صحت کے شعبے میں انقلابی پیش رفت

Monday / Feb 18 2019

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

عالمی سطح پر تمام شعبہ ہائے زندگی میں انتہائی برق رفتاری سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ،جس کی فہرست میں سائنس وٹیکنالوجی اور ان سے ملحقہ شعبہ جات نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔ ان میں انسانی زندگی سے منسلک سب سے اہم شعبہ صحت وطب کا ہے، جس کا براہ راست تعلق اس کرہ ٔ ارض پر حیات کی موجودگی سے ہے۔ شعبہ طب و صحت میں جدید ترقی نے تمام حیوانات و بشر کی زندگیوں کی حفاظت کا ذمہ اپنے سر لے لیا ہے ۔ بلاشبہ ان جدت طرازیوں نے نہ صرف ہماری طرز زندگی میں مثبت تبدیلیاں پیداکی ہیں بلکہ صحت مند و توانا معاشرے کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ان میں سے چند اہم پیش رفت قارئین کے لئے پیش نذر ہیں۔ ذیابطیس سے نجات دلانے والے بیکٹیریا کارنیل یونیورسٹی کے جان مارج اور ان کے ساتھیوں نے آنتوں کے بیکیٹریا (Gut Bacteria)کے اسٹرین سے(Non Pathogenic E-coli) تیار کیے ہیں ۔یہ ایک پروٹین GLP-1 خارج کرتے ہیں، جس نے تجربہ گاہ میں گلوکوز کے ردعمل میں انسانی آنتوں کے خلیات سے انسولین کا اخراج شروع کیا ہے۔ ان بیکٹیریا کا استعمال ذیابیطس کےشکار چوہے پر کیا گیا تو اس کے جسم میں شکر کی مقدار معمول کی سطح پر آگئی۔ اس بات کی توقع کی جارہی ہے کہ ان بیکٹیریا کی مدد سےدہی کے مشروب تیار کیے جائیں گے ،جس سے ذیابطیس کے علاج میں مدد ملے گی۔ اس طرز فکر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بیکٹیریا صرف مطلوبہ مقدار میں پروٹین کا اخراج کریں گے، جس کے نتیجے میں جسم میں انسولین کی وہی مقدار تیار ہو جائے گی ،جس کی مریض کو ضرورت ہو گی، اس طریقے سے ہر وقت جسم میں شوگر کی مقدار کے جائزے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ مقناطیسیت سے زخم (انفکشن) کا علاج جسم میں انفکشن کا سبب بننے والے جراثیم کو ختم کرنے کے لیے نئی پیش رفت سامنے آئی ہے ۔ اس میں اینٹی باڈیز (ضدحیاتی اجسام) کو غلاف میں رکھ کر آئرن آکسائیڈ کی موتیوں کا استعمال کیا جاتا ہے ،یہ موتیاں انتہائی شفاف اور انسانی بال کی موٹائی سے سو گنا پتلی ہوتی ہیں ،ان کو مریض کے خون میں انجکشن کے ذریعے داخل کیا جاتا ہے۔ ڈائی لسز کی طرح کی ایک مشین کو ان موتیوں کو خون میں سے نمکین محلول( Saline Solution )میں ڈالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو کہ موتیوںکو خون سے بیماری کے جراثیم کے ساتھ باہر نکال دیتی ہیں یہ جراثیم موتیوں پر لگے اینٹی باڈیز کے ساتھ چپک کر باہر آجاتے ہیں۔ اس طرح سے بیماری پیدا کرنے والے 80فی صدجراثیم کو باہر نکال لیا جاتا ہے باقی رہ جانے والے جراثیم کو دواؤں کی مدد سے ختم کیا جاتا ہے۔ پرنٹنگ کے ذریعے زخموں کا علاج امریکا میں قائم Wake Forest Institute of Regenerative Medicine میں کام کرنے والے ڈاکٹرز نے ایک حیران کن کارنامہ انجام دیا ہے، جس میں وہ انک جیٹ پرنٹر کی طرح کی ایک مشین کو لے کر جلی ہوئی جلد پر جلدی خلیات کی پھوار برساتے ہیں ،اس طرح جلنے کا زخم انتہائی کم وقت میں ٹھیک ہو جاتا ہے ۔یہ طریقہ کار زخم کو تیزی سے ٹھیک کرنے اور Skin Graft کے طریقہ کار کی جگہ لے سکتا ہے۔رنگین انک جیٹ پرنٹر کی طرح کی اس مشین میں ایک ٹینک نصب کیا گیا ہے، جس میں جلدی خلیات اور Nutrient موجود ہوتے ہیں ان کو جسم کے جلے ہوئے حصے پر براہ راست کمپیوٹر سے کنٹرول ہونے والے نوزل کے ذریعے چھڑکا جاتا ہے۔ جانوروں میں کیے جانے والے تجربات میں چوہے کو آنے والےزخم دو ہفتے میں مکمل ٹھیک ہو گئے، جب کہ Skin Graft طریقہ کار میں اس کو پانچ ہفتے لگ جاتے ہیں۔ سرامکس کے ذریعے وائرس کو ہلاک کرنا برطانیہ کی Intrinsiq Material کمپنی نے جان آکسفورڈ اور ان کے ساتھیوں کی تحقیق کی بنیاد پر ایک سرامک کا غلاف تیار کیا ہے۔ اس تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ سلیکا سے تیار کیے جانے والے نینوپارٹیکل اور دھاتی کاربائیڈ سرامک ایک گھنٹے کے اندر 99.9 فی صدوائرس کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ یہ مواد چہرے پر پہنے جانے والے ماسک، ائیرفلٹرز، کیش میشن، سپرمارکیٹ میں استعمال کی جانے والی ٹرالیوں کے ہینڈل اور بینک نوٹ پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جو کہ عوامی استعمال کی وجہ سے وائرس سے متاثر ہوتے ہیں۔ بیکٹیریا کو روبوٹ میں تبدیل کرنا اب ماہرین نے روبوٹ کی طر ح بیکٹیریا کو بھی حکم کی تعمیل کرنے کے قابل بنادیا ہے ۔ایکول پولی ٹیکنک ڈی مانٹر یال کے ادارے nano Robotic لیبارٹری کے پروفیسر Sylvain Martel اور ان کے رفقاء کار نے بیکٹیریا کو کنٹرول اور کمانڈ کرنے کے لیے ایک مقناطیسی آلے کا استعمال کیا ہے ،تا کہ وہ ایک چھوٹا اہرام تعمیر کرسکیں۔ بعض خاص بیکٹیریا (Magnetotactic bacteria) کے اندر قدرتی طور پر قطب نما( Compas magnetosomes) ہوتے ہیں جو ان کو مقناطیسی میدان کی کشش کے پیچھے چلنے پر مجبور رکھتے ہیں۔ سائنس دان ان جراثیم کو بیرونی مقناطیسی میدان کو استعمال کرتے ہوئے نفوذ کرواتے ہیں جو کمپیوٹر سے کنٹرول ہونے والا 50,000بیکٹیریا پر مشتمل ایک Swarm تیار کرتے ہیں، بعدازاں15منٹ کے اندر چھوٹی اینٹوں سے چھوٹا اہرام تشکیل دے دیتے ہیں۔ ایک اور تجربےمیں جراثیمی مجموعے( Swarm) کو خون کی مخصوص نالیوں میں سفر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ان بیکٹیریا کو دوسری بیماریوں کے سراغ کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کوجینیاتی اور ادویاتی ٹیسٹ کے لیے مائیکر و فیکٹری کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کو’’مصنوعی زندگی’’ life Synthetic ‘‘کے ساتھ امریکامیں Craig Venter اور ان کے ساتھیوں نے حال ہی میں تیار کیا ہے۔اب کمپیوٹر سے تیار کردہ DNA بیکٹیریا میں داخل کیے جا سکتے ہیں، جن کو نئی جینیاتی اطلاعات کے ساتھ دوبارہ تیار کیاجا سکتا ہے، تا کہ دواؤں، جراثیم کش، ایندھن اور توانائی کی انسانی ضروریات کے حوالے سے مخصوص ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ فاصلے سے دل کی دھڑکن کا جائزہ دل کے مریضوں کی دل کی دھڑکن کا طویل عرصے تک جائزہ لینے کے لیے مریضوں کو مسلسل مانیٹرنگ مشین کے ساتھ لگے رہنا پڑتا ہے ان مشینوں میں پرسنسرز نصب ہوتے ہیں۔ یہ طریقہ کار نہ صرف تکلیف دہ ہے بلکہ اس میں مریض کی چلنے پھرنے اور گھومنے کی آزادی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ بالخصوص اس وقت جب وہ آرام کرنا چاہیں۔ حال ہی میں یونیورسٹی آف سسیکس یو کے میں ڈیپارٹمنٹ آف انجینئرنگ اینڈ ڈیزائن میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ایسے سنسرز تیار کیے ہیں جو کہ جسم سے جڑے بغیر ایک میٹر کے فاصلے پر دل کی دھڑکن کو بالکل درست ریکارڈ کر لیں گے۔ یہ سنسرز اس قدر حساس ہیں کہ یہ آنکھوں کی حرکت اور دماغی اعصاب میں رابطہ تک کی شناخت کرلیں۔ Passive System نامی کمپنی میں کام کرنے والے سائنس دان اس کوشش میں ہیں کہ ایسا نظام تیار کیاجائے کہ مریض گھر بیٹھے اپنے دل کی دھڑکن کو مانیٹر کر لیں اور مریضوں کی دل کی دھڑکن کی رفتار میں ہونے والی تبدیلی کو گھر پرہی دیکھ لیا جائے ۔ اسمارٹ بینڈیج کی نئی قسم ماہرین اسمارٹ بینڈیج کی نئی قسم کی تیاری کے مراحل میں ہیں جو کہ نہ صرف زخم کی کیفیت کے بارے میں اطلاعات فراہم کرے گی بلکہ اس قت دوا کا اخراج بھی کرے گی جب اس کی ضرورت ہو گی۔ بینڈیج سے خارج کی جانے والی اطلاعات طبی عملے کو ایک سنسر کے ذریعے منتقل کی جائیں گی۔ یہ بینڈیج ہنگامی صورت حال میں زیادہ کارآمد ہو گی جب زخمی افراد کو علاج کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ماہرین کے مطابق یہ بینڈیج زخم کی کیفیت کا اندازہ لگا کر طبی عملے کے پہنچنے سے پہلے ہی دوا فراہم کرنا شروع کر دے گی۔ اس سے فوری طبی امداد نہ ملنے کے باعث ہونے والی اموات پر قابو پایا جا سکے گا۔ یہ اسمارٹ ایڈ بینڈیج Battle Industrial Group نے تیار کی ہے۔ DNAٹیسٹنگ ۔۔۔ چند گھنٹوں میں گزشتہ صدی کے ابتدائی نصف سے مجرموں کی شناخت کے لیے انگلیوں کے نشانات کے بعد ڈی این اے ٹیسٹنگ کا طریقہ دریافت ہوا ہے۔ جائے وقوعہ سے نمونے حاصل کرنے کے بعد لیبارٹری میں لے جانے اور شناخت کے عمل کے مکمل ہونے میں دو ہفتے کا وقت لگ جاتا ہے جب کہ اکثر جینیاتی ٹیسٹ 24سے72گھنٹے لیتے ہیں۔ لہٰذا جب تک ٹیسٹ کے نتائج آتے ہیں،اُس وقت تک کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے ۔چناں چہ تیز رفتاری سے انجام دیے جانے والے ڈی این اے ٹیسٹ کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے۔ ایری زونا میں واقع یونیورسٹی آف کینساس نے برطانیہ کی فورنسک سائنس سروس کے ساتھ مل کر نئی چپ تیار کی ہے جو کہ 4گھنٹے کے اندر نتائج تیار کر دیتی ہے ۔کوشش کی جارہی ہے کہ اس ٹیکنالوجی میں مزید بہتری لا کر ٹیسٹ میں لگنے والے وقت کو کم کرکے 2گھنٹے کر دیا جائے ۔یہ فورنسک سائنس یا علم جرمیات کے حوالے سے اہم دریافت ہے۔یہ چند اہم دریافتیں ہماری زندگیوں کو یکسر تبدیل کرنے میں کافی معاون ثابت ہورہی ہیں ۔ ہمیں بھی اس جانب اپنے قدم بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ دماغ کو تحریک دے کر سیکھنے کے عمل میں مدد کرنا جرمنی کی Ruhr University Bochum میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے اس بات کا مظاہرہ کیا ہے کہ چوہے کے دماغ کی مقناطیسیت کو بڑھا کر اس کو زیادہ چست اور تیز بنایا جا سکتا ہے۔ اس تیکنیک کے ذریعے دماغ میں موجود منتخب نیورونز کو فعال کیا جاتا ہے۔ جن چوہوں کو اس قسم کے Stimulation کے عمل سے گزار گیا انہوں نے سیکھنے کا عمل زیادہ آسانی سے انجام دیا اس تیکنیک کو TransacranialMagnetic (TMS)Stimulation کا نام دیا گیا ہے۔ دماغ کے مختلف افعال کو حسب خواہش شروع اور ختم کرتا ہے۔ اس کے ذریعے دماغ کے مختلف روابط کا مطالعہ بغیر کسی مداخلت اور درد کے باآسانی کیا جا سکتا ہے۔ TMS کا استعمال دماغ میں واقع ہونے والے مختلف مسائل مثلاً یاسیت (Depression) اور شیزوفرینیا کے مطالعے میں استعمال ہوتاہے۔ الزائمر کی بیماری کے علاج میں ایک پیش قدمی ایک اندازے کے مطابق2050ءء تک الزائمر کے مریضوں کی تعداد میں 25 ملین سے بڑھ کر 100ملین ہو جائے گی۔ اس بیماری میں دماغ کے اندرایک خاص قسم کی پروٹین amyloid beta بننے لگتی ہے جو بعد ازاں دماغ میں Plaque بنا دیتی ہے۔ جو دماغی عصبیوں (نیورون) کو ہلاک کر دیتے ہیں اس کے نتیجے میں مریض نسیان کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس وقت اس مرض کے لیے مارکیٹ میں موجود دوائیں موثر انداز میں کام نہیں کر رہی ہیں۔ حال ہی میں ایک نئی Imaging تیکنیک کو اس بیماری میں شریک عوامل کو جاننے کے عمل کے ساتھ ملانے کی تیاری کی جارہی ہے ، اگر ایسا ہوگیا تو یہ تیکنیک مستقبل کے لیے اچھی امیدیں پیدا کر ے گی۔ پینی سلوانیہ امریکا کی یونیورسٹی آف پیٹس برگ میں Willaim Klunkاور Chester Methisکی سربراہی میں کام کرنے والے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے نئے برین مارکر (P IB) تیار کیے ہیں، جو کہ زندہ حالت میں مریض کے دماغ کے متاثرہ حصوں کو روشن کردیں گے اور ان کو PET (Positron Emission Tomography) میں دیکھا جاسکے گا۔ اس سے قبل دماغ کے متاثرہ حصوں کو صرف موت کے بعد آٹوپسی کے ذریعے دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ طریقہ کار مرض کی تشخیص اور دواؤں کی تیاری کے لیے اہم ثابت ہو گا ،کیوں کہ اس کی مدد سے مریض کے دماغ کا جائزہ لے کر اس میں بیماری کا سراغ لگانا آسان ہو جائے گا ۔ اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ Plaque اس مرض کی واحد وجہ نہیں ہیں، تاہم یہ واحد علامت ہے۔ مختلف پروٹین کے بنے ہوئے گٹھے (Tangles) (جن کو ٹاؤ کہا جاتا ہے) نیورون میں پائے گئے ہیں۔حالیہ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ٹاؤ پروٹین کی چھوٹی شکل (Oilgomers) اس بیماری کی ذمہ دار ہو سکتی ہے۔ اور ان چھوٹے سالمات (مالیکیولز) کو ہدف بناتے ہوئے نئی دوائیں تیار کی جاسکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے اس بیماری کے علاج کی حتمی دریافت میں مزید کئی سال لگ جائیں، مگر اس وقت ہم بیماری کے علاج کی دریافت کے حوالے سے اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں