ترقی کا راستہ

Friday / May 17 2013

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

ہم اُس دور میں رہ رہے ہیں جہاں ترقی کی پیمائش جدت طرازی کے بل بوتے پر کی جاتی ہے۔ جہاں حقیقت خواب و خیال سے کہیں زیادہ حیرت انگیز ہے۔ جدت طرازی جس معرکة الآرا انداز سے ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہو رہی ہے اس کا اندازہ مندرجہ ذیل مثالوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔آج نابینا افراداپنی زبان کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں۔ وہ کس طرح ایسا کر سکتے ہیں؟وائی کیب (Wicab) نامی کمپنی،جو ونکونسن (Wisconsin) امریکہ میں واقع ہے وہاں ایک ایسا آلہ تیار ہوا ہے جس میں کیمرہ نصب ہے جو کہ نابینا افراد کے چشموں میں لگا دیا جاتا ہے۔ عینی اشارے (optical signals) چشموں میں لگے کیمرے میں محفوظ ہو کر برقی اشاروں میں تبدیل کئے جاتے ہیں اور پھر یہ اشارے ایک لالی پاپ جیسے آلے کے ذریعے نابینا افراد کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں اور زبان میں موجود اعصابی نظام کے ذریعے دماغ تک پہنچتے ہیں۔ اس طرح جزوی بینائی بحال ہو جاتی اور حیرت انگیز طور سے نابینا افراد چھری اور کانٹے میں فرق محسوس کر سکتے ہیں اور لفٹ کے بٹن تک دیکھ سکتے ہیں۔ سائنسی ترقی کی دوسری مثال یہ ہے کہ ایک ٹوپی بنائی گئی ہے جس میں کچھ مخصوص خیالات کو محسوس کرنے والے آلات لگائے گئے ہیں۔ ہمارا دماغ چار اقسام کے سوچنے والے اشارے خارج کرتا ہے جن میں سے ایک اشارہ احکامات کا ہوتا ہے۔ ٹوپی میں لگے آلے ان احکامات کو محسوس کر کے ٹوپی سے منسلک کمپیوٹر تک پہنچاتے ہیں اور اس طرح ایک مفلوج شخص بھی اپنی وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے محض سوچنے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ بآسانی آ جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ اسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے گزشتہ سال ایک گاڑی تک کو صرف سوچ کے ذریعے پورے جرمنی میں چلایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی شاندار ایجادات ہیں۔ ان میں ایک غائب ہو جانے والا چوغہ ہے جس کا ذکر ہیری پوٹر (Harry Potter) کی کتابوں میں افسانوی طور پر ملتا ہے اب یہ حقیقت ہو گیا ہے۔ یہ "Metamaterials" کی ایجاد سے ایسا ممکن ہوا، یہ وہ مادہ ہے جس میں اپنے اردگرد سے روشنی کی شعاعوں کا رخ موڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے لہٰذا اس مادے سے ڈھکے ہوئے سامان یا انسان جادوئی انداز سے نظروں سے غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی اب دفاعی ایجنسیاں ٹینک، آبدوز اور ہوائی جہازوں کو غائب کرنے کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ ایسا(Bullet-proof)کاغذ جس میں سے بندوق کی گولی نہیں گزر سکتی، ایجاد ہو گیا ہے۔ گہرے سمندر میں پائی جانے والی جیلی فش کے چمکیلی شعاعوں والے جینز کی پھولوں میں پیوند کاری کی گئی ہے جس کی بدولت پھول اندھیرے میں جگنوؤں کی طرح چمکتے ہیں۔ حال ہی میں 3Dپرنٹنگ بھی سامنے آئی ہے اور بہت سی اشیاء اس نئی دلچسپ ٹیکنالوجی کے ذریعے تیار کی جا رہی ہیں۔ جلد ہی آپ ایسی گاڑی چلا رہے ہوں گے جس کے بیشتر آلات اس 3D پرنٹنگ مشین کے ذریعے پرنٹ کئے گئے ہوں گے۔ عمر رسیدگی کی روک تھام کے حیرت ناک مرکبات بھی دریافت کر لئے گئے ہیں اور جب انہیں بوڑھے چوہوں پر آزمایا گیا تو چوہے جوان ہو گئے یہ ڈیوڈ سنکلیئر، ہارورڈ امریکہ کا کام ہے۔ گزشتہ سال چین میں اُڑنے والے بہت سے روبوٹ نے بڑی ہم آہنگی اور مشترکہ کوشش سے کام کرتے ہوئے ایک چھوٹی سی عمارت تعمیر کی ہے۔ ایسے ہوائی جہاز بھی اب تیار کر لئے گئے ہیں جو کہ اندرونی ایندھن کے بغیر پرواز کر سکتے ہیں، انہیں Scram Jetsکہا جاتا ہے۔ یہ جہاز جب آوازکی 12گناہ رفتار تک پہنچ جاتے ہیں تو stratosphere میں موجود آکسیجن کو محفوظ کر کے بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ ایک روبوٹک مکھی بھی بنالی گئی ہے جو ایک زندہ مکھی ہے جو کیمرہ اور مواصلاتی نظام سے لیس ہوتی ہے۔ اسے بہت دور سے بھی اپنے اشاروں پر چلایا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ مکھی ہمارے وزیرِ اعظم یا صدرِ مملکت کی میز یا دیوارپر بیٹھ کر تمام تصاویر اور گفتگو میلوں دور بیٹھے ایک سپر پاور کے غیر ملکی سفارتخانے تک بآسانی پہنچا سکتی ہے۔ فرانس میں ایک ایسی گاڑی ایجاد کی گئی ہے جو کہ مکمل طور پر ہوائی دباؤ کے ذریعے چل سکتی ہے۔ پہلی مصنوعی زندگی کا تجربہ کیا گیا اور ایک ایسا خلیہ تیار کیا گیا ہے جس میں مصنوعی جرثومے(Genome) کا استعمال کیا گیا ہے جو کہ نہ صرف نقشِ ثانی بنالیتا ہے بلکہ زندگی کی خصوصیات بھی ظاہر کرتا ہے۔ اب ایک مکمل مصنوعی خلیہ (Cell) تیار کیا جارہا ہے۔ یہ تو صرف چند مثالیں تھیں اس عجیب و غریب اور دلچسپ دنیائے سائنس و جدت طرازی کی جہاں ہم سانس لے رہے ہیں۔ وہ ممالک جنہوں نے بڑے پیمانے پر معیاری تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری کی ہے اور پھر اپنی تحقیق کو جدید مصنوعات کی تخلیق سے منسلک کر دیا ہے وہ دراصل اپنی نوجوان نسل کی ذہنی صلاحیتوں کا بڑا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ تقریباً 4000 کمپنیاں صرف ایک ادارے MITکے فارغ التحصیل طلبہ نے قائم کی ہیں۔ ان کی سالانہ فروخت تقریباً 250/ارب ڈالر اور ان میں دس لاکھ سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں۔ حکومت، تعلیمی اداروں اور نجی شعبوں کے مابین مضبوط ہم آہنگی کے نتیجے میں اُن ممالک کو بے شمار فوائد حاصل ہوئے ہیں جو حوصلہ اور لگن کے ساتھ علم کی راہ پر چل کر سماجی و اقتصادی ترقی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان بھی 2002ء میں علم پر مبنی معیشت (Knowledge Economy) کی راہ پر گامزن ہو گیا تھا جب ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیا گیا تھا ۔اس لئے کہ جامعات اور تحقیقی اداروں کو مضبوط کیا جائے تاکہ پاکستان میں بھی جدت طرازی پنپ سکے اور اس دہائی میں قابلِ ذکر تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں۔ اکتوبر 2008ء میں، میں نےHEC سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا جب اُس وقت کی نئی حکومت نے بیرونِ ملک تعلیم کے لئے بھیجے گئے ہزاروں غریب طلبہ کے وظائف جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت تک ہماری کئی جامعات دنیا کی چوٹی کی 300-500جامعات کی بین الاقوامی رینکنگ میں شمار ہو چکی تھیں۔(UK Times Higher Eduction Ranking) بین الاقوامی جرنلوں کی تعداد سالانہ 600 تحقیقی اشاعتوں سے بڑھ کرسالانہ 8000 تحقیقی اشاعتوں تک جا پہنچی ہے۔ اس طرح آج تحقیق میں بھارت سے (آبادی فی ملین کی بنیاد پر) ہم اس کے برابر یا تھوڑا سا آگے پہنچ گئے ہیں۔ جامعات اور ڈگری دینے والے اداروں کی تعداد2000ء میں صرف 59 تھی جو بڑھ کر گزشتہ سال137 تک ہو گئی ہے۔ 2000ء میں جامعات میں طلبہ کی تعداد صرف 270,000 سے بڑھ کراب تقریباً دس لاکھ طلبہ ہوگئی ہے۔ پی ایچ ڈی کی پیداواری سطح جوکہ 1947ء سے2003ء تک صرف 3600 تھی، بڑھ کر گزشتہ دس سال 6,000 پی ایچ ڈی ہو گئی ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی شعبوں کے متعلق عالمی بینک کی رپورٹ میں اس شاندار تبدیلی کو ایک خاموش انقلاب کہا گیا۔ 2008ء سے 2013ء کے دوران جعلی ڈگریوں کے حامل پارلیمانی رکن یکجا ہو گئے اور بارہا HEC پر حملے کئے گئے۔ ان میں وقاص اکرم جو کہ وزیر تعلیم تھے اور جن کی اپنی ڈگری جعلی نکلی وہ پیش پیش تھے لیکن سپریم کورٹ دو مرتبہ ایک ڈھال کے مانند میری اپیلوں کی حمایت میں سامنے آیا اور خوش قسمتی سےHEC اب تک قائم ہے۔ اس میں PML(N) نے اہم کردار ادا کیا ہماری قوم کو ان کا اور MQMکامشکور ہونا چاہئے۔ ماروی میمن صاحبہ PML(N) کی اہم رکن ہیں وہ HECکو بچانے کی جنگ میں میرے ساتھ رہیں اور سینیٹر حسیب خان (MQM)نے بھی بہت ساتھ دیا۔ ایک اہم تجویز جو کہ علم پر مبنی معیشت (Knowledge Economy)حاصل کرنے کے لئے بہت کارگر ثابت ہو سکتی تھی وہ پچھلی حکومت نے ترک کر دی اور اب ضرورت ہے اگلی حکومت اس پر نظرِثانی کرے۔ یہ تھا پاکستان میں غیر ملکی انجینئرنگ جامعات کے نیٹ ورک کا قیام تاکہ ہمارے انجینئرنگ کے طلبہ پاکستان میں ہی غیر ملکی جامعات کی ڈگریاں حاصل کر سکیں۔ اس کے لئے جرمنی فرانس ، اٹلی ، سوئیڈن، آسٹریا، چائنا اور کوریا کے ساتھ تعاون حاصل کیا گیا تھا۔ ہر جامعہ کا اپنا قائم کردہ ٹیکنالوجی پارک ہو تاکہ جو تحقیق ہو رہی ہے وہ فوری طور پر جدید مصنوعات میں تبدیل ہو جائے اور سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔ چار قانون پڑھانے کی جامعات بھی قائم کی جانی تھیں تاکہ قانون کی تعلیم کو بھی مضبوط کیا جا سکے،یہ منصوبہ بھی روک دیا گیا ۔ جس طرح سے ہمارے تعلیمی، سائنسی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کی بربادی گزشتہ پانچ سالوں میں ہوئی ہے اس کی ایسی مثال پاکستان کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی تاہم اب بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ ہم اب بھی بہتر مستقبل کی امید کر سکتے ہیں۔ مہاتیر محمد نے ایک دفعہ مجھ سے ذکر کیا تھا کہ آج سے 30سال پہلے ملائیشیا نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ ہم تمام شعبوں کے فنڈز میں کٹوتی کر کے تعلیم پر مختص کریں گے کیونکہ ملائیشیا کا مستقبل تعلیم یافتہ آبادی پر منحصر ہے اس پالیسی کے نتیجہ میں آج اسلامی ممالک کی کل اعلیٰ ٹیکنالوجی برآمدات کا 86%سے زائد حصہ اکیلا ملائیشیا برآمد کرتا ہے۔ اگر پاکستان کو غربت، دہشت گردی اور ناانصافی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو لازمی ”علم پر مبنی معیشت“ (Knowledge Economy)قائم کرنا ہو گی۔ اسی میں ہماری بقاء ہے۔نئی حکومت کو”تعلیمی ایمرجنسی“ کا اعلان کر دینا چاہئے اور مجموعی پیداوار کا کم از کم 7% تعلیم پر مختص کر دینا چاہئے جس کا چوتھائی حصہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے لئے مختص ہو تاکہ آخر کار ہم بھی خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں