دفاعی شعبے کا بدلتا ہوا نقشہ

Tuesday / May 15 2018

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

دور حاضر تعلیم اورسائنس وٹیکنالوجی کا دور ہے ۔اس وقت وہ ہی ممالک ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہیں،جنہوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ہے اور خود کو وقت کے مطابق ڈھال دیا ہے ۔اسی بناء پر علمی وسائنسی شعبہ جات مثلاً طب ،انجینئرنگ ،دوا سازی ،بر قیات ،زراعت وغیرہ میں تیزی سے پیش رفت ہورہی ہے ۔علاوہ ازیں شعبہ دفاع میں بھی کافی پیش رفت ہوئی ہے ،جس ملک نے اس شعبے پر توجہ نہ دی اورخود کو تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا تو اس کی بقاء نا گزیر ہے ۔گزشتہ دو دہائیوں میں جنگوں کی نوعیت میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے ۔انسانی ذہانت اور طاقت کو مصنوعی ذہانت کا سہارا مل گیا ہے ۔مستقبل میں مشینوں کے ذریعے لڑی جانے والی جنگوں میں انسانوں کے مقابلے میں کمپیوٹر کے ذریعےمنصوبہ بندی کہیں زیادہ موثر ہوگی ۔ دفاعی میدان میں بھی کئی پیش رفت ہوئی ہیں۔ جامعہ ٹوکیو میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے ایک بر قی کیڑا ( Cyborg Beetle) تیار کیا ہے ،جس میں پہلے سے طے شدہ پروگرام کی حامل ریموٹ کنٹرول چپ اس بھنورے کے دماغ میں چپکادی جاتی ہے یا پھر اس کے دماغی خلیے سے منسلک کردی جاتی ہے ،جس کی مدد سے اس بھنورے کی حرکت کو بیرونی ذرائع سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔ماہرین کے مطابق اس چپ کو توانائی فراہم کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی بیٹریاں بنا ئی گئی ہیں ۔یہ کیڑے یا سائی بورگ ،ایک نیا دفاعی ہتھیارثابت ہوئے ہیں جو کہ خفیہ تنصیبات اور خفیہ گفتگو کے متعلق معلومات فراہم کر سکتے ہیں ۔ علاوہ ازیں امریکا میںکیڑوں کی جسامت کے ڈرون بھی تیار کیے گئے ہیں ۔ان میں چھوٹی چھوٹی آنکھیں بطور کیمرا بھی نصب کی گئی ہیں ۔ان کی خاص بات یہ ہے کہ یہ آوازاور تصویر دونوں کوا یک جگہ سے دوسری جگہ بآسانی منتقل کرسکتے ہیں ۔یہ کیمرا ایک مائیکرو چپ میں لگایا جاتا ہے ،جو وزن میں انتہائی ہلکا ہوتا ہے۔اس ڈرون کیڑے کو بالخصوص جاسوسی کے مقصد کے لیے بہت موثر بنا دیتا ہے ۔اس کو ایک کلو میٹر کے فاصلے سے ایک خاص فریکوئنسی کے اشاروں سے کنٹرول کیاجاتا ہے ۔اس آلے کو ناسامیں قائم caltech's jet propulsion lab میں تیار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جامعہ برائون امریکا میں کام کرنے والےjohn donoghue نے ایک ایسی برین گیٹ (brain gate ) ٹیکنالوجی تیار کی ہے ،جس سے معذور شخص کے دماغ کو ایک کمپیوٹر سے منسلک کردیا جائے تو وہ اس کے ذریعے ٹی وی چلاسکتے ہیں ،لائٹ جلا سکتے ہیں حتی کہ کمپیوٹر کے کرسر کو حرکت دے کر اپنی ای میل بھی کھول سکتے ہیں ۔امریکی فوجی ادارہ ڈارپا نے 50 ملین امریکی ڈالرز دماغ سے کنٹرول کئے جانے والے مصنوعی اعضاء کی تیاری کے لیے وضع کردہ ایک پروگرام کے لیے مختص کیے ہیں ۔اس کے ساتھ ایسا خود کار آلہ بھی تیار کیا جارہا ہے ،جس کو پہن کر ہاتھوں اور پیروں کی طاقت کو بڑھا یا جاسکتا ہے ۔ سیکورٹی اور دفاع کے میدان میں کام کرنے والے اداروں کے لیےپناہ گاہ میں چھپے باغیوں کو ہلاک کرنے میں مسئلہ در پیش ہوتا ہے ۔ اس مسئلے کے حل کے لیے امریکی فوج نے 25 XMرائفل ایجادکی ہے ،یہ ریڈیو کنٹرول گولیوں سے فائر کرتی ہے۔ رائفل میں ایک لیزر رینج فائٹر نصب ہے جو کہ ہدف سے فاصلے کی پیمائش کرلیتا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ رکاوٹ کے تین میٹر تک کے فاصلے کو ایڈ جسٹ کرسکتا ہے ۔فائر کرنے پر گولی ہدف کے پاس یا ہدف سے کچھ فاصلے پر جاکر ہدف کو ہلاک کردیتی ہیں ۔اس کے رائونڈ میں ایک چپ لگی ہوتی ہے ،جس کے ذریعے رائفل سے ایک سگنل بھیجا جاتا ہے ،جو کہ مطلوبہ جگہ پر جاکر پھٹ جا تا ہے ۔اس قسم کے اسمارٹ اسلحوں کی تیاری جدید مائیکرو چپ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے ۔یہ جدید اسلحے گزشتہ دوسالوں میں عراق اور افغانستان میں استعمال ہوئے ہیں ،اگر دشمن کی سرزمین پرکئی میل کے فاصلے سے جوہری دھماکہ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی برقی مقناطیسی لہریں نہ صرف دشمن کی نگرانی کے آلات اور دوسرے آلات کو جام کر سکتی ہیں بلکہ اس کے ساتھ دونوں اطراف کا وسیع نقصان بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس دو طرفہ نقصان سے بچنے کے لئےامریکی فوج اب ایک نیاہتھیار استعمال کررہی ہے، جس میں برقی مقناطیسی لہروںکا صرف گیگاواٹ برسٹ استعمال ہوتا ہے جو 10نینو سیکنڈ طویل ہوتا ہے اسے بجلی کےکھلے تاروں میں دوڑادیتے ہیں ،جس کے نتیجے میں دشمن کے ریڈار،سیٹلائٹ ڈش اور دیگر برقی آلات تباہ ہوجاتے ہیں ۔یہ ہتھیار انسان کے بغیر چلنے والی اسٹیلتھ گاڑی UAVسے فائر کیا جاتا ہے اس طرح بوئنگ نے ایک خاص اسٹیلتھ کا حاملUAV Phanton Ray تیار کیا ہے جو کہ دشمن تک شناخت کے بغیر پہنچ جاتا ہے ۔یہ آلہ خرد لہریں(microwaves) جاری کرتا ہے ،جن میں ہواداری نلکیوں (Vantilation ducts ) اورپائپ میں سفر کر نے کی صلاحیت ہوتی ہے لہٰذا یہ دشمن کی خفیہ پناہ گاہ ہوں تک آسانی سے پہنچ جاتی ہیں اور اس میں چھپائے گئے برقی آلات بھی تباہ کر دیتی ہیں۔ امریکی فضائیہ نے اس قسم کے مزید طاقتور اور طویل مواصلاتی ہتھیاروں کی تیاری کے لئے 40 ملین امریکی ڈالرز وقف کئے ہیں ۔ 11فر وری 2010 ء کو سمندر پر موجود موبائل لانچ پلیٹ فارم سے ایک بلاسٹک میزائل داغاگیا جیسے ہی راکٹ بوسٹر کی فائرنگ سے میزائل نے رفتار پکڑی اس کو فوراًایک ہوائی جہاز جس میں طاقت ور کیمیکل آکسائیڈ لیزر گن نصب تھی ،اس کے حسیاتی محرک (Sensors)نے شناخت کرلیا ۔ہدف کی تلاش کم توانائی والے لیزر سے کی گئی اور میگاواٹ تک توانائی والے لیزرسے اس کو فائر کیا گیا ،جس نے بلاسٹک میزائل کو تباہ کردیا۔ یہ فضائی پلیٹ فارم سے ہائی پاور لیزر کو استعمال کرتے ہوئے بلاسٹک میزائل کو تباہ کرنے کا پہلا مظاہرہ تھا ۔ اس تجربے کے بعد جنگی ہتھیار وں کی دوڑ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی جوکہ مستقبل کی جنگوں کا نقشہ تبدیل کر سکتی ہے ۔ اس قسم کے ہتھیاروں کی تیاری کا آغاز رونالڈریگن نے 1983 ء میں کیا تھا ان ہتھیاروں سے زمین پر وار کرنے والے لیزر ہتھیار تیار کئے گئے ،مگر اس میں خرابی یہ تھی کہ یہ بہت محدود فاصلے کا احاطہ کر سکتے تھے ۔ اس کے بعد دوسرااہم ترین پروگرام موبائل فضائی Airborne لیزر گن نظام کا قیام تھا ،جس کو کہی بھی بآسانی استعمال کیا جاسکتا ہے۔2004 ء میں B-747 ایئر کرافٹ کو ترمیم کرکے ہائی پاور لیزر گن پر مشتمل طیارے میں تبدیل کردیا گیا۔اس ٹیکنالوجی میں فری الیکٹران لیزر(FEL) شامل تھیں۔ یہ روایتی لیزر سے مختلف ہوتی ہیں، جس میں روشنی کے طول موج (wavelength) پر اس کے خارج ہونے کا انحصار ہوتا ہے ( اگر چہ اس کا انحصارلیزر میںا لیکٹران ، گیس یا کرسٹل پر ہوتا ہے ) FELآلے میں ایٹم الیکٹران کی پٹیوں پر مشتمل ہوتا ہے، بعدازا ں یہ افقی اسراع (linear)کو استعمال کرتے ہوئے توانائی کو بلند سطح پر لے جاتاہے ۔ کیس ویسٹرن جامعہ ،کلیولینڈ، اوہیو، Milwaukee میں راک ویل آٹومیشن ،الیکٹرانکس کمپنی وسکانسن امریکامیں کام کرنے والے انجینئرز نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ کس طرح یہ مائیکروچپس ٹروجن ہارسرزمیں تبدیل ہوجاتی ہیں اور حسب ضرورت ایک بیرونی اشارے پر یہ تمام افعال اور آلات کومعطل کر دیتی ہیں۔ماہرین کے مطابق طیارے کے برقی آلات میں سرکٹ کا ایسا پیچیدہ نظام ہوتاہے، جس میں لاکھوں سرکٹ کام کررہے ہوتے ہیں۔وہ ممالک جو جنگی آلات خود تیار کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں جلدہی احساس ہوجائے گا کہ وہ کثیرزرمبادلہ خرچ کرکے خود کودشمن کا تر نوالہ بنا رہے ہیں اور ایسے ٹائم بم خرید رہے ہیں جن کی ناکامی ان کی تعمیر میں مضمر ہے بالخصوص اس وقت جب یہ فراہم کرنے والا ملک اس کی لبلبی آپ کے دشمن ملک کے ہاتھ میں دے دیتا ہے وہ سادہ سے ریڈیائی پیغام کے ذریعے اس آلے کو ناکام بنا سکتے ہیں ۔ 22اپریل 2011ء میں ربو ٹک خلائی جہاز کا آغاز فلوریڈا ،امریکاکے Caps, Canaveral Air Force Stationسے کیا گیا ۔ X-32B Orbital test Vehicleاگلی نسل کی خلائی گاڑی کی نمائندگی کرتی ہے ۔ اس کا مقصد ابھی تک پو شیدہ رکھا گیا ہے۔ اس کو خلا میں سیٹلائٹ میں لے جانا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد آلات ،مواد اور سینسرزلے جانا ہے ۔ ہتھیار وں کے نئے نظام کو Lower Earth Orbit انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ خلا میں جانچا جائے گا۔ یہ خلائی طیارہ نو ماہ سے زائد عرصے تک خلا میں رہ سکتا ہے اور یہ عسکری خلائی گاڑیوں کے قافلے میں پہلا فوجی Convoy تصور کیا جاسکتاہے۔جو مستقل بنیادوں پر خلاء میں رہ سکتا ہےاور دشمن کی سر زمین پر ہونے والی عسکری نقل وحرکت پر چوکس نظر رکھتا ہے اس کے ساتھ ہی اس میں دشمن پر حملہ کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے ۔ان خلائی گاڑیوں کی تیاری میں امریکا کی NASA ،DAPRA ،Defense Advance Research Project Agency اور دوسری امریکی ایجنسیاں شامل ہیں۔ خفیہ معلومات جمع کرنے کے علاوہ یہ خلائی جہاز جنگی حوالے سے اہم مقامات پر چھوٹے جاسوس سیٹلائٹ بھی بھیج سکتا ہے جو ان مقامات کے بارے میں انتہائی حساس معلو مات فراہم کرسکتے ہیں اس خلائی جہاز میں دشمن کے علاقوں کا معائنہ ، نگرانی ابلاغ ، اور خلا ئی ہتھیار وں کے حوالے سے کئی طرح کے افعال انجام دینے کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ یہ تازہ ترین پیش رفت چین اور روس کو ان خلائی جہازوں کے خلاف Anti Satelliteہتھیار وں کی تیاری پر مجبور کردے گی ،جب کہ امریکا پہلے ہی مزید بہتر اینٹی میزائل ،میزائلوں کی تیاری کر رہاہے ،چناں چہ ہتھیار وں کی دوڑ جاری ہے ۔ہتھیار بنانے والا بین الاقوامی ادارہ BAE کے مطابق اس ہتھیار کی فروخت سے حاصل ہونے والی سالانہ آمدنی 22 ارب پائونڈز ہے ۔یہاںکے انجینئرز نے ایک ایسی cloaking technology تیار کی ہے ،جس کے ذریعے ٹینکوں اور گاڑیوں کو ایک مواد کے بنے ہوئے مسدسی غلاف سے ڈھک دیا جاتا ہے ۔ یہ مسدس ( hexagone) بطورکیمرا pixelکام کرتے ہیں جن کے اندر اپنا درجہ حرارت تبدیل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور یہ ایک زیریں سرخinfra redشبیہ کی صورت میں آپس میں مل جاتے ہیں، یہ شبیہ گاڑی میں موجود کیمرے سے تشکیل پاتی ہے جو ارد گرد کے ماحول کو ریکارڈ کرلیتا ہے، اور جنگی ٹینک ،دشمن کودرخت یا جھاڑیوں کی شکل میں نظر آتا ہے ۔ سطح پر موجود مسدس، وزن میں ہلکے مگر مضبوط مواد سے بنے ہوتے ہیں جو کہ دشمن کی گن فائر سے حفاظت بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان کو گاڑی کے برقی نظام سے توانائی فراہم کی جاتی ہے۔گاڑی میں نصب کمپیوٹر کے اند رتصاویر کا وسیع ذخیرہ ہوتا ہے، چناں چہ جب ٹینک کو کسی چٹان کی شکل میں یاجانوروں کے غول جیسا نظر آنا ہوتا ہے تو یہ اسی طرح کی تصویر بنا دیتا ہے۔انفرا ریڈ شبیہ کے علاوہ اس ٹیکنالوجی کو اسپیکٹرم کے دوسرے حصوں کے حوالے سے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ یہ ٹیکنالوجی پانی کے جہازوں، ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹر کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔کیموفلاج کے روایتی طریقوں کے بر عکس ڈھانچے کے اوپر بنی ہو ئی شبیہ ارد گرد کے ماحول کو تبدیل کر دیتی ہے۔اس کے ساتھ یہ بھی یقین رہتا ہے کہ گاڑی نظروں سے مخفی رہے گی۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں