹ (NUST) (اسلام آباد)281 پر یو ای ٹی (UET) (لاہور) اور 223پر جامعہ کراچی تھی ۔ اس کے علاوہ قائد اعظم یونیورسٹی (اسلام آباد) اور مہرا ن انجینئرنگ یونیورسٹی (حیدرآباد) بھی اس صف میں شامل ہوئیں ۔ اسی طرح تحقیقی اشاعتوں میں بھی بھرپور اضافہ ہوا اس کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2000 میں 800 اشاعت سالانہ میں اضافہ ہو کر 6،250اشاعت پر پہنچ گیا جو بتدریج بڑھ کر 2011 میں چودہ ہزار تحقیقی اشاعت تک پہنچ گیا۔یہ اضافہ اسقدر تھا کہ بھارت کی آبادی کے لحاظ سے موازنہ کریں تو ان کی سالانہ اشاعت کے اعتبار سے اس کے مدمقابل تھا۔ ان پر بصیرت اقدامات کی بدولت 2000 سے 2008 کے درمیان کی مختصر مدت کے دوران پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ہوئی پیش رفت نے بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں . 23 جولائی، 2006 کو، "بھارتی سائنس کو پاکستان سےخطرہ " کے عنوان سے، معروف ہندوستانی اخبار روزنامہ " ہندوستان ٹائمز" میں ایک مضمون شائع ہواجس میں بتا یا گیا تھا کہ پروفیسر سی. این. آر. راؤ (بھارتی وزیر اعظم کی سائنسی مشاورتی کونسل کے چیئرمین) نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ہوئی تیز ترین پیشرفت کے کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی ۔ اس شاندار کامیابی کے پیچھے کچھ ٹھوس اقدامات تھے جن کی بدولت اعلیٰ تعلیم کا معیار بین الاقوامی سطح پر قائم کیا گیا تھا ان میں سے ایک اہم اقدام یہ تھا کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے پروگراموں کا باقاعدگی سے غیر ملکی ماہرین سے معیار کی برتری کے لئے تجزیہ کرایا جاتا تھا اور اس ضمن میں یو ایس ایڈ (USAID) کی ٹیم برائے تعلیم نے پاکستان کا کئی مرتبہ دورہ کیا اور ملک کے طول و عرض کی تمام جامعات میں اساتذہ، طالب علموں اور منتظمین سے گفتگو کرتے ہوئے ان کی انتہائی تنقیدی نگاہ سے جانچ پڑتال کی اور اس کے بعد ایک رپورٹ ترتیب دی جس کا مختصر اقتباس یہ ہے : "ایچ ای سی کے سب سے زیادہ اہم پہلوؤں میں سے ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہاں ہر شعبے کی سرگرمیوں میں عمدہ اور اعلیٰ معیار پر زور دیا جاتا ہے --- معیار پر توجہ مرکوز کرنے میں، ایچ ای سی کی قیادت کا رویہ یہ تھا کہ "معیار مقدار سے کہیں زیادہ اہم ہے". پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کا ایک اور جائزہ سائنس، ٹیکنالوجی اور ترقی پر اقوام متحدہ کے کمیشن کے چیئرمین پروفیسر مائیکل روڈے (Prof.Michael Rode) کی طرف سے بھی کیا گیا تھا. انہوں نے 2008 ء میں لکھا ، از اقتباس : "دنیا بھر میں جب ہم مختلف ممالک میں اعلیٰ تعلیم کی حیثیت پر گفتگو کرتے ہیں تو، اس بات سے تمام لوگ متفق ہوں گے کہ حالیہ برسوں میں بین الاقوامی سطح پر اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں تیزی سے شاندار ترقی کی منازل طے کرنے والا ترقی پذیر ملک ، صرف پاکستان ہے. دوسرے ترقی پذیر ممالک میں بھی میں اعلیٰ تعلیم کا شعبہ ہے لیکن اس طرح کی شاندار مثبت ترقی جیسے گزشتہ چھ سالوں میں پاکستان میں ہوئی ہے وہ کہیں نہیں ہوئی "۔ پاکستان نے گزشتہ دہائی میں برق رفتاری سے تعلیم کے شعبے میں ترقی کی ہے، جس سے برملا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر مضبوط و مستحکم نقطہ نظر اور عزم ہو اور فنڈز د ستیا ب ہوں ،تو معجزات ہوسکتے ہیں. اس طرح کی پیش رفت اعلیٰ معیار کی فیکلٹی ہی میں مضمر ہے ۔ اچھی جامعات خوبصورت عمارتوں سے نہیں بلکہ خوبصورت دماغوں سے وجود میں آتی ہیں ہمیں ایک مضبوط علمی معیشت(Knowledge Economy )کی جانب تیزی سے گامزن ہو نا ہے لیکن افسوس ہمارے ملک کی گزشتہ حکومتوں کی طرف سے قومی معاملات میں تعلیم ہی کو سب سے کم ترجیح دی گئی ہے۔ جب تک ہماری حکومتیں نظریاتی طور پر پر بصیرت نہ ہوں اور تعلیم کو ترجیح نہیں دیں گی تب تک ملک ترقی نہیں کرسکتا۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں