مصنوعی ہڈی، ذہین پلاسٹک فلم اور آگ سے محفوظ گھر

Monday / Jan 28 2019

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

دنیائے سائنس میں تیزی سے ابھرتے ہوئے شعبوں میں مادی سائنس ایک امتیازی حیثیت کاحامل ہے ۔ یہ شعبہ اس قدر وسیع ہے کہ تمام سائنسی شعبات سے منسلک ہےمکڑی کا سخت ریشم سب سے زیادہ سخت فائبر سمجھا جاتا ہے۔ وزن کے حوالے سے یہ اسٹیل سے بھی زیادہ طاقت ور ہے۔اب سائنس داںاس کو مزید سخت بنانے کی کوشش میں ہیں۔کئی اس طرح کی مخلوقات موجود ہیں جن کے پنجوں ،جبڑوں اور ڈنک میں مخصوص دھات موجود ہے جو ان کی طاقت کا سبب ہوتی ہے۔ بعض چونیٹوں کے جبڑے کے اندر سخت کرنے والی زنک دھات ہوتی ہے اور کچھ سمندری کیڑوں کی طاقت کی وجہ سمندر میں تانبے کی موجودگی ہے۔ جرمنی کے Max Plank Institute of Micro structure physics کےلی ا ور کینزریشم کے کیڑے کے ریشم میں ٹائٹینیم کی بھرت ڈالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو کہ اس کو دس گنا زیادہ مضبوط کر دے گا۔ اس طریقہ کار کی نقل کرتے ہوئے سائنسدان مصنوعی ریشوں سے انتہائی مضبوط کپڑے تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب نینوٹیکنالوجی کے مختلف مادّوں کو کینسر کے علاج کے لیے ایک سینٹی میٹر سے ایک ملین چھوٹے سائز پر لایا جا تا ہے تو وہ خاص خصوصیات کا مظاہرہ کرتے ہیں جو کہ نئی ادویات ،کاسمیٹکس ،پانی کو صاف کرنے کی تیکنیک ،تعمیراتی اور دوسری بے شمار چیزوں کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔سٹی یونیورسٹی نیویارک میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے ایک نینو فائبر تیار کیا ہے جو کہ دوا کو بالکل اس مقام پر لے جاتا ہے جہاں حملہ کرنا مقصود ہوتاہے۔ اس سے جسم کے دوسرے حصوں کودوا کے اثرات سے بچایاجاسکتاہے۔ کینسر کے خلاف کام کرنے والی دواؤں کو نینو فائبر کے ساتھ منسلک کیا جا سکتا ہے جو کہ رسولی سے خارج ہونے والے انزائم کے ردعمل میں اس سے الگ ہو جائیں گےاور صرف کینسر والے حصے پر اثر انداز ہوں گے۔ مصنوعی نرم ہڈی قدرتی نرم ہڈی کے متبادل کے لیے سائنسدان مسلسل کوشش کر رہے ہیں اور اس حوالے سے محدود کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔اسرائیل کے Weizman Institute of Space میں کام کرنے والے Jacob Klein نے کم رگڑ والے جوڑ تیار کیے ہیں جو پولی مر سے تیار کیے گئے ہیں اور ان کی اوپری سطح سالمی برش پر مشتمل ہے۔ یہ برش پانی کے سالمات کو اپنی جانب راغب کرتے ہیں اور یہ سالمات جب ایک دوسرے کی سطح سے ٹکراتے ہیں تو پانی کے مالیکیول کوچکنا کرنے والے غلاف کی طرح کام کرتے ہیں اور اس طرح رگڑ ڈرامائی انداز میں کم ہو جاتی ہے۔ اس مواد میں قدرتی نرم ہڈیوں سے مشابہ خصوصیات بھی موجودہیں۔ فائر پروف گھر علاقوں میں آگ لگنے کی صورت میں ہر سال لاکھوں جانوں اور املاک کا ضیاء ہوتا ہے ۔گز شتہ سال آسٹریلیا میں آگ لگنےکی وجہ سے 173 شہری اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے۔ان خطرات کے پیش نظر ایسے مکانات اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے ٹیکنالوجی تیار کی جارہی ہے جو مکانات کو آگ سے محفوظ رکھ سکیں۔ اس میں پورے گھر کو ڈھانکنے والا ایک غلاف تیار کیا جائے گا ،جس کو مکانات کی چھت پر رکھا جائے گا اور وہ ایک بٹن دبانے پر ایک منٹ کے اندر کھل کر پورے گھر کو ڈھانک لے گا (جس طرح کاروں کا ائیر بیگ ہوتا ہے) اس کے بعد دو بڑے پنکھے اپنا کام شروع کر یں گے اور ٹینٹ کے اندرموجود لچکدار ٹیوب ہوا بھرنا شروع کر دیں گے اورا س کا بیرونی ڈھانچہ تیار ہوجائے گا۔ جب ٹینٹ میں سے ہوا نکالی جائے گی تو کپڑے کا غلاف کھل جائے گا اور گھر کی چھت اور کناروں کو ڈھانپ لے گا۔ اس طرح فائر پروف کپڑے سے گھر کی چھت مکمل طور پرڈھک جائے گی۔ اس قسم کا ٹینٹ امریکی فوج نے اپنی عسکری گاڑیوں کو کیمیائی حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیا تھا اور اب اس کو شہری ضرورتوں کے لیے استعمال میں لایا جارہا ہے۔ خود صاف ہونے والی شیشے کی کھڑکیاں تل ابیب یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے الزائمر کی بیماری کاعلاج دریافت کرنےکےدوران حادثاتی طور پر ایک نئے قسم کا نینومیٹریل دریافت کیا ہے۔ اس مواد کی سطح پر پروٹین (Peptide) کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے بال ہیں جن کی جسامت ایک ملی میٹر کا دس لاکھواں حصہ ہے اور یہ حرارت اور پانی سے مزاحمت کے حامل ہیں۔ اس مواد سے تیار کردہ غلاف شیشے کی سطح کومہر بندکر دیتا ہے اور اس کو گرد اور نمی سے بچا کر رکھتاہے۔ اس مواد سے بنی ہوئی کھڑکیاں انتہائی اونچی عمارتوں کی اوپر کی منزلوں کے لیے انتہائی کارآمد ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس مواد کے ذریعے شمسی سیل کو گرد اور گندگی سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے، جس سے ان کی کارکردگی میں 30 فی صد اضافہ ہو جاتا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی ۔۔۔ تیزی سے چارج ہونے والی مخلوط(Hybird) کار بیٹری مخلوط گاڑیاں وہ گاڑیاں ہیں جو پیٹرول کے خلیات (جس میں ہائیڈروجن طاقت کے ذخیرے کے طور پر کام کرتی ہے )یا بیٹریز دونوں پر چلائی جا سکیں ۔ یہ گاڑیاں گزشتہ چند سالوں میں متعارف ہوئی ہیں۔ ان دوبارہ چارج ہونے والی بیٹریوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کو چارج ہونے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ MIT سے تعلق رکھنے والے kangad Cedar نے اب ایسی تجرباتی بیٹریاں تیار کی ہیں جو عام بیٹریوں کے مقابلے میں100 گنا زیادہ تیزی سے چارج ہو تی ہیں۔ ان بیٹریوں میں نینو بالز لگی ہیں جو کہ لیتھیم، لوہے اور فاسفیٹ کی بنی ہیں اور یہ ایک گھنٹے کے بجائے ایک منٹ میں چارج ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان نینو میٹریل سے بنی موبائل فون کی بیٹریاں چند سیکنڈز میں چارج ہو سکیں گے۔ وہ دن دور نہیں جب پیٹرول بھرنے کے اسٹیشن بیٹری چارج کرنے کے اسٹیشن بن جائیں گی۔ دنیا کا سب سے ہلکا اور ٹھوس مواد ایجاد یونیورسٹی آف فلوریڈا میں کام کرنے والے سائنس داں دنیا کا سب سے ہلکا اور ٹھوس مواد تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ اس قدر ہلکا ہے کہ اس کے ایک مربع سینٹی میٹر کا وزن 4ملی گرام کے برابر ہے۔ ماہرین نے اس کو جمے ہوئے دھوئیں( Frozen Smoke )کا نام دیا ہے۔ اگر چہ کہ یہ ایک انتہائی نفیس کاربن ٹیوب (نینو ٹیوب) سے بنا ہوتا ہے۔یہ 99.8 فی صد ہوا پر مشتمل ہوتے ہیں اور یہ شیشے کے مقابلے میں ہزار گنا ہلکے حاجز (insulator) ہوتے ہیں۔یہ مواد لچکدار ہوتا ہے، جس کے اندر ہزار دفعہ کھیچنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اگر اس کے ایک اونس مواد کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک کھینچا جائے تو یہ تین فٹ بال کے میدانوں کے برابر کے رقبے پر کھنچتا چلا جائے گا۔ یہ بجلی کا بہت اچھا موصل ہے جو کہ کئی اقسام کے بجلی کے سامان میں لگایا جا سکتا ہے۔ یہ باریک نینو ساختوں سے بنا ہے۔ اس سے بنائی جھیلوں کو ایندھنی خلیات میں بطور عمل انگیز استعمال کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ ان کو توانائی کے ذخیرے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسٹیل سے زیادہ مضبوط شیشہ برکلے لیب اورکیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے (Caltech) کے سائنس دانوں نے ایک خاص شیشہ تیار کیا ہے جو اسٹیل سے زیادہ مضبوط ہے۔ یہ شیشہ ٹوٹنے کے بجائے مڑ جاتا ہے کیوں کہ یہ بہت زیادہ لچک دار ہے۔ اس میں یہ خصوصیت پلاڈئم کی تھوڑی سی مقدارملا کر پیدا کی گئی ہے۔ اس کے اندر ٹوٹنے سے مزاحمت کی قوت اس سے قبل تیار کیے گئے سخت ترین مواد سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس شیشے کا استعمال دفاعی اور صنعتی اشیاء کی تیاری میں ہونے کی توقع ہے۔ ذہین پلاسٹک فلم اسکاٹ لینڈ کی strathclyde یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈریو ملز اور ان کے رفقاء نے ایک ذہین پلاسٹک فلم تیار کی ہے ،یہ پلاسٹک آپ کو اس بات سے آگاہ کرے گا کہ کھانا خراب ہونے والا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پلاسٹک جس طریقے سے کام کرتی ہے اس کو بالکل خفیہ رکھا گیا ہے۔ کھانا جیسے ہی خراب ہونا شروع ہوتا ہے فلم کے رنگوں میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے ۔اسی طرح کی ایک دریافت جرمنی کے Franhofer institute for process engineering and packaging میں کی گئی ہے، یہ خصوصی پیکجنگ تیارکرنے کی کوشش ہے، جس میں بیکٹیریا کو ہلاک کر کے کھانے کو زیادہ دیر تک تازہ رکھا جا سکے ۔ اس فلم پر ایک lacquer روغن کی تہہ چڑھائی جاتی ہے ،جس میں کھانے کے قابل اینٹی بائیوٹک اجسام ہوتے ہیں۔ جب فلم غذا کو چھوتی ہے تو آہستگی سے اینٹی بائیوٹک کااخراج شروع ہو تا ہے ،جس سے کھانے میں پیدا ہونے والے ضرررساں بیکٹیریا ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مختلف غذائیں مثلاً گوشت پنیر اور مچھلی وغیرہ کوزیادہ عرصے تک تازہ رکھا جا سکتا ہے۔ خود اپنی مرمت والے مواد ماہرین نےایک ایسا ذہین مادّہ تیا ر کیا ہےجو اپنی ساخت کی شکل یاد رکھتا ہےاور اس کے اندر اپنی مرمت کرنے کی صلاحیت بھی موجو دہے ۔ا ن مواد کی ساخت میں مائیکرو کیپسول شامل کرد یئے جاتے ہیں ۔ جب اس کا کوئی حصہ پھٹتا ہے تو یہ کیپسول بھی پھٹ جاتے ہیں اور ایک مائع خارج کرتے ہیں جو کہ مہر بند کرنے والے مسالے (Sealant) کی طرح کام کرتاہے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال پلاسٹک اور اپنی مرمت آپ کرنے والے کنکریٹ میں استعمال کیا جارہا ہے، جس میں ٹوٹ پھوٹ ہونے کے فوراً بعد ہی وہ شے اپنی اصل حالت میں واپس آجائے گی۔حال ہی میں سبزیوں کے تیل سے حیاتیاتی پولی مر تیار کیے گئے ہیں ۔جب ان کو گرم کیا جاتا ہے تو یہ اپنی سابقہ شکل میں واپس آجاتے ہیں۔ اس اہم میدان میں تحقیق lowa state university امریکا، جاپان اور یورپ کے مختلف تحقیقی اداروں میں جاری ہے۔ ٹچ اسکرین موبائل فون اور دوسری برقی آلہ جات میں ٹچ اسکرین کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ مقبول ٹچ اسکرین وہ ہے، جس میں باریک اسکرین میں بہت زیادہ شفافیت اور شاندار موصلیت( (Conductivity بھی ہو۔ یہ ظرفی اسکرین( Capacitative Screen )ایک عنصر انڈیئم سے بنتی ہیں جو کہ ہمارے کرۂ ارض پر کم مقدار میں ہے ۔چناں چہ اس کے متبادل کی تلاش جاری ہے۔ فران ہوفر انسٹی ٹیوٹ آف جرمنی میں اب کم قیمت والی ٹچ اسکرین تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو کاربن نینو ٹیوب اور کم قیمت والے پولی مر سے تیار کی جائے گی۔کاربن نینو ٹیوب غیر معمولی طور پر مضبوط ہوتے ہیں جب کہ یہ انسانی بال سے پچاس ہزار گنا زیادہ باریک ہیں۔ اور ان کی لمبائی 18 سینٹی میٹر تک ہو سکتی ہے۔ یہ گول( (Cylindrical کاربن کے مالیکیول ہیں ،جس کی لمبائی کسی دوسرے مواد سے زیادہ ہے۔ نظر کو فریب دینے والے لبادے سائنس دان میٹا مٹیریل کا استعمال کرکے روشنی کی موجوں کا رخ بدل کر کسی شے کو ہماری نظروں سے غائب کرسکتے ہیں اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ اصل شے کو دوسرے شے سے تبدیل کر دیا جائے۔ یہ تحقیق Nanjing میں قائم ساؤتھ ایسٹ یونیورسٹی میں wei xianj jaing اور Tie jun cui کی ٹیم نے کی ہے ۔اس سے قبل 2009ء میں روشنی کے لیے برقی مقناطیسی بلیک ہول تیار کیے گئے تھے۔ سائوتھ ایسٹ یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک نئی قسم کا میٹا میٹریل تیار کیا ہے جو کہ خود کو اس طرح تبدیل کرتا ہے کہ ریڈیو لہریں تانبےسے ٹکرا کر اس کی شکل بدل دیتی ہیں، جیسے کہ وہ کوئی دوسرا مادہ ہو۔ اس دریافت کا استعمال دفاع میں ہو رہا ہے جہاں جہازوں یا آبدوزوں کو اس مواد کا غلاف چڑھا دیا جاتا ہے اور وہ شے ایسی نظر آنا شروع ہو جاتی ہے جیسے کہ وہ کسی اور ساخت کی حامل ہو یا کسی اور دھات سے بنی ہو۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں