Friday / Oct 05 2018
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
وطن عزیز کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ قیام سے لے کر موجودہ حکومت کے آنے تک ہم اکثر حکومتوں میں مخلص حکمرانوں سے محروم رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بدعنوانی جڑوں میں بیٹھ گئی ہے اور بری طرح سےاسے کھوکھلا کر دیا گیا ہے ۔کسی بھی ملک کی معیشت اسکے وجود کا اہم ستون ہوتی ہے ۔ پاکستان اس وقت ایک بہت بڑے مالیاتی بحران کا شکار ہے ۔ا س وقت پاکستان پر 95 ارب ڈالر کا قرض ہے جس کا زیادہ تر حصہ گزشتہ 10 سالوں میں لیا گیا ہے، کیونکہ پچھلے قرضوں کو ادا کرنے کیلئے نئے قرضے لے لئے جاتے ہیں لیکن ان کی ادائیگی نہیں کی جاتی اس طرح ہم روز بروز قرض کی گہری کھائی میں گرتےجارہے ہیں ۔ ماضی میں ہوئی بدترین بدعنوانیوں نے ہمیں اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ وہ ’’جمہوری نظام‘‘ جس کی ہم نے ہمیشہ خواہش کی اس کےمقابلے میں آمریت بہتر لگنے لگی۔ جمہوریت کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ کلیدی ادارے جو بدعنوانوں کو پکڑنے اور سزا دینے کے ذمہ دار ہیں ان پر قابو پا کر لوٹنے کی آزادی حاصل کر لی جائے، پاکستان میں یہ حکمرانوں کے ساتھیوں کی تقرری کے ذریعے ہوتا آیا ہےنتیجے کے طور پر غربت اس خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے کہ اس نے بہت سے نوجوانوں کو مجرم بننے پرمجبور کردیا ہے تاکہ وہ چوری چکاری ہی کرکے اپنے خاندان والوں کا پیٹ بھر سکیں، صنعتی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے ملازمتیں ناپید ہو گئی ہیں اور ملک بھر میں بڑی تعداد میں صنعتیں بجلی کے نرخوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے بند ہو گئی ہیں، قائداعظم کا حسین خواب ،ایک ڈراؤنی حقیقت کا روپ دھار گیا ہے۔جو لوگ اقتدار میں موجود تھے انہوں نے حاصل شدہ 200 ارب ڈالر غیر ملکی بینک اکاؤنٹس میں غیر قانونی طور پر جمع کر رکھے ہیں جبکہ ہمارا ملک بھوک و افلاس کی نذرہو گیا ہے ۔ پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کا ذمہ دار دوسرا اہم عنصر عوام میں نا خواندگی ہے۔ پاکستان کی تقریباً نصف آبادی ناخواندہ ہے باقی نصف کا ،ایک بڑا حصہ بمشکل دستخط کر سکتا ہے۔ اس صورت حال میں انتخابات پارٹی کے منشور کی بنیادوں پر نہیں بلکہ طاقت کی بنیاد پر لڑے جا رہے ہیں۔ یہ ان طاقتور لوگوں کے مفاد میں نہیں ہے کہ تعلیم میں سرمایہ کاری کی جائے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ عوام ان کے غلام بن کر رہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنی جی ڈی پی کا صرف 2.1فیصدتعلیم پر خرچ کرتا ہے اس طرح پاکستان کا شمار دنیا کے سب سے نچلے ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جو تعلیم پر سب سے کم خرچ کرتے ہیں۔ تیسرا اہم عنصر عدالتی نظام کا مکمل طور پر فعال نہ ہوناہے ۔قومی مصالحتی آرڈیننس(National Reconciliation Ordinance)اس کی ایک مثال ہے۔ ججوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ اگر مجرموں کے مطالبات کو پورا نہیں کیا تو قتل کر دیا جائے گا ،جیسا کہ جسٹس نظام احمد مرحوم کے ساتھ ہوا تھا جب ان کو اور ان کے بیٹے کو دن دھاڑے قتل کر دیا گیا تھا ۔ اگر ہم پاکستان میں جمہوریت کی بقاء کے خواہش مند ہیں تو ہمیں حکمرانی کے نظام میں اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔ سب سے پہلے توآئین کو تبدیل کرنا ہوگا تاکہ صدارتی نظامِ جمہوریت متعارف کرایا جاسکے جس کے تحت صدر سب سے زیادہ موزوں افراد پر مشتمل تکنیکی ماہرین کی ٹیم کو بطور وفاقی وزراء منتخب کرتا ہے ، پارلیمانی اراکین وفاقی یا صوبائی وزراء یا ریاست کے وزراء بننے کے اہل نہیں ہوتے،اس نظام کو اپنانے کے نتیجے میں اربوں روپے خرچ کر کے بدعنوان جاگیر داروں کی منتخب ہونے کے لئے ’’سرمایہ کاری‘‘ کی خواہش ختم ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی ڈائری میں اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹ میں صدارتی نظام جمہوریت کی تاکید کی تھی اور یہ آکسفورڈ یو نیورسٹی پریس کی کتاب میں، جس کا عنوان جناح بیاض (The Jinnah Anthology ) ہے، میں ا ن کی ڈائری میں لکھی ہوئی تحریر کی تصویر مو جود ہے۔ انتخابی کمیشن کی جانب سے پارلیمانی رکن بننے کے لئے تعلیمی اہلیت کی شرط ختم کرنا ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ پارلیمانی نمائندوں کو بھی کم از کم ماسٹر ڈگری کا حامل ہونا چاہئے کیونکہ ان کا کام قانون سازی ہے۔ہم ایسےپارلیمانی اراکین سے قا نون سازی کی توقع کیسے کرسکتے ہیں جو خود مناسب تعلیم یافتہ نہ ہوں بلکہ ان اراکین کی، قومی انتخابات میں حصہ لینے سے قبل صداقت اور صلاحیت کی آزادانہ طور پر جانچ پڑتال کی جانی چاہئے، اسی طرح کی جانچ پڑتال صدر حکومت اور دیگر اہم شخصیات اور کلیدی قومی اداروں کے سربراہوں کی بھی کی جانی چاہئے، اب اگر نئی حکومت نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو حقیقی اصلاحات متعارف کرانا ہونگی، جیسا کہ بھارت میں اور بعد میں بنگلہ دیش میں کیا گیا تھا جس نے ان ممالک میں حقیقی جمہوریت کی بنیاد رکھی، چین کی طرح بدعنوانی کے معاملات میں مجرموں کو سخت سزا ئیں دی جانی چاہئیں جس میں سزائے موت بھی شامل ہے ۔ بنگلہ دیش میں یہ کام سپریم کورٹ نے یا تھا جس نے جاگیر دارانہ نظام کو ختم کیا اور جمہوریت کے لئے راستہ استوار کیا، اسی طرح پاکستان کی سپریم کورٹ کو بھی صورتحال کا مناسب نوٹس لینا چاہئے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جا ئے اور اس خطرناک صورتحال سے نکلنا کسی کے بھی بس میں نہ رہے۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں