غربت کیسے دور کی جائے

Tuesday / Jul 16 2013

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

پاکستان کی معیشت تباہ حال ہے۔گزشتہ پانچ سالوں میں غیر ملکی قرضے دگنے سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں اور ملک تقریباً دیوالیہ ہو گیا ہے۔ اس دلدل سے باہر نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہمارے لیڈر ملکی پالیسیوں پر فوری طور پر نظرِثانی کریں تاکہ ہم اپنی علم پر مبنی معیشت کی تعمیر کیلئے ملک کا اصل اثاثہ ہماری افرادی قوّت یعنی 90 لاکھ 20 سال سے کم عمر کے نوجوانوں کو باصلاحیت بنائیں اور ان کی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کر سکیں۔ چند ایشیائی ممالک ہمارے لئے مشعل راہ بن سکتے ہیں جو اپنی کم قیمت معیشت کو زیادہ قیمتی معیشت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اب سنگاپور ہی کی مثال لے لیجئے1960ء میں سنگاپور نسبتاً ایک غریب ملک تھا جو اپنی ضروریات کیلئے تگ و دو کرتا نظر آتا ہے پھر 5 جون 1959ء میں لی کوان یو نے سنگاپور کے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور تقریباً تین دہائیوں تک حکومت کی۔ ایک انتہائی ہنرمند اور محنت کش قوم کی تیاری انکی اقتصادی پالیسی کی اہم کلید تھی جو کہ جدید صنعتی تحقیق اور اعلیٰ معیار کی پیداوار کرنے کے قابل ہو اس مد میں وسیع پیمانے پر تعلیم ، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں سرمایہ کاری کی گئی۔ سنگاپور کی نیشنل جامعہ کا شمار امریکہ، کینیڈا اور یورپ کی اعلیٰ جامعات کے مد مقابل ہوتا ہے اور یہ دنیا کی چوٹی کی جامعات میں شامل ہے جس کے فارغ التحصیل گریجویٹ کسی بھی طرح دنیا کی کسی بھی اعلیٰ جامعہ کے طلبہ سے کم نہیں۔ لی کوان یو نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنے ملک میں فروغ دینے کیلئے ایسا بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیا اور بدعنوانی سے پاک حکومت قائم کی جس نے آنیوالی نسلوں کیلئے غیرمعمولی اقتصادی ترقی کی مثالیں قائم کر دیں۔ 964 ء سے 1978ء کے دوران سنگاپور نے اپنی پالیسی تبدیل کی جو کہ داخلی بنیادوں پر درآمدات پر مبنی تھی اس کا رخ برآمدات کی طرف کیا کیونکہ لی کوان یو نے اندازہ لگایا کہ اگر ہمیں اپنی مصیبتوں کے انبار سے باہر نکلنا ہے تو ہمیں اپنی حکومتی پالیسیوں میں واضح تبدیلیاں لانی ہوں گی لہٰذا نتیجہ یہ ہوا کہ مال کی تیاری کا شعبہ جو 1964ء میںGDP کا 14%حصہ فراہم کر رہا تھا 1978ء میں ایک دم بڑھ کرGDP کا 24% حصہ فراہم کرنے لگا۔ 1978ء میں GDP کی شرح میں 10%سالانہ کی شرح سے اضافہ ایک حیرت انگیز کامیابی تھی۔ اعلیٰ معیار کی جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ کی دستیابی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت نے غیر ملکی کمپنیوں کو سنگاپور میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کیلئے اپنی طرف متوجہ کیا جس کی بدولت پورے ملک میں طلسماتی انقلاب رونما ہوا۔ 1965ء میں بیروزگاری کی شرح 10% سے گھٹ کر 1978ء میں صرف3.6% رہ گئی۔ اسی طرح اگلے آٹھ سالوں کی مدت میں ہنر مند ملازمین کی مجموعی شرح 1978ء میں11% سے بڑھ کر 1985ء میں 22% تک پہنچ گئی۔ اعلیٰ تکنیکی صنعتوں کے قیام سے کاریگروں کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جو 1978ء میں اوسطاً امریکی ڈالر 18,400 سالانہ کے حساب سے بڑھ کر 1985ء میں اوسطاً 27,000امریکی ڈالرتک پہنچ گیا۔ ساتھ ہی پیداواری صلاحیت (GDP)کی شرح میں اوسطاً 1987ء سے 1997ء کے درمیان میں 8.5% سالانہ اضافہ رہا۔ تحقیقی سائنسدانوں کی تعداد بھی 1987ء میں3,361 سے بڑھ کر 1997ء میں11,302 تک جاپہنچی۔ چاروں طرف خوشحالی پھیل گئی غریب کارندے امیر ہو گئے اب وہ اپنی ذاتی گاڑی اور ٹیلی وژن رکھ سکتے تھے۔ اسی دہائی میں کافی تعداد میں مالیاتی صنعتیں بھی سنگاپور میں لگائی گئیں جو کہ بالخصوص الیکٹرونک، انجینئرنگ کے سامان اور پیٹرو کیمیکل پرمبنی تھیں۔ 1980ء میں سنگاپور کا 12 GDP/ارب امریکی ڈالر تھا جو کہ اب بڑھ کر 250/ارب امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہو گیا ہے جو کہ پاکستان کے GDP سے کہیں زیادہ ہے۔ تقریباً 3000 سے زائد کثیر القومی کمپنیاں سنگاپور میں مصروف عمل ہیں اور اب سنگاپورکے ترقیاتی پروگراموں میں بائیو ٹیکنالوجی کو خاص ترجیح دی جا رہی ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی میں کام کی شروعات 1982ء میں اس وقت شروع ہوئی جب نامی گرامی کمپنی نے وہاں اپنے قدم جمائے۔ 1997ء میں نئی شروعات کرنے والوں کے لئے مکمل طور پر آلات سے آراستہ بائیو پروسیسنگ ٹیکنالوجی سینٹر اور انکیوبیٹر یونٹ قائم کئے گئے ۔ 2000ء میں سنگاپور نے بائیو ٹیکنالوجی کو اپنی ترقی کا چوتھا اقتصادی ستون قرار دے دیا اور قومی سائنس اور ٹیکنالوجی بورڈ کا نام تبدیل کر دیا ( نیا نام بدل کر ایجنسی برائے سائنس و ٹیکنالوجی تحقیق رکھ دیا) اور تقریباً 570/ ارب امریکی ڈالر کی لاگت سے تین بائیو ٹیکنالوجی کے ادارے قائم کئے۔ بائیو پولس نامی ایک بڑا بائیو ٹیکنالوجی کا علاقہ ہے جو کہ سنگاپور میں کئی ارب امریکی ڈالر کی لاگت سے تیار کیا گیا ہے جہاں بائیو ٹیکنالوجی ادارے اور صنعتیں یکجا ہیں۔ صد افسوس !کہ پاکستان میں 2001ء میں جب میں وفاقی وزیر برائے سائنس تھا میں نے قومی کمیشن برائے بائیو ٹیکنالوجی قائم کیاتھا جسے پچھلی حکومت نے قومی ترقی کیلئے غیر ضروری تصور کرتے ہوئے ختم کر دیا تھا۔ اسی طرح قومی کمیشن برائے نینو ٹیکنالوجی بھی میں نے اسی دور میں قائم کیا تھا لیکن اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا۔پاکستان وہ ملک ہے جہاں کی آبادی سنگاپور سے 36 گنا زیادہ ہے اور اس سے کہیں زیادہ قدرتی وسائل کے خزانوں سے مزیّن ہے لیکن علم پر مبنی معیشت کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے میں دو خاص عوامل کارفرما ہیں ایک تو وسیع پیمانے پر بدعنوانی کا راج اور دوسرے علم کی قلت ہے ۔ دوسرا ملک جس سے ہم سبق حاصل کر سکتے ہیں وہ ہے ملائیشیا۔جہاں مہاتیر محمد کی بے لوث قیادت نے اس قوم کی آنکھیں کھول دیں۔ 1970ء میں ملائیشیاکا GDP 26/ارب امریکی ڈالرتھا جو اب بڑھ کر 300/ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔یہ نتیجہ ہے ان مصمم ارادوں اور مستقل کاوشوں کا جس نے ملائیشیا کو کم مالیاتی زرعی ملک سے علم پرمبنی معیشت کے گہوارے میں تبدیل کر دیا۔حیرت انگیز طور پر ملائیشیادنیاکے تمام اسلامی ممالک میں اکیلا 86.5% ( تقریباً 52/ارب امریکی ڈالر مالیت) کی اعلیٰ ٹیکنالوجی مصنوعات کی برآمدات کرتا ہے جبکہ صرف 13.5% بر آمدات بقیہ56 OIC رکن ممالک مل کر کرتے ہیں۔ان برآمدات میں زیادہ زور الیکٹرونک مصنوعات بالخصوص مائکرو چپ اور سیمی کنڈکٹر وغیرہ پر دیا گیا لہٰذا فی کس آمدنی بھی جو 1970ء میں 1000 امریکی ڈالر سے بڑھ کر14,500 /امریکی ڈالر ہو گئی اس طرح کثیر تعداد میں عام آدمی کو معاشی فرسودگی بھی حاصل ہوئی ۔ تیسرا ملک جس سے ہم مزید سبق حاصل کر سکتے ہیں وہ ہے جنوبی کوریا۔ایک بار پھرتنہا مثالی قیادت سامنے آئی، جنرل پارک چنگ حی 1961 ء میں برسر اقتدار آئے اور 1979ء میں قتل ہو جانے تک حکومت کی۔اس 18سالہ شاندار حکومتی دورمیں کوریا ایک صنعتی دیو کی طرح ابھر کر سامنے آیا۔جس کی وجہ سے کوریا کی فی کس آمدنی جو کہ 1961ء میں صرف 72 امریکی ڈالر تھی حیرت انگیز طور پر بڑھ کر آج30,000 امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔اس کا موجودہ GDP غیر معمولی شرح سے بڑھ کر1.12 کھرب امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔یہ سب محض بڑے پیمانے پر بجلی کے سامان ، موٹر گاڑیوں کی صنعت ، بحری جہازوں کی تیاری اور اسٹیل کی صنعت کی بدولت ممکن ہوا۔ ابتدا میں ان تمام صنعتوں کے لئے غیر ملکی ماہرین کے ساتھ اشتراک میں کام کیا گیا اور پھر تکنیکی مضبوطی حاصل کرنے کے بعد کوریا نے از خود اپنی صنعتیں قائم کیں۔ گزشتہ حکومت نے تعلیمی پالیسی میں ہماری GDP کا 7% حصہ تعلیم پر خرچ کرنے کی منظوری دی تھی جس کا 20% GDP1.4%) ( حصہ اعلیٰ تعلیم پر خرچ ہونا تھا تاہم اپنے ہی اعلان کردہ اس فیصلے پر ہماری حکومت عمل کرنے سے قاصر رہی اور تعلیم کو سب سے کم ترجیح دی گئی کیونکہ پیپلز پارٹی زمینداروں کے زیر اثر ہے اور شہید ذوالفقار بھٹو کے نقشِ قدم پر نہ چل سکی۔نچلے درجے کے افسران سے لے کر اعلیٰ افسران تک بدعنوانی کا بازار گرم تھا جس نے ملک کو بھاری قرضوں کے انبار تلے دفنا دیا۔ اب حکومت کی تبدیلی سے امید کی کرن جاگی ہے کہ کچھ تبدیلی آئیگی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ خیبر پختونخوا نے تعلیم کا بجٹ 102/ارب روپے مختص کیا ہے جو کہ صوبائی بجٹ کا19% ہے جبکہ دیگر صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے پھر بہت کم بجٹ رکھا ہے جبکہ منشور کے مطابق تعلیم کو اوّلین ترجیح دی جانی تھی۔ اگر پاکستان کو بھوک ،افلاس وغربت کی دلدل سے نکلنا ہے جس میں بہت سے غریب عوام دھنسے ہوئے ہیں تو تعلیم پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔نجانے کب ہمارے لیڈر اپنی ہی منظور شدہ پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے کی کوشش کریں گے؟ ہمیں اوپر دی گئی مثالوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ ملک میں مثبت تبدیلی لانے کیلئے صرف ایک ایماندار اور سمجھدار لیڈر چاہئے جو یہ سمجھ سکے کہ ہمارے ملک کا مستقبل ہماری افرادی قوّت سے وابستہ ہے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں