ایک مختلف جمہوری نظام

Thursday / Jan 17 2013

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

آج پاکستان کی حالت اُس دہانے پر ہے کہ اس کو ایک ناکام ریاست قرار دیا جا سکتا ہے۔ جعلی رینٹل پاور منصوبوں کی بدولت صنعتیں بدترین بدحالی کا شکار ہیں۔ جس میں چند بااثر شخصیات نے اربوں روپے بیرونِ ممالک خردبرد کر دیئے ہیں اور حکومت 50+ روپے فی یونٹ کے حساب سے ان مالکان سے بجلی خرید رہی ہے جن کے یونٹ پہلے ہی پرانے اور تباہ حال ہیں یقیناً یہ بھی ایک بدعنوانی کا سودا ہے۔ اس اسکینڈل کا ذکر عبدالستار خان 31مارچ 2012ء میں ”دی نیوز“ کے ذریعے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کے سابق وزیرخزانہ کے مطابق تقریباً 500/ارب روپے سالانہ کی خردبرد صرف فیڈرل بورڈ آف ریوینو (FBR) کی بدعنوانیوں کی نظر ہو جاتے ہیں (یعنی گزشتہ پانچ سالوں میں ڈھائی ہزار ارب روپے) اسی طرح پاکسان اسٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے، سوئی سدرن گیس کمپنیوں کی بدحالی کی ذمہ داری یہی بدعنوانیاں ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے تخمینے کے مطابق تقریباً 8500/ارب روپے کی کثیر رقم گزشتہ چار سالوں میں بدعنوانیوں کی نظر ہو گئی ہے اور اس میں اب بتدریج اضافے کے بعد یہ رقم 11,000/ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔ جمہوریت کے موجودہ نظام کی ناکامی کا سبب دو اہم عوامل ہیں جو ایک دوسرے سے منسلک ہیں، پاکستان جو آج تیزی سے ڈوب رہا ہے اس کی وجہ یہی ہے۔ جاگیردارانہ نظام کا شکنجہ اور بڑے پیمانے پر ناخواندگی۔اس بھنور سے کیسے باہر نکلا جائے۔ 1۔سب سے پہلے تو اُن افراد کو جنہوں نے اس ملک کو لوٹا ہے خواہ وہ کسی بھی تنظیم سے تعلق رکھتے ہوں، ایسی مثالی سزائیں دی جانی چاہئیں تاکہ دوسرے آنے والے حکومتی افراد کو عبرت حاصل ہو اور اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس قسم کی لوٹ مار کرنے کی ہمت نہ کر سکیں اور یہ صرف فوجی عدالتوں کے قیام ہی سے ممکن ہے کیونکہ ہم یہ اچھی طرح جان چکے ہیں کہ موجودہ نظامِ انصاف کسی بھی طرح ماضی میں مجرموں کو پکڑنے اور سزائیں سنانے میں نہایت غیر موثر ثابت ہوا ہے۔ 2۔ہمیں موجودہ جمہوری پارلیمانی نظام کو منسوخ کر دینا چاہئے جو کہ جاگیردارانہ حکمرانی کی وجہ سے مکمل طور پر مفلوج ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ تقریباً 20سے40کروڑ روپوں کی ”سرمایہ کاری“ کی بدولت انتخابات جیت کر برسرِاقتدار آتے ہیں تاکہ ایک بار اقتدار میں آتے ہی اربوں روپے کی چوری کر کے بیرونِ ملک اثاثے بنا سکیں اور ملک کی اقتصادی صورتحال کو بدحالی کے موڑ پر لاکھڑا کریں۔ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ فوجی اقتدار اپنی کوتاہیوں کے باوجود موجودہ جمہوری نظامِ حکمرانی کے لحاظ سے ہزار گنا بہتر ثابت ہوا اور یہ ”جمہوریت“ جسے ہم بڑی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس نے ملک کو غربت میں ڈبو دیا ہے تاہم ہماری کوتاہیوں اور غلطیوں کا جواب فوجی حکمرانی ہر گز نہیں ہے، ہمیں کوئی اور راستہ دیکھنا ہو گا جو ہمارے ملک کو موجودہ تباہ کن صورتحال سے چھٹکارا دلا سکے۔ میں نے حال ہی میں25 /اگست اور 8 ستمبر 2012ء کو ”دی نیوز“ میں شائع مضامین میں اس موجودہ بدحالی کا سیاسی حل تجویز کیا ہے جس کے تحت برطانوی پارلیمانی نظام حکومت کو صدارتی نظام میں تبدیل کیا جانا چاہئے جہاں ایک ہی فرد کا انتخاب بحیثیت سربراہِ مملکت ہو اور پھر وہ اپنی کابینہ کے ہر شعبے کے لئے سب سے بہترین اور ایماندار ماہرین کا بحیثیت وزراء انتخاب کرے تاکہ انتخابات کے اس ’گھناؤنے کاروبار“ کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جائے۔ صوبائی اسمبلیوں کا کردار محض قانون سازی اور حکومتی پروگراموں کی نگرانی تک ہی محدود رہنا چاہئے اور اُن کو کابینہ کا رکن بننے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ پاکستان میں موجودہ نظام میں قابل افراد ہر گز انتخابات لڑنے کا تصور بھی نہیں کرتے کیونکہ وہ انتخابی عمل کے ڈھونگ کو (جس کے تحت300 سے زائد اراکینِ پارلیمینٹ کا انتخاب ان کی ڈگریاں جعلی ثابت ہونے کے باوجود کر لیا گیا ہے) اپنے وقار سے گرا ہوا محسوس کرتے ہیں لیکن یہ صدارتی نظام ان کے لئے اہم قومی عہدوں پر تقرری کے دروازے کھول دے گا۔ 3۔قابل افراد پر مبنی ایک ”عدالتی کونسل“ (جس میں اچھی شہرت کے حامل سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج اور دوسرے بے داغ کردار کے شہری شامل ہوں) قائم کی جانی چاہئے جو ان تمام سرکاری حکام (صدر، کابینہ کے وزراء، کابینہ سیکریٹری، صدر کے، مشیر اہم قومی اداروں کے صدور جیسا کہ پاکستان اسٹیل، ریلوے، پی آئی اے، نیب، ایف آئی اے ،گورنر اسٹیٹ بینک، صوبائی گورنرز اور وزرائے اعلیٰ اور اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی) کو اُن کی ایمانداری اور کارکردگی کی بنیاد پر اُن کو چھانٹا جائے اور اِن اعلیٰ عہدوں پر مقرر کئے جانے سے پہلے اہل قرار دیئے جائیں۔ 4۔ جمہوریت صرف اسی وقت کارآمد ہو سکتی ہے جب ووٹ ڈالنے والے افراد خواندہ ہوں اور اُن میں مختلف سیاسی تنظیموں کا منشور سمجھنے اور اس میں فرق کرنے کی تمیز ہو۔ پاکستان میں جمہوری عمل کے ناکام ہونے کی سب سے بڑی وجہ جاگیردارانہ و زمیندارانہ حلقوں کا ان کے علاقے میں شدید اثر و رسوخ ہے، جس سے انحراف کرنا ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ پاکستان کی 50% آبادی ناخواندہ ہے اور باقی آدھی آبادی اخبار تک نہیں پڑھ سکتی بلکہ بمشکل اپنے دستخط کر سکتی ہے۔ ان حالات میں حقیقی جمہوریت کسی صورت نہیں پنپ سکتی۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ ووٹ ڈالنے کا حق اُن لوگوں تک محدود ہو جنہوں نے کم از کم ثانوی تعلیمی امتحان پاس کیا ہوا ہو چونکہ اراکینِ پارلیمینٹ کا بنیادی مقصد قانون سازی ہے چنانچہ پارلیمانی رکنیت کے خواہشمند افراد (کل رکنیت کے کم از کم 70فی صد) کم سے کم ماسٹرز ڈگری کے حامل ہوں تب ہی وہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لئے اہل قرار دیئے جائیں۔ 5۔ہمارے موجودہ نظام میں سیکریٹریوں کو تمام اختیارات حاصل ہیں، وہ عام طور پر ان شعبوں کی وزارتوں میں بالکل ماہر نہیں ہوتے جن وزارتوں کے وہ سیکریٹری ہیں۔ اس نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہر سیکریٹری کو اپنے شعبے کا ماہر ہونا چاہئے اور اسے اسی شعبے کے اعلیٰ ماہرین کی حمایت بھی ایک کمیٹی (تھنک ٹینک) کی صورت میں حاصل ہونی چاہئے۔ 6۔فوج ملک کا سب سے زیادہ منظم ادارہ ہے۔ قومی سلامتی کونسل کے ذریعے انتظامی امور میں فوج کو شامل کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہئے جیسا کہ ماضی میں ہمارے دوست ملک ترکی نے بڑی کامیابی سے اس پر عمل کیا تھا۔ 7۔پاکستان صرف اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب وہ علم پر مبنی معیشت کی طرف قدم تیزی سے بڑھائے۔ اس کو حاصل کرنے کے لئے آئین میں تبدیلی کرنی ہو گی اور اس تبدیلی کے ذریعے کسی بھی حکومت کے لئے لازمی قرار ہونا چاہئے کہ اپنیGDP کا 8% تعلیم پر خرچ کرنے کی پابند ہو (جس کا 25% اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص ہو) اور کم از کم اپنیGDPکا2% سائنس و ٹیکنالوجی کے لئے مقرر ہو۔ حکومت کا کام یہ بھی ہو گا کہ جدت طرازی اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی راہ پر لبیک کہے کیونکہ ہماری اصل دولت ہماری نوجوان نسل ہے۔ ایسا کرنے کے لئے”قومی تعلیمی ہنگامی حالت“ کا اعلان کر دینا چاہئے اور جو شہری بھی اپنے بچوں کو اسکول نہ بھیجے اسے مجرمانہ قدم قرار دیتے ہوئے سزا کا مرتکب قرار دیا جانا چاہئے۔ 8۔عدالتی اصلاحات بھی دائر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تمام مقدمات کا فیصلہ 60دنوں کے اندر کرنا لازمی قرار دیا جائے۔ ایسا کرنے کے لئے مناسب تعداد میں ججوں کو تقرری کی ضرورت ہے۔ جن کی عارضی بنیادوں پر خدمات حاصل کی جائیں اور ان کی تنخواہوں کی ادائیگی پیداوار اور اچھی کارکردگی کی بنیاد پر کی جائے۔ مندرجہ بالا تجاویز پر موجودہ پارلیمینٹ ہر گز عمل نہیں کر سکتی۔ ان اصلاحات کی بجاآوری کے لئے عدلیہ اور فوجی حمایت چاہئے جو صرف ایک عبوری حکومت کر سکتی ہے اگر کچھ بھی نہ کیا گیا اور اسے جاری رکھا گیا تو ہمارے سرکاری خزانوں میں ایک پیسہ نہیں بچے گا حتیٰ کہ فوجی اہلکاروں تک کو تنخواہیں دینے کے لئے کچھ نہیں بچے گا۔ ملک قرض اور بدعنوانی کے بوجھ تلے ڈوب جائے گا۔ محض اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے یہ عظیم مملکت تاریخ کے کوڑے دان میں کہیں کھو جائے گی۔ یہ وہ جمہوریت نہیں ہے جس کا تصور قائداعظم محمد علی جناح نے پیش کیا تھا۔ ہماری سپریم کورٹ کو برجستہ اقدام اٹھانے پڑیں گے۔ اس سے پہلے کہ پاکستان ایک ریاست کے طور پر ناکام ہو جائے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں