دلِ ناکارہ اب کارآمد ہوجائے گا

Tuesday / Sep 11 2018

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

اسٹیم سیل(جزعیہ خلیہ)جو زندگی کا بہت بڑا شاہ کار ہے اور سائنس کی دنیا میں اس کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی تعریف کا محتاج نہیں ہے۔ اسٹیم سیل جاندار کے جسم کا ایسا خلیہ ہے جو تقسیم ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ خلیہ جسم میں مخصوص خلیات بنانے کی استعداد بھی رکھتا ہے یعنی جس عضو میں یہ خلیہ موجود ہوتا ہے اسی عضو کے خلیات بنا تا ہے۔ اور اسی بنیاد پر یہ جسم میں انواع و اقسام کے مرمتی افعال انجام دیتاہے۔یہ خلیہ تمام کثیر خلوی جانداروں میں پایا جاتا ہے ۔ اس کی اسی خصوصیت کی بناء پر میدان طب سے منسلک سائنس دانوں نے اس خلیے پر بے تحاشہ تحقیق کی ہے اور نتا ئج انتہائی سود مند ثابت ہوئے ہیں ۔ دل کو جوڑنا اس وقت دنیا بھر میں اموات کی سب سے اہم وجہ دل کی بیماریاں ہیں۔ اسٹیم سیل تحقیق میں ہونے پیش رفت کی وجہ سے دل کے مریضوں کے لیے ایک نئی اُمید پیدا ہوئی ہے جیسا کہ ان کے ذریعے دل کی مختلف بافتوں کو پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اسٹیم سیل کے ذریعے مختلف دل کے خلیوں کے علاج کے طریقے کار کی آزمائش امریکا، جرمنی، برطانیہ، کوریا اور برازیل میں جاری ہے۔ ان میں سے اکثر اسٹیم سیل کو خود مریض کی ہڈیوں کے گودے Bone Marrow سے حاصل کیا گیا ہے۔ بوسٹن کے میساچومٹس جنرل اسپتال میں اس بات کے شواہد بھی ملےہیں کہ کس طرح Multipotent خلیات کے ذخیرے میں سے اسٹیم سیل دل کی مختلف بافتوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔یہ بات خوش آئند ہے کہ مستقبل میں اسٹیم سیل کو ناکارہ دلوں کے علاج کے استعمال کیا جا سکے گا۔ خون بنانا حالیہ چند سالوں میں اسٹیم سیل کی مدد سے دواؤں کی شکل تبدیل ہونے کی توقع ہے۔ اس کو دل، گردے اور دوسرے اقسام کے خلیوں میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے ،جس سے خراب اعضا کی مرمت کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا ۔ ابتدا میں ان کو صرف جنینی Embyonic خلیات سے بنایا جا سکتا تھا، مگر اب ان کو جسم کے مختلف اعضا مثلاً ہڈی کے گودے Bone Marrow جلد وغیرہ کے خلیات سے بھی بنایا جا سکتا ہے۔ Induced Pluripotent Stem Cell اور ان کو تحریک دینے والے عوامل کی موجودگی میں دوسرے خلیات میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔جنینی (Embryonic) اسٹیم سیل کے ذریعے خون کے سرخ ذرات تیار کرکے استعمال کیےجارہے ہیں، ان کو خون کی منتقلی کے لیے بھی استعمال کیا جا سکے۔ یہ طریقے کار AdvancedTechnology Cell کے ذریعے وضع کیا گیا ہے۔ اس سے کافی عرصہ قبل سرخ خون تیار کرنے والی خود کار مشین بنائی گئی تھی جو کہ بین الاقوامی طور پر منتقل کرنے کے قابل خون فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔اس وقت ہم ادویات سازی کے میدان میں ایک انقلاب کے آغاز پر کھڑے ہیں۔ ذیابطیس کا علاج برازیل کے سائنس دانوں نے بالآخر اسٹیم سیل سے ذیابطیس کا علاج دریافت کر لیا ہے۔ Dr.Julio Voltarelliکی سربراہی میں ایک ٹیم نے ذیابطیس کی قسم اول کے 15مریضوں کے خون سے اسٹیم سیل نکالا۔ابتدا میں ان مریضوں کے کمزور مدافعتی نظام کو جان بوجھ کر دوا کے ذریعے تباہ کیا گیا، تا کہ ان ضرررساں خلیات کو نکالا جا سکے جو Pancreatic Islet پر حملہ کرتے ہیں۔ بعدازاںان مریضوںمیں اسٹیم سیل انجکشن کے ذریعے داخل کروائے جاتے ہیں جو کہ تیزی سے نیا اور زیادہ تیز رفتار نظام تشکیل دیتے ہیں۔ یہ مریض انسولین کے انجکشن کے بغیر رہ سکتے ہیں یا پھر ان کی انجکشن کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ یہ کام2007ء میں کیا گیا تھا ،مگر اس کو متنازعہ سمجھا جارہا تھا، مگر اب اس کو دوبارہ سند تصدیق حاصل ہو گئی ہے۔ذیابطیس کا علاج اب بس نمودار ہونے والا ہے۔ پاکستان میں اسٹیم سیل کی تحقیق دو اداروں میں شروع ہونے والی ہے ان میں سے ایک سینٹر آف ایکسیلنس ان مالیکیولر بائلوجی جامعہ پنجاب لاہور اور دوسرا ڈاکٹر پنجوانی سینٹر آف مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائلوجیکل سائنسز، جامعہ کراچی ہے۔ اسٹیم سیل… کینسر سے جنگ میں میزائل اسٹیم سیل تحقیق کے میدان میں دل، گردوں اور دوسری بیماریوں کے علاج کے لیے نئے راستے کھل رہے ہیں۔ اب اسٹیم سیل کو کینسر کے علاج کے لیے گارڈ میزائل کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ کیلی فورنیا میں قائم Duarte Beckman Research Institute میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے دماغ کے کینسر کے مرض میں مبتلا چوہے کے دماغ میں جینیاتی طور پر ترمیم شدہ اسٹیم سیل انجکشن کے ذریعے داخل کیا اور پھر چوہے کو کینسر کے خلاف کام کرنے والی دوائیں دی گئیں۔لیکن جس چوہے کا پہلے اسٹیم سیل سے علاج کیا گیا تھا اس کے رسولی کے حجم میں بغیر علاج کے 70فی صد کمی ہو گئی۔ اسٹیم سیل کینسر کے خلیات کے قریب جگہ بنا لیتے ہیں۔ ماہرین یہ توقع کرر ہے ہیں کہ کینسر کی دواؤں اور اسٹیم سیل کے ملاپ کے ذریعے علاج کر کے نہ صرف اصل رسولی پر حملہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے ذریعے ان خلیات کی ثانوی نشوونما کو بھی روکا جا سکتا ہے ، اس طریقے پر عمل کر کے کینسر کے واحد خلیے کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے اس تصور کو استعمال کرتے ہوئے انسانوں پر تجربات جلد ہی شروع کیے جائیں گے۔ ادویات کے میدان میں نئی سرحدیں ادویات کے میدان میں ایک نیا اُبھرتا ہوا میدان اسٹیم سیل کا استعمال ہے جو کہ نقصان کا شکار اعضا کی مرمت کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ انسانوں میں استعمال کیے جانے والے اسٹیم سیل کی دو اقسام ہیں۔ جنینی اسٹیم سیل اور بالغ اسٹیم سیل ۔ اسٹیم سیل دوسرے خلیات کے ساتھ مل کر جسم میں ٹوٹی ہوئی بافتوں (ٹشوز) کی مرمت کا کام کرتے ہیں، کیوں کہ ان کے اندر جسم کے مختلف دوسرے خلیات میں تبدیل ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے ان خلیات کی کلچر کے ذریعے نمو کر کے ان کو مختلف دوسرے خلیات مثلاً اعصابی، جلدی یا آنتوں کے خلیات میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔اسٹیم سیل کے حوالے سے ایک حالیہ پیش رفت میں یہ معلوم ہوا ہے کہ مختلف دواؤں کے استعمال سے ہڈی کے گودے سے مختلف اقسام کے اسٹیم سیل کے اخراج کے عمل کوبذریعہ دخول پیدا کیا جا سکتا ہے۔ چناں چہ مریض کے لیے مختلف دہندگان (Donors) سے حاصل کردہ اسٹیم سیل (اس صورت میں مریض کا جسم وہ اسٹیم سیل قبول کرنے سے انکار بھی کر سکتا ہے) استعمال کرنے کے بجائے مریض کا اپنا اسٹیم سیل اس کے ہڈی کے گودے سے خارج کروادیا جائے تواس کے ذریعے مخصوص بافتوں کی مرمت اور دوبارہ پیدائش میں مدد مل سکتی ہے۔ مریض کے اپنے اسٹیم سیل کو منتخب انداز سے خارج کرنے کی صلاحیت اس تیزی سے ترقی پذیر میدان کے حوالے سے انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ یہ کام امیپریل کالج لندن کی پروفیسر سارا رینکن اور ان کے ساتھیوں نے انجام دیا۔ اس پیش رفت سے دل کے ٹوٹے پھوٹے ٹشوز کی مرمت اور ٹوٹی ہوئی ہڈیوں اور جوڑوں کی مرمت کے عمل کو تیز کرنے اور ان کے علاج میں مدد مل سکے گی۔ دل میں لگائی جانے والی اسٹنٹ کو تحلیل کرنا ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال لاکھوں افراد کی دل کی شریانوں میں ایک باریک سا دھاتی Mesh ٹیوب لگایا جاتا ہے ،تاکہ ان شریانوں کو کھول کر دل کی بافتوں میں خون کی مسلسل فراہمی کو ممکن بنایا جا سکے۔ تاہم چند ماہ بعد اس ٹیوب کی وجہ سے دل کی نالیاں سخت ہونے لگتی ہیں اور مختلف مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ دھات ایکس رے اور MRI اسکین میں بھی رکاوٹ ڈالتی ہے۔ اور بعض کیسز میں یہ Clot بننے کا باعث بن جاتی ہے۔ ایبٹ نے حال ہی میں حیاتیاتی تنزل کا شکار ہونے والے مواد سے اسٹنٹ(stent) تیار کی ہے جو دو سال کے عرصے میں تحلیل ہو جاتی ہے جب کہ دل کی نالیوں کی اصل شکل برقرار رہتی ہے۔ اب کچھ ہی عرصے بعد مریضوں کے پاس اس بات کا انتخاب ہو گاکہ وہ مستقل رہنے والا دھاتی اسٹنٹ استعمال کرنا چاہتے ہیں یا وقت کے ساتھ تحلیل ہونے والا۔ کینسر اسٹیم سیل سے جنگ کینسر کے بعض اسٹیم سیل کچھ رسولیوں میں چند کینسر دواؤں کے خلاف مزاحمت کے ذمہ دارسمجھے جاتے ہیں۔ ان رسولیوں میں کیموتھراپی کے ذریعے کینسر سیل کو تباہ کرنے کے بعد دوبارہ کینسر سیل نمودار ہو جاتے ہیں۔ MIT میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے جنیاتی انجینئرنگ کے ذریعے کینسر اسٹیم سیل سے مشابہ خلیات تیار کیے ہیں اور ان کی دواؤں کے لیے Susceptibility کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ ہزاروں مرکبات کی پڑتال کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک مرکب ’’سیلی نومائی سین‘‘ عام خلیات کو نقصان پہنچائے بغیران مزاحم خلیات کو موثر انداز میں ہلاک کر سکتا ہے ۔ خون کی کھلی نالیاں… کینسر پر حملہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ اگرکینسر کی رسولی کوکسی وجہ سے خون کی فراہمی کم ہو جاتی ہے تو کینسر کے خلاف کام کرنے والی دواؤں کا ان حصوں تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔آکسفورڈ کی ٹیم کے سربراہ Gilles McKenna اور ان کے ساتھیوں نے چار دوائیں دریافت کی ہیں جو خون کی سپلائی کو بڑھاتی ہیں اورکیمو تھراپی کے عمل میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ ٹیومر کو خون کی سپلائی روک دی جاتی ہے، تا کہ ان کی نشوونما کو روکا جا سکے۔ ابتدا میں خون کے بہاؤ کو بڑھانے والی دوائیں دی گئیں، جس سے ٹیومر (رسولی) نرم پڑ جاتی ہے اور پھر اس کوکیموتھراپی کا ہدف بنایا جاتا ہے۔ کینسر کا نیا علاج… روشنی کے ذریعے کینسر کے علاج کاایک اور نیا طریقےکار تیاری کے مراحل میں ہے۔ اس میں پہلے سےطے شدہ راستے پر روشنی کی موجوں کو سفر کروایا جاتا ہے۔ ارتعاش (Oscillation) یاپلازمونز کا موازنہ پانی کے ساکن تالاب میں پتھر پھینکنے کے عمل سے کیا جا سکتا ہے ،جس کے نتیجے میں پانی سطح پر ہلکورے لیتی لہریں پیدا ہو تی ہیں۔بالکل اسی طرح اگر روشنی کے ذرات (photons) کسی دھات سے ٹکراتے ہیں تو الیکٹران کی وجہ سے پید اہونے والا ارتعاش پوری سطح پر پھیل جاتا ہے، یہ مزید روشنی کو اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح روشنی کے دریا پیدا ہوتے ہیں۔ رائس یونیورسٹی ہوسٹن کی Nomani Halas نے سونے کے نینو ذرات اور کینسر پر حملہ کرنے والے antibodies کے ساتھ ملا کر چوہے کے جسم میں انجکشن کے ذریعے داخل کیے۔ جیسے ہی ہرنینو ذرہ (Nano-Particle) اینٹی باڈی یونٹ کی رسولی سے منسلک ہوتے ہیں، رسولی کمزور انفرا ریڈ روشنی کے سامنے آجاتی ہے، بعدازاں نینو ذرات کی حدت سے رسولی تباہ ہو جاتی ہے۔ کینسر کے علاج کے اس طریقے نے چوہے پر بہت اچھے نتائج کا اظہار کیا اب اس کی مزید آزمائش انسانوں پرکی جارہی ہے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں