حیاتی سائنس کی حیرت انگیز دریافتیں

Monday / Aug 26 2013

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

جیسا کہ گزشتہ مضمون میں میں نے گوش گزار کیا نینوٹیکنالوجی نے الیکٹرانک، دوا سازی اور دیگر شعبوں میں کس قدر موثر اثرات مرتب کئے ہیں ۔اسی طرح حیاتی سائنس میں بھی گزشتہ چھ دہائیوں سے دلچسپ پیشرفت ہو رہی ہیں۔خصوصاً زراعت و طب کے میدان میں زبردست تر قی ہوئی ہے۔ 1953ء میں DNA کی ساخت کی دریافت کے تاریخی اعلان کے بعد سے جینیاتی انجینئرنگ کے میدان میں بڑی تیزی سے پیشرفت شروع ہوئی۔Watson, Crick اور Wilkins نامی تین سائنس دانوں کو انکے اس بہترین کام کے عوض نوبل انعام سے نوازا گیا جنہوں نے یہ بتایا تھا کہ DNA کیا ہے؟ اسے ایک بہت ہی لمبے تقریباً 3لاکھ موتیوں (molecules)کے سالمی ہار سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جو کہ ہمارے جسم کے ہر خلیے میں موجود ہے۔یہ دراصل دو ہار ہیں جو ایک دوسرے سے آپس میں لپٹے ہوئے ہیں۔ اس قدرتی ہار میں چار اقسام کے موتی (molecules) موجود ہیں انہیں کی مختلف ترتیب ہمارے جسم کے بارے میں ہر چیز بتاتی ہے مثلاً جلد کی رنگت، حتیٰ کہ دل و دماغ اور دیگر اعضاء کی ساخت وغیرہ۔ یہ ہار ہمارے ہر خلیے کے اندر قدرتی طور پر موجود ہوتے ہیں۔ اسی قسم کا ہار مگر نسبتاً چھوٹا ہار جانوروں اور پودوں میں بھی موجود ہوتا ہے۔ یہ سالموں کا ایک دوسرے میں لپٹا ہوا ہار خلیوں کی تقسیم کے موقع پر بڑی حیرت انگیز یعنیٰ رفتار تقریباً 30,000 ہزار گردش فی منٹ کی رفتار سے کھل کر علیحدہ ہوتا ہے یہ رفتار ایک ہوائی جہاز کے جیٹ انجن کی رفتار سے کہیں زیادہ تیز ہے اب تصور کریں کہ ہمارے ہر خلیے میں یہ عمل کس قدر رفتار سے چل رہا ہوتا ہے اور ہمیں اس کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ حیاتیاتی سائنسوں کی بڑھتی ہوئی دریافتیں ترقی پذیر ممالک کیلئے بہت مفید ثابت ہو رہی ہیں مثلاً پاکستان میں زیادہ فصل کی کاشت اور بیماریوں کے خلاف جینیاتی مداخلت سے پودوں میں مدافعتی نظام کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔اب سائنس دان اس جستجو میں ہیں کہ یہ سمجھ لیں کہ اس سالمی ہار کا کونسا حصہ کس عمل کیلئے درکار ہوتا ہے (رنگ، خوشبو، حجم، پیداوار اور پھلوں کا حجم وغیرہ)۔ اس ہار کے سالموں کی ترتیب میں کچھ ردوبدل سے اب نئی اور بہتر خصوصیات پیدا کی جا سکتی ہیں۔ پہلے انسانی جینوم کی ترتیب کی جانکاری مئی 2006ء میں ہوئی جبکہ اس کے پہلے خاکے کا اعلان 2003ء میں بل کلنٹن ، صدر امریکہ نے کیا تھا۔ اس ترتیب کی جانچ13سال میں مکمل ہوئی اور اس پر تقریباً 60 لاکھ ڈالر کی لاگت آئی تھی۔ اب جنیاتی ترتیب کی ٹیکنالوجی میں بھی بہت ترقی ہو گئی ہے۔ پروفیسر واٹسن نوبل انعام یافتہ سائنس دان کے جین کی ترتیب محض دو مہینوں میں ایک لاکھ امریکی ڈالر کی لاگت سے عمل میں آئی ۔میرے جینوم کی ترتیب 2012ء میں صرف دو ہفتوں میں 40,000 امریکی ڈالر کی لاگت سے ہوئی۔ اب مشینوں کو مزید بہتر بنایا جا رہا ہے جس کی بدولت ترتیب معلوم کرنے کی مدت گھٹ کر دنوں میں اور لاگت ایک ہزار امریکی ڈالر تک پہنچ جائیگی۔ ایسا کرنے سے نباتاتی اور حیوانی سائنسوں میں تحقیق کے شعبے میں وسیع راہیں کھل رہی ہیں۔ اس شعبے کی اہمیت کے پیشِ نظر میں نے اینگرو ایکسیلنس ایوارڈ ’Engro Excellence Award ‘ سے بطور انعام حاصل کردہ رقم اور مزید جمع شدہ رقم کو کچھ سال ہی قبل جامعہ کراچی میں جینوم کی تحقیق کا مرکز قائم کرنے کے لئے عطیہ کر دیا جس کا نام میرے والد جمیل الرحمن (مرحوم) کے نام پر رکھا گیا ہے ۔ اس مرکز کی عمارت اب مکمل ہے اور چند ہی ماہ میں ’جمیل الرحمن مرکز برائے جینوم تحقیق (Jamil - ur- Rahman Center for Genome Research )تحقیقی سرگرمیوں کے لئے تیار ہو جائے گا۔ ایک بہت اہم شعبہ جو اوّلین توجہ کا مرکز ہوگا وہ ہے نمک متحمل فصلوں (salt tolerant crops ) کی دریافت جو نہ صرف نمکیں مٹی میں اُگ سکیں بلکہ سمندری پانی کی آبیاری کو برداشت کرتے ہوئے فصلوں کی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھا سکیں۔ جینومک کے شعبے نے نت نئے دلچسپ استعمال بھی دریافت کر لئے ہیں۔ آپ نے جگنوؤں کو رات کے اندھیرے میں چمکتے ہوئے دیکھا ہوگا اور ان کے اس عمل سے محظوظ بھی ہوئے ہونگے۔ یہ چمک ایک مرکب ” luciferin“سے خارج ہوتی ہے۔ اسرائیلی سائنس دان یہ مرکب بنانیوالے جین کو دریافت کرنے اور اسے پھولوں ( orchids) میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں نتیجتاً اب ایسے پھول کھلتے ہیں جو جگنوؤں کی طرح رات کے اندھیرے میں چمکتے ہیں۔ یہ سائنس کی حیرت انگیز دنیا ہے !بیکٹیریا صدیوں سے راب (molasses) کو سٹرک ایسڈ( citric acid ) اور دیگر کیمیائی اجزاء میں منتقل کرتے چلے آرہے ہیں، اسی طرح صنعتی درجے کے اینزائم ((enzyme اور دیگر ادویات کی تیاری کیلئے استعمال ہوتے آئے ہیں۔اب جینیاتی ترمیم کے ذریعے ایسے بیکٹیریادریافت کئے گئے ہیں جو ننّھے روبوٹ ((biobotsکی طرح کام کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر انہیں مائیکرو چپس پرnanoscale ڈیزائن بنانے کیلئے استعمال کیاجا سکتا ہے، انہیں سمندروں اور ساحلِ سمندر پر پھیلے ہوئے تیل کو ختم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔کپڑا سازی کی صنعت میں کپڑے کی مضبوطی اور اس کی عمر بڑھانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے بے شمار استعمال ہیں۔جینیات کی ایک اور دلچسپ پیشرفت مصنوعی خلیے کی تخلیق ہے جو کہ پیداواری صلاحیت بھی رکھتا ہے امریکی سائنس دان Dan Gibson اورJ. Craig Venter امریکہ میں ایک مکمل بیکٹیریا کا مصنوعی جینوم تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے جو ایک عام بیکٹیریا کی طرح اپنی لاکھوں کاپیاں بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے مراکز کھل گئے ہیں جہاں اسی شعبے میں بڑے اچھے پیمانے پر معیاری تحقیق کی جا رہی ہے،کمی اس بات کی ہے کہ ہمیں اس تحقیق کو تجارتی بنیادوں پر رائج کرنے کے نہ تو مناسب طریقے پتہ ہیں نہ ہی ایسی کوئی سہولتیں موجود ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہماری جامعات نوکری تلاش کرنے والے افراد پیدا کر رہی ہیں نوکری فراہم کرنیوالے افراد نہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ہماری جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ کو زندگی کے حقیقی ماحول سے ایک حد تک ہی آشنائی ہوتی ہے اس سلسلے میں موجودہ حکومت کو جلد ہی کچھ اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ اس تیزی سے بڑھتی ہوئی دریافتوں کے خلاء کو پُر کر سکیں۔ 1۔ جامعات میں ٹیکنالوجی پارکوں اوربزنس انکیوبیٹروں کا قیام تاکہ جدید تحقیق پر مبنی کمپنیوں کے قیام کے لئے خواہشمند طلبہ کی قانونی مشاورت، سرمایہ کاری کی سہولتیں، تکنیکی امداد اور مختلف شعبوں میں ان کی مدد کی جا سکے۔2۔ایک بڑے پیمانے پر Venture Capital fund قائم کیا جائے جو کہ نئے خیالات کو تجارتی شکل دیکر تجارتی بنیادوں کو فروغ دے اور انہیں تجارتی بنیادوں پر چلانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ 3 ۔ نجی اداروں کو تحقیق و ترقی کے اداروں میں سرمایہ کاری کیلئے فروغ دینے کیلئے ایسی مراعات فراہم کی جائیں مثلاً سرمائے پر دگنی ٹیکس کی چھوٹ ، ٹریننگ اسکالر شپ، اعلیٰ تیکنیکی شعبوں کیلئے لیب کے قیام کی قیمت میں مدد کرنے کیلئے ٹیکس کی لمبی چھوٹ وغیرہ دی جائے۔ پاکستان اگر بھوک، افلاس، بے روزگاری اور بھاری قرضوں کے بوجھ سے باہر نکلنا چاہتا ہے تو اس کو ہر صورت کم آمدن زرعی معیشت سے نکل کر ذہانت پر مبنی معیشت کی طرف منتقل ہونا پڑے گا اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب وہ اُسی راستے کو اپنائے جو کوریا، ملائیشیا اور سنگاپور نے اپنایا تھا یعنی اپنے بجٹ کا کل 30% حصہ تعلیم کے لئے مختص کیاجائے جس کا چوتھائی حصہ اعلیٰ تعلیم کو مضبوط بنانے کیلئے استعمال کیا جائے کیونکہ جب تک ہماری نوجوان نسل کی بے پناہ صلاحیتوں کا خزانہ باہر نہیں نکلے گا ہم ترقی کی راہ پر قدم نہیں بڑھا سکیں گے۔ اس وقت پاکستان تعلیم پر اپنے GDP کا صرف 1.9 % خرچ کرتا ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی کا تو اس سے برا حال ہے۔اسی لئے ہم غربت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور دوسروں کی امداد پر انحصار کرتے ہیں جبکہ ہمارا ملک انسانی و قدرتی وسائل سے لبریز ہے۔ صرف ایک سچی ایماندار اور مستعد قیادت کی ضرورت ہے۔ ابھی چند ماہ قبل نئی حکومت کے برسرِاقتدار آنے سے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بھیانک باب کا خاتمہ ہوا اور نئی قیادت کو اس کھوئے ہوئے وقار کو واپس لانے کے لئے ایک دہائی تک سخت محنت درکار ہوگی کیونکہ ملک کے تمام بڑے ادارے گزشتہ حکومت کے دور میں کی گئی لوٹ مار کی وجہ سے بدحال و برباد کھڑے ہیں۔ اب پاکستان مسلم لیگ (ن) کا کام ہے کہ وہ اپنی اچھی کارکردگی دکھاتے ہوئے ملک کو ترقی کے راستے پر چلائیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں