پاکستان کی معاشی ترقی ۔ چند تجاویز

Friday / Nov 17 2017

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

پاکستانی معیشت نہایت تشویش ناک صورتحال سے دو چار ہے ۔ ہمارےملک کے بجٹ کاخسارہ محتاط تخمینے کے مطابق 1,276ارب روپے کے بجائے 1,864 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے ۔ 2014 ء سے 2015ء میں 12.4 فیصد بیرونی قرض بجٹ کا خسارا پورا کرنے کیلئے استعمال کیا گیا تھا لیکن 2015ءسے 2016ءمیں بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کیلئے 27فی صدبیرونی ادھار اور 2016ءسے 2017ء میں یہ بیرونی ادھار 29فی صد تک پہنچ گیا ہے ۔ مجموعی طور پر بجٹ کا خسارہ جی ڈی پی کا تقریباً 5.8 فیصد ہو گیا ہے جبکہ 3.8 فیصد کا ہدف متعین کیا گیا تھا ۔ اسی طرح، موجودہ اکاؤنٹ کا خسارہ تقریباً 4 فیصد ہے جبکہ 1.5فیصد کا تعین کیا گیا تھا، اس معاشی صورتحال سے ملک کو مستقبل میں درپیش چیلنجوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔موجودہ حکومت میں سابق پی پی پی کی حکومت کے مقابلے میں ملک کی GDPمیں 5.3فیصد اضافہ ہوا ہےجو پچھلی حکومت کے مقابلے میں بہتر ہے ۔ لیکن درآمدات 53ارب ڈالر سے بڑھ گئی ہیں اور اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ اس معاشی بدحالی کے تدارک کے لئے حکومت کو فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔تمام درآمدات کو زیادہ سے زیادہ 45 ارب ڈالر تک محدود کیا جائے اور غیر ضروری اشیاء کی درآمدات کو منجمد کیا جائے۔ ساتھ ہی برآمدات میں اضافہ کرنے کی بھی ضرورت ہے اس کے لئے برآمد کنندگان کو اضافی مراعات کی فراہمی اور صنعتی سامان سازی کے شعبے کو بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی کے ذریعے زیادہ مسابقتی بنانے کی ضرورت ہے ۔ اس مالی سال کے موجودہ اکاؤنٹ میں 12.1ارب ڈالر(جی ڈی پی کا 4 فیصد)کا خسارہ ہوا ہے جو صورتحال کو غیر مستحکم بناتا ہے ۔ مجموعی طور پر بیرونی قرضوںمیں 9 ارب ڈالر اور حکومتی بیرونی قرضوں میں 4.7 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے ۔ پاکستان کے کل بیرونی قرضے اور ذمہ داریوں میں اب 25,000ارب روپے کااضافہ ہوچکاہے جوکہ ہماری جی ڈی پی کا 76 فیصد ہے۔اس صورتحال سے یہ واضح ہے کہ ہمیں اس وقت اہم مالیاتی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے ۔ پاکستان میں متعدد آنے واالی حکومتوں کا نقطہ نظر اور حکمت عملی غلط رہی ہے ۔ ہم نے اپنی اصل دولت یعنیٰ افرادی قوت کو نظر انداز کیا ہے، ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ ’’علم پر مبنی معیشت‘‘ میں منتقلی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سنگاپور، ایک ملک جو کسی بھی قسم کےقدرتی وسائل سے آراستہ نہیں اور جس کی آبادی کراچی کی آبادی کی ایک چوتھائی ہے اس کی برآمدات تقریباً330 ارب ڈالر ہیں جبکہ پاکستان کی برآمدات صرف 21 ارب ڈالرتک ہی محدود ہیں۔ اس کی بہت آسان وجہ یہ ہے کہ سنگاپور کی حکومت ممتاز تکنیکی ماہرین پر مشتمل ہے جہاں ہر متعلقہ شعبے کے ماہر ین متعین ہیں جن میں ایک ’’علم پر مبنی معیشت‘‘ کے اجزاء کو سمجھنے کی صلاحیت ہے ۔ یہی حال کوریا، تائیوان اور چین کے کا بھی ہے ۔ ذرا غور کریں،یہ ممالک اور ترقی یافتہ مغربی ممالک ایسا کیا کر رہے ہیں جو ہم پاکستان میں کرنے میں ناکام رہے ہیں ؟ اس کا جواب صرف ’’جدت طرازی‘‘ میں پنہاں ہے ۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی ان ممالک کو تیزی سے تبدیل کر رہے ہیں جو اقوام یہ سمجھ گئی ہیں کہ نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو کیسے اجاگر کیا جائے ۔ایک سی پالیسی میں تبدیلی کس طرح ملکی معیشت پر اثر انداز ہوسکتی ہے اسکی مثال پاکستان ہی کی ہے ،2001ء میں جب میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کا وفاقی وزیر تھا تب بڑے پیمانے پر ملک بھر میں سرمایہ کاری کے زریعے آئی ٹی کے ادارے قائم کئے گئے تھے ۔اس شعبے کی ترویج اور ملکی مفاد میں آئی ٹی کی صنعت کو 15سالہ ٹیکس کی چھوٹ دی گئی تھی اور بینڈ وڈتھ کی قیمت سو گنا کم کر دی گئی تھی ۔ میں نے انٹیل (Intel)کے سربراہ سے رابطہ کیا جن سے میری 2001ء میں ہانگ کانگ میں ایک کانفرنس میں ملاقات ہوئی تھی اور ان سے ملک بھر کےاسکول اساتذہ کی کمپیوٹر سائنس میں تربیت کے لئے سرمایہ کاری کی درخواست کی ۔ اس اقدام کے نتیجے میں ملک بھر کے 70اضلاع کے اسکولوں کے225,000 اساتذہ نے حکومت پر بوجھ بنے بغیر بلامعاوضہ تربیت حاصل کی۔ یہ اور دیگر اقدامات نے آئی ٹی کے شعبے کو دن دونی رات چوگنی ترقی دی اور آئی ٹی کاروبار جو کہ 2001 ء میں صرف 30 لاکھ ڈالر تھا اب 3.2ارب ڈالر یعنی سو گنا سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔ ۔ اسی طرح کی اصلاحات میں نے 2001ء میں موبائل ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے کی ترقی کیلئے متعارف کیں۔ جس کے نتیجے میں موبائل ٹیلی فون کے استعمال میں اس قدر اضافہ ہوا کہ 2001ء میں صرف3لاکھ صارفین کی تعداد بڑھ کر 16 کروڑ صارفین تک پہنچ گئی۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ ہماری معیشت کا سب سے زیادہ اہم شعبہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ یہ دو مثالیں علم پر مبنی معیشت کی زبردست قوت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ایک مضبوط علم پر مبنی معیشت کے قیام کے لئے ، ہمارے وزیر اعظم کو معاملات اپنے ہاتھ میں لینے ہوں گے اور ایک تکنیکی ماہرین کا بورڈ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو ان کو ملکی ترقی کیلئے اپنے ماہرانہ پس منظر کی روشنی میں قیمتی مشاورت سے نوازے ۔ پاکستان کو تبدیل کرنے کیلئے چند اقدامات ضروری ہیں:(1) بنیادی، ثانوی، تکنیکی، کالج اور جامعہ کی تعلیم کیلئے بالخصوص انجینئرنگ کے علوم پرخاص توجہ کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پرسب سے زیادہ بجٹ رکھنا ہوگا ۔ اس میں تمام اسکولوں اور کالجوں کے تعلیمی نظام اور اہم حکومتی اصلاحات کی مکمل تبدیلی شامل ہیں ۔ اس طرح تکنیکی تربیتی اداروں میں بہتری آئے گی۔ اسکے ساتھ ہمیں بیرون ملک ،ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم کے لئے بھیجے جانے والے طلباء کی تعداد میں اضافہ کرنا ہو گا، کم از کم 5000طلباءہر سال بھیجنے ہوں گے تاکہ ترجیحی نشاندہی کے ساتھ اہم شعبوں میں اعلیٰ معیار کی افرادی قوت تیا ر کی جا سکے ۔ (2)جدت طرازی اور تعلیم کو فروغ دینے کے لئے مناسب پالیسیاں تشکیل دینی ہوں گی جن کے مطابق ملک گیر نئی کمپنیاں قائم کی جائیں جن کی رسائی ملک کے تمام جدت طراز پارکوںتک ہو اور ان کوقانونی اور معاشی رہنمائی کی جائے ۔ (3) مکمل طور پر قومی سائنس و ٹیکنالوجی S & T کے اداروں کی تشکیل نو کی جائے جن میں نظام تقرری کنٹریکٹ پر ہو اور کارکردگی کی باقاعدہ نگرانی کے لئے متوسط اور اعلی تکنیکی مصنوعات کی تیاری کے اہداف مقرر کئے جائیں ۔ (4) حکومت کی جانب سے تمام براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے دس کروڑسے زائد کی مالیت کے منصوبوں پرعلم کی منتقلی ضروری جزو قرار دی جائے اور اس کے بعد منظوری دی جائے۔ (5) عالمی مسابقت کو بڑھانے کے لئے ایک قومی تکنیکی اور جدت طراز پالیسی وضع اور نافذکی جائے ۔ (6) نجی شعبوں میں تحقیق و ترقی کی حوصلہ افزائی کےلئے تحقیقی اخراجات اور بیرون ملک کے اعلیٰ اداروں میں عملے کی تربیت کے لئے قرضے فراہم کئے جائیں۔ (7) نجی شعبوں میں غیر ملکی تعاون سے اعلیٰ تکنیکی مصنوعات سازی کو فروغ دیا جائے، اعلی تکنیکی صنعتوں کو ’’اول‘‘ حیثیت دی جائے ٹیکنالوجی پارک اور اعلیٰ تکنیکی صنعتی ریاستیں قائم کی جائیں اور متوسط و اعلیٰ تکنیکی صنعت کو 15 سال کی ٹیکس کی چھوٹ دی جائے۔ (8) باقاعدہ ٹیکنالوجی نظریاتی مطالعے کے لئے، ٹیکنالوجی تشخیص اور پیشں گوئی کے لئے ایک تنظیم قائم کی جائے ۔ (9) پاکستان کوعلم کا گہوارہ بنانے کے لئے وقف وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں ایک ادارہ’’علم معیشت کمیشن‘‘ قائم کیا جائے۔ یہ کمیشن پاکستان کے اعلیٰ سائنسدانوں اور انجینئروں،نجی شعبوں سے تعلق رکھنے والے صاحب بصیرت نمائندوں، کلیدی وزارتوں کے وزراءسیکریٹریوں ، خزانہ اور منصوبہ بندی کے وزراء اور صوبوں کے وزراء اعلیٰ بحیثیت نمائندوں پر مشتمل ہونا چاہئے اور ہماری جی ڈی پی کا کم از کم 5 فیصد حصہ اس کےپروگراموں کے لئےمختص کیا جانا چاہئے ۔ مذکورہ بالا پروگرام پر عملدرآمد کے لئے ہمیں ایک صاحب بصیرت ، دیانت دار اور قابل تکنیکی صلاحیتوں سے آراستہ حکومت کی ضرورت ہے جو دنیا میں سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے علم کے کردار کو سمجھ سکے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں