توانائی کے شعبے میں اہم پیش رفت

Tuesday / Jun 26 2018

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

پاکستان کی ترقی اور بہترمستقبل کے لئے سستی توانائی نہایت اہم ہے ، تاہم توانائی کا شعبہ گزشتہ تین دہائیوں میں اقتدار کی جانب سے بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوگیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق 1984ء میں پاکستان میں تقریباً 59.3 فی صد بجلی پن بجلی گھروں سے فراہم کی جاتی تھی۔اس توانائی کے ذرایع میں مزید توسیع کرنی چاہیے ، کیوں کہ بجلی حاصل کرنے کا یہ سب سے سستا ذریعہ ہے ۔ لیکن ہمارےرہنماؤں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر تیل سے چلنے والے مہنگے پلانٹس لگانے کا فیصلہ کیا۔لہٰذا1990 ء تک پن بجلی کا استعمال گھٹ کر 45 فی صد تک ہو گیااور مستقل بدعنوانیوں کی بدولت پن بجلی کے استعمال کا تناسب تمام ذرایع توانائی میں اب صرف 29.3 فی صدرہ گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں تیل کا استعمال بڑھ کر 37.8 فی صداور گیس کا استعمال 30 فی صدہوگیا ہے ۔ بجلی اور توانائی کے دیگر ذرایع کی بڑھتی ہو ئی قیمتوں نے صنعتی شعبے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیااور لاکھوںافراد غربت اور بے روزگاری کا شکار ہو گئے۔ پاکستان میں دنیا کے بہت بڑے کوئلے کے ذخائر ہونے کے باوجود ان کو نظر انداز کیا گیا، جب کہ بھارت میں توانائی کی 55 فی صد اور چین میں 67 فی صدضروریات کوئلے ہی سے پوری کی جا تی ہیں۔ \حالاں کہ پاکستان میں دنیا کا پانچواں سب سے بڑا دریائی نظام ہے اور پاکستان میں پن بجلی(hydro electric power)کی پیداواری صلاحیت کا تخمینہ 46,000 میگا واٹ لگایا گیا ہے، جب کہ ہم صرف اس کی 14 فی صدپیداواری صلاحیت استعمال کررہے ہیں۔ تقریباً 4500 میگاواٹ بجلی پنجاب کے دریاؤں پر کم لاگت کے پن بجلی گھروں (hydel power plant) کی تنصیبات سے حاصل ہو سکتی ہے ۔ کوئلے کے زریعے بھی بجلی کی پیداوار کم لاگت میں ہوتی ہے تقریباً ( 6 روپے سے 7روپے فی یونٹ تک)۔ تاہم تھرمل بجلی گھروں کی پیداواری لاگت 25 روپے فی یونٹ تک بھی ہوسکتی ہے اورپیداواری صلاحیت میں کمی آنے کی صورت میں اس کی لاگت 50 روپے فی یونٹ سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔ یہ قوم پر ناقابل برداشت بوجھ ڈالا گیا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں کوئلے کے ذخائر تقریباً 186 ارب ٹن ہیں جو کہ 180 سال کے لئے کافی ہیں ۔ کوئلہ کو استعمال کر کے ہم 50,000 میگاواٹ بجلی اور 100 لاکھ بیرل تیل سالانہ اگلے 500 سالوں تک پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ آج پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے لئے کوئلہ صرف 0.1 فی صد استعمال ہو رہا ہے۔ پاکستان میں گیس کے بھی غیر استعمال شدہ بہت بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں ۔ کوہاٹ میں واقع ٹال بلاک (Tal Block) میں گیس کے ذخائر سوئی کے ذخائر کے برابر ہیں جنہیں فوری طور پر حاصل کرنا چاہیے ۔ علاوہ ازیں توانا ئی کے قابل تجدید (renewable) زرائع کی بھی کافی گنجائش ہے۔ مثلاً ہوا ، شمسی، حیاتیاتی ایندھن (biofuels) وغیرہ انہیں بھی استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔ کچھ سال قبل چند ماہرین نے یہ انکشاف کیا تھا کہ سند ھ کے ایک حصّے میں خاص طور پر کٹی بندر ، گھارو اور حیدرآباد کے علاقوں میں اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی ہواؤں میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ 50,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتی ہیں ۔ ہمیں ایسے بجلی گھر تعمیر کرنے چاہئیں جہاں ہوائی چکیاں بھی لگائی جا سکیں جیسا کہ بھارت اور چین میں کیا گیا ہے ۔اور یہ ہوائی چکیاں ہم خود تیا ر کریں ،تاکہ اس سے بھر پور طریقے سے مستفید ہو سکیں۔ ایٹمی توانائی پلانٹ بھی ایک بہترین حل ہے ۔ہماری کرۂ ارض قدرتی ذخائر سے لیس ہے۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اور آبادی کے بڑھتے ہو ئے تناسب کی بدولت ان ذخائر میں تیزی سے کمی آرہی ہے جو آنے والے وقت میں لوگوں کے لئے دقت کا باعث بن جائے گی۔ انہیں ذخائر میں توانائی سے ملحقہ ذخائر یعنی تیل اور گیس کے ذخائر ہیں ، جن پر اگر بر وقت قابو نہ پا یا گیا تو یہ جلد ہی ناپید ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تیل اور گیس کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ایک نئے ذخیرے کی تلاش کی گئی ہے ،جس کے بارے میں خیال ہے کہ اس کے اندر حالیہ تینوں ماخذات سے بڑ ھ کر صلاحیت موجود ہے ۔ سمندر کی تہہ یا برف میں3کھرب ٹن میتھین گیس موجود ہے ۔ گیس کے ان ذخائر کو Clathratesکہا جا تاہے ۔ماہرین کے مطابق یہ ذخائر توانائی کی ایک سوسال کی ضرورت کو پورا کر نے کے لئے کافی ہیں۔ماہرین کو گزشتہ کئی دہائیوں سے توانائی کے ان ذخائر کے بارے میں معلومات حاصل ہیں ،مگر ان کو تجارتی پیمانے پر استعمال کرنے کے لئے اب تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ۔روس میں اس گیس کا دہانہ اس وقت کھلا، جب مغربی سائبیریا میں تیل نکالنے کے لئے کھدائی کی جا رہی تھی۔ ان گیسوں کے کنوؤں کو 1970ءتک ختم ہوجانا چاہیے تھا ،تاہم وہ ابھی تک میتھین گیس خارج کررہے ہیں۔ میتھین کی Clathrateتہہ اکثر سینکڑوں میٹر موٹی ہوتی ہے ،کیوں کہ یہاں گیس زیادہ دباؤ پر ہوتی ہے۔ لہٰذایہ زیادہ مقدار میں خارج ہوتی ہے۔ اس حوالے سے استعمال ہونے والی بہترین تکنیک اخراج دباؤ (Depressurization) ہے، اس طریقے کا ر میں ایک سوراخ بناکر دباؤ کو دُور کیا جاتا ہے اور گیس خارج ہوجاتی ہے ۔ چین ، جاپان اور تائیوان کے ساحل پر اور ہندوستان میں مشرقی ساحل کے قریب میتھین گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ جاپان میں 50ٹریلین کیوبک میٹر گیس کے ذخائر دریافت کئے گئے ہیں جو صدیوں تک کی تجارتی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہیں ۔ کوریا بھی ایک نئے شعبے میں تجارتی پیمانے پر کام شروع کرے گا جو آئندہ تیس سالوں تک توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوگا۔پاکستان کو بھی اب جاگ جانا چاہیے،کیوں کہ بھارت میں دریافت ہونے والے ذخائر ہم سے بہت فاصلے پر نہیں ہیں چنانچہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کراچی اور گوادر کے ساحل پر بھی یہ ذخائر موجود ہوں۔ہمیں فوری طور پر ان ذخائر کی تلاش شروع کرنی چاہیے۔ اس وقت انسانی تاریخ کا سب سے منفرد تجربہ ہونے جا رہا ہے۔ جنوبی فرانس میں بین الاقوامی تھرمونیوکلیئر تجرباتی ری ایکٹرITER International Thermonuclear Experimental Reactorکا مقصد سورج اور ستاروں کی طرز پر حرارت اور روشنی پیدا کرنا ہے۔ یہ عمل جوہری ارتباط( Nuclear Fusion)کے ذریعے کیا جائے گا ۔ یہ وہ عمل ہے ،جس میں دو ہلکے عناصرمل کر ایک بھاری عنصر تشکیل دیں گے اور وسیع مقدار میں توانائی خارج ہوگی ۔ ہماری زمین کروڑوں سال سے اسی طریقے سے سورج سے حرارت حاصل کر رہی ہے اور ستارے بھی اسی عمل ارتباط (Fusion Reaction)کی مدد سے حرارت اور روشنی پیدا کر تے ہیں ۔اس منصوبے پر 10ملین یوروصرف ہونے کی توقع ہے ،جس کو مکمل ہونے میں 15سال لگ سکتے ہیں ۔ہائیڈروجن کے دو آئسوٹوپ ڈیوٹریم اور ٹری ٹریم (Deutrium and Tritium) کا ارتباط زیادہ بھاری عنصرہیلیئم(Helium)کی تشکیل کا باعث بن سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں حرارت کی بڑی مقدار خارج ہوتی ہے ۔اس عمل سے پیدا ہونے والی حرارت، اس حرارت سے 5 سے 10گنا زیادہ ہے ،جوکہ ری عمل ارتباط(Fusion Reaction)کے وقوع پذیر ہونے میں درکار ہوتے ہیں۔ فیوژن کا ہدف حاصل کرنے کے لئے غیر معمولی بلند درجۂ حرارت تقریباً 100 ملین Kحاصل کرنا ضروری ہے ۔ اس کے لئے ایک خاص برتن Vesselکی ضرورت ہوگی ،جس میں Fusing Plasmaمقناطیسی طور پر مرکز میں معلق ہوتا ہے ،تاکہ بلند درجۂ حرارت کی وجہ سے برتن کی دھات بخارات میں تبدیل نہ ہو۔اس صدی کے آخرتک ہمارے شہروں کو Fusion Reactionsکے ذریعے بجلی فراہم کی جائے گی اورسمندر کے پانی کو ڈیوٹریم کے ماخذکے طور پر استعمال کیا جائےاور زمین پر انسانی ہاتھ کے بنائے ہوئے سورج ہوں گے ۔سورج ہمارے سیارے کو توانائی سے نہلا دیتا ہے ،سورج سے حاصل ہونے والی توانائی کی مقدار 85000ٹیراواٹ سالانہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ہماری زمین کی توانائی کی سالانہ کھپت 6ٹیراواٹ ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج زمین پر توانائی کی درکار مقدار سے5000گنا توانائی فراہم کرتا ہے ۔چناں چہ یہ بات عجیب سی محسوس ہوتی ہے کہ معدنی تیل کو جلا کر ہم اپنی زمین کو آلودہ کر رہے ہیں، جب کہ سورج سے حاصل ہونے والی توانائی کی کثیرمقدار یونہی ضایع ہورہی ہے۔ تاہم صورت حال اب تیزی سے تبدیل ہورہی ہے اور ایسی جدید ٹیکنالوجیز سامنے آرہی ہیں ،جن کوپاکستان میں بآسانی استعمال کیا جا سکتاہے ۔ سورج ہمارے کرۂ ارض کو بڑی مقدار میں توانائی فراہم کرتا ہے صرف پندرہ دن میں ہم سورج سے جس قدر توانائی حاصل کرتے ہیں یہ اس مقدار سے کہیں زیادہ ہے جو ہم سال بھر ایندھن، کوئلے اورتوانائی کی دوسری شکلوں سے تیار کردہ بجلی کو استعمال کرنے میں خرچ کرتے ہیں ۔ اگر چہ یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں Photovoltaic سیل کا بجلی بنانے میں استعمال ہورہا ہے ،تا ہم یہ طریقہ کافی مہنگا ہے ۔ اس کا سستا طریقہ یہ ہے کہ سورج کی روشنی کو حرارت کی شکل میں جمع کرلیا جائے اور پھر اس حرارت کو بجلی بنانے کے لئے استعمال کیا جائے ۔ یہ معروف شمسی حرارت والے Solar Thermalبجلی کے پلانٹ ہیں ۔چند سال قبل تک شمسی سیل نہ صرف مہنگے تھے بلکہ ان کی کار کردگی 20فی صد تھی۔ان کی زیادہ لاگت کی وجہ سے دور درازدیہاتوں میں بجلی کے گرڈ کو ان کے ذریعے بجلی پہنچانا عملی طور پر ممکن نہیں تھا۔شارپ فاؤنڈیشن نے نئی قسم کے مرکب شمسی سیل تیارکئے ہیں، جن کی کارکردگی تجربہ گاہ میں 40فی صد اور بجلی کے میدان میں 35.8فی صدہے ۔یہ جرمینینئم دھات کی تہہ کے بجائے (indium gallium arsenide.) انڈیم گیلئیم آرسینائڈ استعمال کرنے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ پاکستان کو بجلی اور گیس بچانے کے لئے ہر عمارت میں سولر تھرمل یونٹ کا استعمال لازمی قرار دینا چاہیے۔ ان شمسی حرارتی یونٹ یا سولر تھرمل یونٹ میں مہنگے فوٹو وولٹائک سیل کے بجائے پانی کا استعمال کیا جائے اور جب پانی سیاہ دھات اور شیشے کی سطح سے گزر ے تو وہ براہ راست سورج سے حرارت حاصل کرتے ہوئے گرم ہوجائے ۔یہ یونٹ سستے بھی ہیں اور ان کو گیس یا بجلی سے جلنے والے پانی گرم کرنے والے آلات میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، جوکہ گھروں اور عمارتوں میں پانی گرم کرنے کے لئے خرچ ہونے والی توانائی کی ضرورت کو 50فی صد تک کم کردیں گے ۔ یہ پانی کوبآسانی 60ºC, تک گرم کردیں گے، جب اس سے زیادہ حرارت کی ضرورت ہوگی تو گیس یا بجلی کے برنر حرکت میں آجائیں گے۔ اس کے نتیجے میں توانائی کی کثیر مقدار میں بچت ہوگی۔امریکا میں صنعتی شعبے میں سب سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی صنعت شمسی توانائی کی صنعت ہے اگلے پانچ سا لوں میں امریکا میں 10گیگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں 6گنااضافہ ہوجائے گا ۔ جنوبی افریقا کے شمالی صوبے میں صحرائے Kalahariکے قریب دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی کا پاور پلانٹ تعمیر کیا جا رہا ہے ۔یہ پلانٹ 5 گیگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اس علاقے کا شمار دنیا کے گرم ترین 3 فی صدی علاقوں میں ہوتا ہے ۔ ماہرین کو اُمید ہے کہ یہ پلانٹ 2020 ء تک 5 گیگا واٹ بجلی پیدا کرے گا ۔ پلانٹ میں مرتکز کئے جانے والے شمسی آئینوں (پاور ٹاور میں محرابی اور سیدھے دونوں انداز کے آئنے استعمال ہوتے ہیں) اور فوٹووولٹائک ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا ہے ۔ شمسی حرارتی پاور پلانٹ میں عام طور پر پیرا بولک آئنز استعمال کیے جاتے ہیں جو سورج کی روشنی کو ایک بوائلر سسٹم پر مرتکز کرتے ہیں۔ اس سے پیدا ہونے والی بھاپ ٹر بائن چلانے کے کام آتی ہے اور ان ٹر بائن کی مدد سے بجلی پیدا کی جاتی ہے ۔اس میں خامی یہ ہے کہ پلانٹ صرف اس وقت کام کرے گا جب تک سورج چمک رہا ہوگا اور رات کے وقت یہ کام کرنا بند کردے گا ۔بجلی کو ذخیرہ کرنے والی بیٹری کے استعمال کا امکان ممکن ہے، مگر یہ بہت مہنگا طریقہ ہے ۔اب امریکا کی ایک کمپنی Solar Reserveایک ایسا پلانٹ تعمیر کر رہی ہے جو سورج ہی سے حاصل ہونے والی حرارت کو پگھلے ہوئے نمک کی شکل میں جمع کرے گی۔سوڈیم نائٹریٹ اور پوٹاشیئم نائٹریٹ کا آمیزہ 1000ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ پر سورج کی روشنی سے گرم کیا جاتا ہے ،جس کو ہزاروں آئینوں کے ذریعے مرتکزکیا جاتا ہے ۔پگھلا ہوا نمک بعد ازاں بجلی پیدا کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس طرح اس کو ایک پائپ کے ذریعے حسب ضرورت دخانی ٹر بائن Steam Turbineسے جوڑ دیا جا تا ہے پگھلے ہوئے نمک کی ٹیکنالوجی اس سے قبلMajoveصحرا میں10میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے استعمال کی جا رہی تھی، ا ب 150میگاواٹ شمسی توانائی کا پلانٹ کیلی فورنیا میں قائم ہوگااور اس کو مکمل ہونے میںتقریباً 13مہینے لگیں گے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں