سائنسی ایجادات کی حیرت انگیز دنیا

Monday / Sep 16 2013

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

میں نے اپنے گزشتہ مقالوں میں جینیات اور نینوٹیکنالوجی کے بارے میں تفصیل سے ذکر کیا تھا کہ کس طرح یہ دونوں شعبے معروف و مقبول ہو رہے ہیں اور ہماری روز مرّہ کی زندگیوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ایک شعبہ جس کی معلومات کے بارے میں بڑی رازداری سے کام لیا جاتا ہے اور بہت کم شایع کیا جاتا ہے وہ ہے مشینی جاسو سی روبوٹوں کا شعبہ۔ اس سلسلے کی سب سے حیرت انگیز ایجاد جاسوسی کیڑے ہیں جوکہ کیمرے، مواصلاتی نظام اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جانچنے والے آلوں سے بآسانی بچ نکلتے ہیں ۔ ان کیڑوں کو میلوں دور سے اپنا تابع رکھا جا سکتا ہے تاکہ وہ ضرورت کے مطابق کسی صدر اور آرمی چیف کی میز کے نیچے یا دیوار پر بیٹھ کر نہ صرف ان کی گفتگو بلکہ ان کی ویڈیو براہِ راست میلوں دور بیٹھے غیر ملکی سفارتخانے تک پہنچا سکتے ہیں ۔ یہ کیڑے نہایت ہی طاقتور جاسوسی ہتھیارکی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔یہ ننّھے جاسوس کسی بھی قسم کے زندہ کیڑے مکوڑے ہو سکتے ہیں مثلاً بھنورے،لال بیگ یا پھر چیونٹیی۔ ان کیڑوں کو مخبر میں تبدیل کرنے کے لئے ان کے دما غوں میں پہلے سے پروگرام شدہ چپ لگا دئیے جاتے ہیں۔ جسے کافی لمبے فاصلے سے اپنی مرضی کے مطابق استعال کیا جا سکتا ہے۔ ان کیڑوں میں موجود حسّاس چپکو مخصوص بیٹریوں کے ذریعے توانائی پہنچائی جاتی ہے۔اس قسم کے کچھ ہتھیاروں کی تیّاری کیلئے امریکی دفاعی ایجنسی نے ایک پروگرام DARPA کے تحت فنڈنگ کی تھی۔ اس اقسام کے کیڑے ناسا کی فنڈنگ کے تحت Caltech Jet Propulsionلیب ، پاسادینا میں بھی تیّار کئے جارہے ہیں ۔دیکھنے میں یہ کیڑے بالکل اصلی معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً وہ مکمل روبوٹ ہی ہوتے ہیں۔ ان کیڑے نما ننّھے روبوٹ کی تیّاری کیلئے 3Dپرنٹنگ ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا ہے جو کہ بہت زیادہ تعداد میں ان کے مختلف اعضاء بناسکتی ہے لہٰذا لاکھوں کی تعداد میں نہایت کم لاگت سے تیّار کردہ کیڑے دشمن کے خفیہ اداروں میں داخل کئے جاسکتے ہیں۔ ان کیڑوں کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ اصلی کیڑوں کی طرح چھوٹے سے چھوٹے سوراخوں سے بھی گزر سکتے ہیں۔ UC Berkeley's Biomimetic Millisystems لیب کے سائنسدانوں نے ایک ایسا ننّھا ’اسٹار‘ نامی روبوٹ تیّار کیا ہے جو کہ اپنے پاؤں موڑ کر چپٹی شکل اختیار کر سکتا ہے اور بآسانی پتلی سے پتلی جگہوں سے نکل سکتا ہے ۔ مثلاً دروازوں کے نیچے سے۔ نہ صرف یہ بلکہ ضرورت کے مطابق مختلف زاویوں سے چپٹا ہو کر رینگتا ہوا زیادہ سے زیادہ رکاوٹیں عبور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسٹا ر کے جسمانی اعضاء Pro Jet 3000 3D پرنٹر کے ذریعے تیّار کئے گئے تھے تاکہ کم سرمائے میں زیادہ تعداد میں مہّیا ہو سکیں۔ اسٹار کی زمین پر دوڑنے کی رفتار 11.6 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے اور برقی احکامات ملتے ہی ایک سیکنڈ میں 360 ڈگری کے زاوئے تک مڑنے کی صلاحیت موجودہے ۔ یہ بے پناہ دفاعی صلاحیتوں سے آ راستہ آلات ،مستقبل میں ہونے والی جنگوں کا طریقہء کار ہی بدل دینگے۔ شعوری آلا ت اب صرف مکّھیوں اور کیڑوں تک ہی محدود نہیں بلکہ شعوری اسلحہ بھی تیّار ہو گیا ہے جو کہ پہلے سے بنائے گئے پروگرام کے تحت کام کرسکتا ہے۔مثال کے طور پر اگرجنگ کے دوران ایک ایسی صورتحال سامنے ہے جس میں دشمن یا تو خندقوں میں چھپا ہوا ہے یا پھر عمارتوں کے کونے کھدرے میں چھپا ہوا ہے تو اس کیلئے امریکہ نے ریڈیائی کنٹرول گولیاں تیّار کر لی ہیں جن کیلئے XM25 رائفل استعمال ہوتی ہے جس میں نصب آ لے کی لیزر شعاعیں ہدف کے درست فاصلے کا با لکل صحیح اندازہ لگا لیتی ہیں ۔ اور پھر گولی ہدف سے تین میٹرکی دوری سے پروگرا م کے تحت صرف دشمن کو نشانہ بناتی ہے۔یہ رائفل چھوٹا بم پھینکنے کی مشین کی طرح کام کر تی ہے ۔ 25 mm کی گولی کے دائرے میں ایک چپ لگا ہوتا ہے جو کہ ہدف کے صحیح نشانے کے لئے گن کے نشانہ داغنے کی جگہ پر سگنلز دیتا ہے اسی لئے دھماکہ ٹھیک اسی جگہ ہوتا ہے جہاں کے لے گن کو سیٹ کیاگیا ہوتا ہے۔ اسی سے ملتی جلتی ایک اور پیشرفت جس کے لئے امریکی ملٹری ایجنسی DARPA نے 50 لاکھ امریکی ڈالر کی فنڈنگ کی ہے۔ وہ دماغ کے اشاروں پر چلنے والے مصنوعی ہاتھ پاؤں ہیں جنہیں پہننے سے سپاہیوں کے ہاتھ پاؤں میں ایسی طاقت آجاتی ہے کہ وہ "Robocop" کی طرح لڑنے کی مشین بن جاتے ہیں ۔جامعہ براؤن ،امریکہ میں John Donoghue نے ایک "BrainGate" ٹیکنالوجی دریافت کی ہے جس کے تحت لوگوں کے دماغ ان کے کمپیوٹروں سے منسلک ہونگے اور وہ شخص سوچنے والے اشاروں کی مدد سے پھر تی سے جوابات دے سکے گا۔لڑاکا طیّاروں کی صنعت ، اربوں کھربوں ڈالرکی صنعت ہے اور مغربی طاقتیں انہیں اکثر مخالف دشمنوں کو بیچتی ہیں۔مثلاً امریکی طیّارے جہاں اسرائیل کو بیچے جاتے ہیں وہاں OIC ممبر ممالک جیسے سعودی عرب کو بھی بیچے جاتے ہیں۔کسی بھی دو ملکوں کی جنگی حالت میں طیّارے بیچنے والے ملک کی مرضی ہوگی کہ وہ دونوں میں سے کسی بھی ملک کے طیّاروں کو دور بیٹھے ہی ناکارہ بنا سکے۔ یہ ان ملا وٹ والے مائیکروچپس کی بدو لت ممکن ہے جو ان طیّا روں میں پہلے ہی سے نصب کیا گیا ہے تاکہ بیرونی سگنل ملتے ہی اُڑان کو قابو رکھنے کا نظام ، گولہ باری وغیرہ کے نظام کو بالکل نا کارہ کر سکے۔اس طرح ہمارے F-15s اور ان کے جیسے دیگر قیمتی طیّارے محض "sitting ducks" میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ جامعہ Case Western، Cleveland,Ohio اور ایک الیکٹرونک کمپنی کے انجینئرنے مکمل تفصیل سے بتایا ہے کہ کس طرح یہ مائکرو چپس محض بیرونی سگنلوں کے ذریعے ’کاٹھ کا گھوڑا‘ بن جاتی ہیں یہ کسی بھی وقت طیّارے کے اہم کاموں میں رکاوٹ ڈال کر انہیں ناکارہ کر سکتی ہیں۔ان چپس کو ڈھونڈ نا اتنا آ سان نہیں ہوتا کیونکہ نہایت ہی حسّاس تاروں اور برقی سرکٹوں کے درمیان نصب ہوتے ہیں ۔ وہ ممالک جو اپنا دفاعی اسلحہ یا طیّارہ بنانے میں ناکام ہو گئے ہیں اور دوسرے ممالک پر انحصار کرتے ہیں وہ یہ سمجھ لیں کہ یہ اربوں ڈالر جو اس مد میں خرچ کرتے ہیں وہ محض دھوکہ ہو سکتاہے ۔ کیونکہ دشمن کے طیّارے کے دور سے سگنل ملتے ہی زمین پر بیٹھے بیٹھے ہی ایک سگنل کے زریعے نہ صرف پرواز بلکہ پورے ط یّارے کو تباہ کیا جا سکتا ہے ایک اور پیش رفت ’اوجھل’ ہونے والے آلات میں ہوئی ہے جو کہ جنگی ٹینکوں تک کو نظروں سے اوجھل کر دیتی ہے۔ ایک بین ا لاقوامی اسلحہ سازی کی کمپنی ہے جس کی آمدنی 22 ارب پاؤنڈ ہے یہ کمپنی metamaterials کو استعمال کرتی ہے یہ ایک مخصوص مادّہ ہے جو کہ روشنی کی شعاؤں کو چیزوں سے پرے جھکاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیں نظر نہیں آتیں ۔BAE کے انجینئر ٹینک اور دیگر گاڑیوں کو اس مادّے کے ذریعے اوجھل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔یہی ٹیکنالوجی بحری جہازوں ، طیّاروں اورہیلی کاپٹروں کو دشمنوں سے اوجھل کرنے کے لئے استعمال ہو سکتی ہے۔پاکستان اور دیگر OIC ممبر ممالک زیادہ تر مغرب سے درآمد ات پر انحصار کرتے ہیں ۔اب ا ن کو سمجھ لینا چاہئے کہ انہیں جتنے بھی لڑاکا ہوائی جہاز اور آبدوز دیے جاتے ہیں انہیں بہت آسانی سے ناکارہ بنایا جا سکتا ہے۔ امریکہ میں تحقیق پر تقریباً پچاس فیصد سے زیادہ اخراجات امریکی دفاعی ایجنسیاں خرچ کرتی ہیں مثلاً NASA, DARPA, US Air Force اور نیول ریسرچ آفس(NRO) وغیرہ ۔ جس میں سے بیشتر فنڈز جامعات اور نجی کمپنیوں کو دئیے جاتے ہیں تاکہ مخصوص شعبے میں قابلیت کو فروغ حاصل ہو۔پاکستان میں ہما ری افواج تحقیق پر بہت کم یا کچھ بھی نہیں خرچ کرتیں ۔یہ نہایت ضروری ہے کہ دفاع کے بجٹ کا تقریباً دس فیصد سالانہ ہماری جامعات کے مختلف شعبے مثلاً نینو ٹیکنالوجی ، مادّی سائنس اور روبوٹکس کو مزید بہتر اور مضبوط بنانے کیلئے صرف کیا جائے ۔تاکہ بیرونی ممالک سے آلات کی درآمدات کم کی جاسکیں اور ہمیں حسّاس دفاعی آلات کے بر آمد کنندہ ممالک میں شمار کیا جاسکے ۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں