خلائی سائنس میں ہونے والی پیش رفت

Tuesday / Aug 28 2018

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

عالمی سطح پر ہونے والی تیز ترین ترقی علم ، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی ہی کے بل بوتے پر ممکن ہوئی ہے ۔ جہاں سائنس نے ارضی شعبہ جات میں بھر پور ترقی کی ہے وہاں خلائی سائنس کا شعبہ بھی پیچھے نہیں رہا۔ ذیل میں اسی حوالے سے کچھ معلومات پیش خدمت ہیں۔ دنیا میں سب سے بڑا معجزہ کیا ہے؟ یہ صرف ارتقاء کے عمل کی بات نہیں ہورہی، زندگی کی تخلیق اور اس میںمل کر کروڑوں دوسرے عوامل ذہن کو اس طرح الجھا دیتے ہیں کہ یہ جاننا مشکل ہو جاتا ہے کہ زندگی دراصل ہے کیا؟یہ اشارہ دراصل اس سے بھی حیران کن عمل کی جانب ہے ،جس سے ہم میںسے اکثرلوگ ناواقف ہیں۔ وہ ہیں ستاروں کا ٹوٹنا اور اس سے ہمارا تعلق۔ہمارا جسم 65 فی صد آکسیجن اور 18فی صد کاربن پر مشتمل ہے، اس کے علاوہ پورا جسم نائٹروجن اور چھوٹی مقدار میںکئی دوسرے عناصر پر مشتمل ہے جن میں فاسفورس، لوہا، میگنیشم، کیلشیم وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام ایٹم کہاں سے آئے ہیں اور یہ کس طرح ہمارے اندرآکر ا ختتام پذیر ہو تے ہیں؟وہ عمل جس کے ذریعے ان ایٹموں کی تخلیق ہوتی ہے اسے نیوکلیئر فیوژن کہا جاتا ہے۔ چھوٹے ایٹم آپس میں مل کر بڑے ایٹم تشکیل دیتے ہیں۔ یہ فیوژن تعامل گرم جلتے ہوئے ستاروں کے مرکز میں وقوع پذیر ہوتا ہے جہاں کا درجۂ حرارت لاکھوں ڈگری سینٹی گریڈ ہوتاہے، اور دیوہیکل قوت ثقل ایٹموں کوایک ساتھ اس طرح چٹخاتی ہے کہ فیوژن کا عمل واقع ہو تا ہے۔ یہ قدرت کی بھٹیاں ہیں۔ انتہائی گرم بھٹیاں۔ جہاں ایٹم اس حد تک پکائے جاتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے میںمدغم ہوکر نئے بھاری عناصر تشکیل دیتے ہیں۔ فیوژن کا عمل ایک حرارت اور روشنی کے دھماکے پر منتج ہوتا ہے۔ آسمان پر چمکنے والے ہزاروں ستارے جو اپنی روشنی سے آسمان کو روشن کرتے نظر آتے ہیں دراصل اس کی وجہ یہی فیوژن تعامل ہے ۔یہی وہ طریقہ ہے، جس سے سورج کی روشنی دن کے وقت زمین کو گرم اور روشن رکھتی ہے اور جس کی وجہ سے زمین پر زندگی قائم و دائم ہے۔ سورج کا درجۂ حرارت 15ملین (ایک کروڑ پچاس لاکھ) ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور اس کے فیوژن عمل سے زیادہ تر ہیلیم گیس پیدا ہوتی ہے۔ چناں چہ اگر ستارے ہمارے سورج سے8گنا بڑے ہیں تو اس کی Crunch Power میں زیادہ قوت ثقل صرف ہوتی ہو گی اور اس کے نتیجے میںبعض بنیادی عناصر مثلا ًکاربن، نائٹروجن اور یہاں تک کہ لوہا تشکیل پاتا ہے۔ اس سے بھی بھاری عناصر مثلا ًنکل، سونا، یورنیم کی تخلیق کے لیے اس سے بھی زیادہ توانائی کی ضرورت ہو گی۔ یہ اس وقت ہوتاہے جب ستارے ٹوٹتے یاپھٹتے ہیں اور آخر میں روشنی اور توانائی کا ایک بڑا دھماکہ ہوتا ہے، جس کے ساتھ تابکار شعاعیں سپر نووا( Supernova )خارج ہوتی ہیں۔ سپرنووا سے پیدا ہونے والی روشنی وقتی طور پر پوری کہکشاں کو روشن کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے اور یہ تقریبا ًایک ہفتے میںمدھم ہوکے ختم ہوجاتے ہیں۔ اس شدید دھماکے سے پھیلنے والی روشنی (چاندنی) اس روشنی سے زیادہ ہوتی ہے جو ہمارے سورج نے ایک کروڑوں سال میں پیدا کی ہے۔ اس قسم کا سپر نوواSupernova بہت عام ہے اور یہ ہر 50 سال میںہماری کسی بھی کہکشاں میں ایک دفعہ ضرور واقع ہوتا ہے۔ وہ تمام مادّے جو ستاروں پر تالیف پاتے ہیں بیرونی خطہ میں خارج کر دیے جاتے ہیں۔ کوکبی غبار Stellar Dust جو کہ سپرنووا کے دھماکے سے وجود میں آتا ہے اور تھوڑے ٹائم بعد گر جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمارے سیارے پر موجود ہر عنصر کبھی ایک جلتی ہوئی بھٹی کا مرکز تھا۔ جو کسی ستارے کے سینے پر موجود ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے جسم میں موجود ہر ایٹم کبھی ایک جلتے ہوئے ستارے کا حصہ تھا ہماری انگلیوں، جلد، آنکھوں اور بال وغیرہ میں موجود تمام ایٹم بہت عرصے قبل کسی ستارے کے قلب میں واقع تھے، جس کا درجۂ حرارت لاکھوں ڈگری سینٹی گریڈ تھا یہ حقیقت ہے کوئی نظریہ یا افسانہ نہیں ۔ دھماکے سے پھٹتے ہوئے ستاروں میں جلتے ہوئے ایٹم سے ہم معجزاتی طور پر زندہ اور حساس انسانوں میں تبدیل ہو گئے۔ فرانس کے جنوب میں واقع ITER ری ایکٹر میں دنیا کا سب سے بڑا سائنسی تجر بہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ماہرین کے مطابق اس تجربے میں نیو کلیئر فیوژن کا عمل ایک بار پھر دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔150 ملین ڈگری سینٹی گر یڈ کے درجۂ حرارت پر بھاری ہائیڈروجن کے ہم شکل (آئسوٹوپ) سے پلازما کو نچوڑنے کے لیے انتہائی طاقت ور موصل Super Conducting مقناطیس کا استعمال کیا جائے گا۔ اس مشین کی تعمیر2019ء تک مکمل ہو نے کی توقع ہے اور اس کا بڑے پیمانے پر تجربہ2026ء میں کیا جائے گا۔اگریہ تجربہ کامیاب ہو گیا تو یہ حاصل کردہ توانائی سے دس گنا زیادہ توانائی خارج کرے گا اور اس کے نتیجے میں ہم سورج اور ستاروں کی کیمیا کو دہراتے ہوئے ہائیڈروجن کے آئسوٹوپ کے ذریعے اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ ہماری کہکشاں 200 بلین ستاروں پر مشتمل ہے اور اس کے اندر ہماری جیسی ہزاروں دنیائیں آباد ہیں۔ کسی بھی جگہ پر زندگی کی بقاء اور ارتقاء کے لیے ضروری ہے کہ وہ قابل رہائش حصے Habitable Zone میں ہو ،جو کہ ستاروں سے ایک مخصوص فاصلے پر ہوتا ہے ۔اگر سیارہ بہت دور ہو گا تو وہاں موجود پانی برف کی شکل میں ہو گا ۔چناں چہ زندگی کی تعمیر کرنے والی اینٹوں (امائنو ایسڈز، پروٹین اور نیو کلک ایسڈز) کی تشکیل کے لیے لازمی کیمیائی تعامل کا انعقاد مشکل ہو جائے گا یا پھر اگر پانی واقع ہو گا تو وہ بھاپ کی شکل میں ہو گا یہ بھی زندگی کے ارتقاء کے لیے مشکل ہے۔ 1976 ء میں ایک خلائی جہاز Viking 1زندگی کی تلاش میں مریخ پر اُتارا گیا تھا۔ اس وقت صرف مریخ ایسا مقام محسوس ہوتا تھا جہاں زندگی کے امکانات نظر آتے تھے۔ اس کے بعد یہ خیال مکمل طور پر تبدیل ہوگیا۔ گزشتہ 33سالوں کے دوران نئے اور طاقت ور ٹیلی اسکوپ اور سیٹلائٹ خلائی مشین نے کئی ایسی دنیائوں سے روشناس کروایا جہاں زندگی وقوع پذیرہو سکتی ہے۔1990ء کے وسط تک زمین کی طرح کے تقریباً 340سیارے دریافت ہوئے جو کہ اپنے اپنے سورج کے گرد گردش کرتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کئی کو سپر ارتھ Super Earth کا نام دیاگیا ،کیوں کہ وہ کئی انداز سے زمین جیسے ہیں۔1990ء میں مشتری کے چاند Europa پر اس کی برفیلی تہہ کے نیچے پانی کا ایک سمندر دریافت ہوا یہ Gelileo خلائی مشن نے دریافت کیا اور اس طرح اس فہرست میں ایک اور مقام کا اضافہ ہو ا۔جہاں زندگی ارتقاء پذیر ہو سکتی ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں ایک خلائی جہاز Cassini نے زحل کے چھوٹے (300میل چوڑے) برفیلے سیٹلائٹ (سیارچے) Enceladus پر گرم چشمے دریافت کیے ۔ستاروںپرسپر نووا supernova دھماکے اس کے قریبی ستاروں پر زندگی کے آثار کو کم کرتے ہیں ،کیوں کہ اس سے خارج ہونے والی تیز توانائی کی حامل تابکار شعاعیں (گیماشاعیں، ایکس رے، اور بالائے بنفشی شعاعیں) ان پر تباہ کن اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اس قسم کے دھماکے زندگی کی ارتقاء کے لیے ضروری بھی ہیں، کیوں کہ یہ اپنے گرد کی خلا میں مختلف عناصر مثلا ًکاربن، نائٹروجن، سیلیکون فاسفورس، کیلشیم اور بعض بھاری دھاتیں مثلاً لوہا، جو کہ زندگی کے لیے ضروری ہے۔ یہ عناصر فیوژن تعامل کے ذریعے گرم ستاروں کے شعلے فشاںمیںتبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ زندگی کے وجود اور ارتقاء کے لیے مخالف قوتوں کے خوبصورت توازن کی عکاسی کرتا ہے۔گرم ستاروں کے شعلے سپرنووا دھماکوں کی وجہ سے خلا میں بکھر جاتے ہیںاو رپھر زندگی کی تعمیر کی بنیادی اینٹوں امائنوایسڈ، پروٹین ،خود سے اپنی نقل تیار کرنے والے نیوکلیک ایسڈ، زندہ مخلوق امیبا اور پیچیدہ حیاتیاتی تنوع جس میں پودےاورجانور شامل ہیں زندگی اور اس کی بقا کے دلکش سفر کی کہانی سناتے ہیں۔ یہ سفر کروڑوں اربوں سال قبل ستاروں میں شروع ہوا تھا اور پھر یہ انسان اور اس کی ذہانت تک پہنچ گیا ۔زندگی کے معجزے کے حوالے سے حیران کن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے جسم میں موجود ہر ایٹم کا ہر باریک سے باریک ذرہ کروڑوں سال قبل ایک دہکتے ہوئے ستارے کے اندر کہیںموجود تھا۔ کیا دوسرے سیاروں پر زندگی موجود ہے؟ یہ سوال صدیوں سے سائنس دانوں کو پریشان کر رہا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کچھ اجنبی زمینیں سورج سے اتنے فاصلے پر ہوں کہ وہاں پانی مائع شکل میں رہ سکے ،کیوں کہ اگر یہ بہت دور ہوں گے تو پانی برف بن جائے گا اور بہت قریب ہوں گے تو پانی بھاپ میں تبدیل ہو جائے گا۔ ناسا نے رواں سال مارچ میںہمارے سورج کے محور کے قریب کیپلر ٹیلی اسکوپ بھیجی ہے، جس سے ماہرین کو اُمیدہے کہ بعض سوالوں کے جواب حاصل ہو جائیں گے۔ یہ ٹیلی اسکوپ زمین سے11 ملین کلومیٹر دور اپنے طے شدہ راستے پرمحو سفر ہے۔ کیپلر ٹیلی اسکوپ سیاروں کے وجود کا جائزہ لے گی، اس طرح وہ اپنے قریب سے گزرنے والے ایک لاکھ ستاروں کی چمک کا جائزہ لے گی اور اگر کچھ کی چمک ماند پڑتی محسوس ہو گی تو وہ سیارے ہو سکتے ہیں۔اسی اثناء میں یورپی سیٹلائٹ "Colot" نے زمین کی شکل کا ایک سیارہ دریافت کیا جو کہ ہم سے 390 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ اور اس کا قطر زمین سے دُگنا ہے۔ تاہم اس کا سطحی درجۂ حرارت 1000سینٹی گریڈ ہے ،جو کہ زندگی کی بقا کے حوالے سے انتہائی زیادہ ہے۔ وہ سائنس دان جو ایسے سیاروں کی تلاش میں آسمان پر نظریں جمائے ہوئے ہیں جہاں زندگی کے آثارپائے جاتے ہوں، ان میں ایک دفعہ پھر جوش پیدا ہوا ہے۔ اگر سیارے، ستارے سے بہت دور ہوں گے تو وہ انتہائی تاریک اور سرد ہوں گے اور زندگی کاوجود مشکل ہوجائے گا ۔ ہماری کہکشاں میںسیکڑوںکروڑ ستارے موجود ہیں اور اگران سے منسلک سیاروں کی معمولی سی تعداد بھی قابل رہائش ہے تو پھر ہمیں کروڑوں ایسے سیارے مل سکتے ہیںجہاںپانی موجود ہو گا اورجہاں زندگی پروان چڑھ سکتی ہے۔ چناں چہ کہکشاں میںکوئی ایسا علاقہ ضرور ہو گا ،جس کو قابل رہائش علاقہ یا "Habitable Zone کہا جا سکے، سائنس دان اس سےقابل رہائشی علاقے کی تلاش میں کئی دہائیوں سے سرگرداں ہیںاور آخر کار انہوں ایک ایسا علاقہ دریافت کر لیا ہے ۔یہ دریافت کیلیفورنیا یونیورسٹی کے Steven Vogt اور Carnegie Santa نے کی ہے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں