سیاسی فضا میں تبدیلی

Wednesday / Jan 23 2013

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

سالِ نو کی آمد کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان کی سیاسی فضائیں بھی تبدیل ہو رہی ہیں، ہر ایک کی نظر میں ایک امید کی کرن جاگی ہے کہ اس نئے سال کی شروعات بدعنوانیوں سے پاک پاکستان سے ہو۔ جن افراد نے اس سرزمین کو قرض اور محرومیوں کے گہرے سمندر میں ڈبو دیا ہے اُن کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔ سابق وزیرِ خزانہ کے مطابقFBR خود شدید قسم کی بدعنوانیوں میں ملوث ہے جس کی بدولت500/ارب روپے سالانہ کے حساب سے گزشتہ پانچ سالوں میں 2500/ارب روپے ہیرا پھیری کی نظر ہو گئے ہیں اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے تخمینے کے مطابق تقریباً 8000/ارب روپے2008ء سے 2011ء کے دوران بدعنوانی کی نظر ہو گئے ہیں لہٰذا گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً11,000/ارب روپے بدعنوانیوں کی نظر ہوئے ہیں جس نے اس عظیم مملکت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے اور عام آدمی غربت اور مہنگائی کے بوجھ تلے دفن ہو کر رہ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو وسیع قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے نوازا ہے، ہمارا دریائی نظام دنیا کا پانچواں سب سے بڑا نظام ہے جو پن بجلی کے ذریعے تقریباً46,000میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے شمال میں ڈھیر ساری آبشاریں ہیں جو چھوٹے پن بجلی گھروں کے قیام سے4500میگاواٹ بجلی فراہم کر سکتی ہیں۔ کوئلے کے ثابت شدہ ذخائر579ملین ٹن تقریباً 180سالوں کے لئے کافی ہیں۔ صرف تھر میں کوئلے کے ذخائر 50,000میگاواٹ بجلی اور 100ملین بیرل تیل کی سالانہ پیداواری صلاحیت رکھتے ہیں جو کہ اگلے500سالوں کے لئے کافی ہیں۔ اسی طرح گیس کے بھی کئی ذخائر ہیں جنہیں ابھی تک استعمال میں نہیں لایا گیا۔ کوہاٹ کے قریب” ٹال“ بلاک میں گیس کے ذخائر سوئی گیس کے ذخائر جتنے ہی بڑے ہیں۔ سینڈیک میں ہمارے پاس خام تانبے اور سونے کے بھی وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ہمارے معدنی وسائل میں جپسم، چونا پتھر، کرومائیٹ، خام لوہا، پتھر نمک، چاندی ، قیمتی پتھر، جیم، ماربل اور سلفر شامل ہیں۔ دنیا کی پانچویں سب سے بڑی سونے کی کان ، ساتویں سب سے بڑی تانبے کی کان اور دیگر نادر و نایاب معدنیات کی موجودگی میں پاکستان دسیوں ارب ڈالر سالانہ کما سکتا ہے بشرطیکہ ہم انہیں معدنیات اور دھاتوں کو ان کی تراشیدہ حالت میں برآمد کریں، بجائے اس کے کہ ان کو خام حالت میں مٹی کے داموں برآمد کریں۔ پاکستان میں زبردست زرعی صلاحیتیں بھی موجود ہیں، کسانوں کو تعلیم دینے اور چند معمولی زرعی اصلاحات کی بدولت فصلوں کی پیداوار کو تین گنا زیادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت ہمارا شمار دنیا کے سب سے زیادہ گندم اور چاول پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے لیکن ہماری سب سے اہم اور بڑی قوت وہ نوّے لاکھ افراد ہیں جن کی عمر 19برس سے کم ہے۔ یہی ملک کی سب سے بڑی دولت ہیں اور ہمیں چاہئے کہ علم پر مبنی معیشت کی راہ استوار کرنے کے لئے ان پر تعلیم اور تربیت کے لئے وسیع سرمایہ کاری کریں۔ اتنی صلاحیتوں اور وسائل کے باوجود ملک ایک جنگل بنتا جار ہا ہے اور یہ سب سراسر بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور نااہلی کی بدولت ہے تاہم جیسا کہ پرویز مشرف کی حکومت کے پہلے چند سالوں سے واضح ہو گیا تھا ہمارا ملک حیرت انگیز رفتار سے ترقی کر سکتا ہے اگر اسلوبِ حکمرانی اچھا ہو۔ اکتوبر1999ء سے اکتوبر2002ء کے دوران وزارتی کابینہ صرف پندرہ اراکین پر مشتمل تھی جس میں، میں بھی شامل تھا۔ یہ پاکستانی تاریخ کے سب سے عمدہ ادوار میں سے ایک تھا۔ پاکستان اقتصادی تباہی کے دہانے سے باہر نکل آیا تھا، IMFکے قرضوں سے نجات حاصل ہو گئی تھی اور ہماری مجموعی پیداواری (GDP) شرح بڑی تیز رفتاری سے 8%تک جا پہنچی تھی جو کہ چین کے بعد ایشیاء کی سب سے زیادہ پیداواری شرح تھی۔IT اور ٹیلی کام ڈویژن بھی میرے تحت وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کا حصہ تھے۔ موبائل ٹیلی کمیونی کیشن کے شعبے میں ہمارے چند فیصلوں نے انقلابی تبدیلیاں رونما کیں، وہ یہ ہے کہ موبائل فون پر کال کرنے کے معاوضے کم کر دیئے گئے اور نئی موبائل کمپنیوں مثلاً (Ufone) کو میدان میں لایا گیا تاکہ مقابلے کا رجحان بڑھے۔ سب سے اہم فیصلہ یہ تھا کہ صرف کال کرنے والے صارفین کو ادائیگی کرنی پڑے گی۔ کال موصول ہونے والے صارفین کو نہیں۔”جو کال کرتا ہے وہ ادا کرتا ہے“ کے نام سے ایک مہم متعارف کرائی گئی جس نے دھماکہ خیز انداز میں موبائل فون کے شعبے کو2001ء میں جلا بخشی جو عرصہ دراز سے نہایت سست رفتاری سے چل رہا تھا۔ اُس وقت ملک بھر میں صرف3 لاکھ موبائل فون تھے اور اب اُن کی تعداد بڑھ کر ایک کروڑ 20لاکھ موبائل فون تک پہنچ گئی ہے بلکہ یہ ہماری معیشت کا سب سے منافع بخش شعبہ بن گیا ہے۔ پاکستان پھر ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکتا ہے اگر ہم یہ تہیہ کر لیں کہ ہمارے نظام ِ حکمرانی میں صرف وہی افراد شامل ہوں جو کہ دیانتدار، تکنیکی لحاظ سے ماہر اور اہل ہوں۔ موجودہ پارلیمانی نظام جمہوریت ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے ایک عام شہری لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا شکار ہے۔ اس نظام کو تبدیل کرنا چاہئے اور ایک نیا نظام متعارف کیا جانا چاہئے جو کسی بھی بدعنوان شخص کو صاحب حکومت نہ بننے دے۔ علامہ طاہرالقادری بڑی ہم تجاویز اور خیالات کے ساتھ پاکستان آئے ہیں اور ماضی میں عمران خان بھی کچھ یہی باتیں کرتے رہے ہیں تاہم ملک میں رائج موجودہ برطانوی پارلیمانی نظامِ جمہوریت میں جہاں جاگیرداروں کے مضبوط شکنجے میں ناخواندہ اور محکوم عوام الناس ہے وہاں ہر بار بدعنوان ہی منتخب ہو سکے گا اور جتنے بھی اہل، قابل اور مخلص شہری ہیں وہ موجودہ نظام انتخابات میں ہر گز کھڑے ہونے کی کوشش نہیں کریں گے کیوں کہ موجودہ نظام کے تحت وہ کروڑوں کی سرمایہ کاری نہیں کر سکتے جس کی اس انتخابی عمل میں سخت ضرورت پڑتی ہے ۔ درمیانی اور نچلے درمیانی طبقے کے لوگ تو اس انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لئے غور بھی نہیں کر سکتے۔ ایک بنیادی تبدیلی جس کے بارے میں نہ علامہ طاہر القادری نے سوچا ہے نہ ہی عمران خان نے، وہ ہے صدارتی نظامِ جمہوریت کا قیام جس میں کابینہ کے وزراء کا انتخاب پارلیمینٹ میں سے نہ ہو بلکہ خود صدرِ مملکت ملک کے بہترین اور قابل افراد میں سے براہ راست کرے گا۔ پارلیمینٹ کا کام صرف اتنا ہو گا کہ وہ قانون سازی کرے گی اور قومی پروگراموں کی نگرانی کرے گی۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ جو بدعنوان افراد کروڑوں خرچ کر کے پارلیمینٹ کے ممبر بن جاتے ہیں اور پھر اربوں روپے لوٹنے میں لگ جاتے ہیں وہ پھر پارلیمینٹ میں نہیں آئیں گے کیونکہ کرپشن کے راستے بند ہو جائیں گے۔ ہم امریکی انتخابات میں دیکھ چکے ہیں کہ کیسے اوباما کو پریس اور ٹی وی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اہم قومی معاملات پر جمہوری امیدوار سے بحث کرنا پڑتی ہے۔ جس کے ذریعے ان کی قابلیت اور اہلیت تمام عوام الناس کے سامنے ظاہر ہو جاتی ہے تاہم ایک بار منتخب ہونے کے بعد انہیں کھلی آزادی ہوتی ہے کہ اپنی حکومت کا نظام چلانے کے لئے اپنے ملک کے قابل افراد خود منتخب کر کے ایک ٹیم بنائیں۔ فرانس اور دیگر ممالک میں بھی یہی نظام نافذ ہے۔ موجودہ برطانوی پارلیمانی جمہوری نظام بھارت اور بنگلہ دیش کے لئے اس وجہ سے مناسب رہا کہ آزادی کے فوراً بعد ہی وہاں جاگیردارانہ نظام کو ختم کر دیا گیا تھا۔ یہ وہ قدم ہے جسے اٹھانے کی ہمت ہماری حکومت آج تک نہ کر سکی کیونکہ وہاں جاگیردار وزراء بیٹھے ہیں لہٰذا عبوری حکومت کا پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ سپریم کورٹ اور فوج کی سرپرستی میں آئین میں بنیادی تبدیلیاں کرے جیسا کہ میں اپنے گزشتہ مضامین میں تجاویز پیش کر چکا ہوں۔ جاگیردارانہ نظام ختم کرے اور صدارتی نظامِ جمہوریت نافذ کرے۔ آج پاکستان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور اسی راستے پر سفر جاری رکھنا خودکشی کے مترادف ہے۔ ہمیں انتظامی نظام میں اصلاح کی ضرورت ہے جو لوگ اس ملک کو لوٹ چکے ہیں انہیں کسی بھی حال میں فرار ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ ان سے وہ لوٹا ہوا 11,000/ارب روپیہ واپس لینا ہوگا اور انہیں باقی زندگی کے لئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کر دینا چاہئے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں