دفاعی شعبے کی حیرت انگیز ٹیکنالوجیز

Monday / Mar 11 2019

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

سائنس کے میدان میں جہاں کائنات ،صحت ،خلاا ور دیگر شعبوں میں ترقی ہورہی ہے ،اسی طر ح دفاعی میدان میں جدید ہتھیار تیار کیے جارہے ہیں ۔گزشتہ دو دہائیوں میں جنگوں کی نوعیت میں بڑی تیزی سے تبدیلی رونماہوئی ہے۔شخصی ذہانت اورطاقت کو مصنوعی ذ ہا نت (artificial intelligence) کا سہارا مل گیا ہے۔ اور مستقبل میں مشینوں کے ذریعے لڑی جانے والی جنگوں میںانسانوں کے مقابلے میںکمپیوٹر کے ذریعےمنصوبہ بندی اور فریب کہیں زیادہ مؤثرہوگا۔اب مصنو عی ذہانت کے بل بوتے پر جنگوں کے نئے منصوبے اور حکمت عملیاں طے کی جا رہی ہیں اور پاکستان اس ترقی کی دوڑ میں دیگر ممالک کے مقابلے میں پیچھے رہ گیاہے۔ آج کل خفیہ و حساس طیارے اور آبدوزیں ایسی تیار کی جا رہی ہیں جن کے برقی سرکٹ کے نظام میں نہایت خطرناک "آلودہ چپس"(contaminated Chips) نصب کی جارہی ہیں جو کہ ایک بیرونی کوڈ کردہ برقی سگنل کے ذریعے طیارے اور آبدوز میں نصب ہتھیاروں کے نظام یا دیگر کنٹرول کو یکایک غیر فعال کر سکتی ہیں۔ ان چپس میں موجود پیچیدہ برقی سرکٹ کی بدولت ان کو شناخت کرنا تقریبا ًناممکن ہے۔ سائنس کے میدان میں بہت حیرت انگیز پیش رفت ہو رہی ہیں، جس کے نتیجے میں جنگی مشینوں کی تیاری کے لئے بھی راستے استوار ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہدف کردہ "عقلمندگولیاں " (smart bullets) تیار کی گئی ہیں جو کہ دیوار کے پیچھے چھپے دشمن کوبھی نشانہ بناسکتی ہیں۔امریکی دفاعی ایجنسی DARPAکی مدد سے اس قسم کی گولیوں کی تیاری کے لئےایک پروگرام EXACTO شروع کیا گیاتھا۔EXACTO کا کامیاب تجربہ 2014 ءمیں کیا گیا تھا ،جس میں یہ بھی دکھایا گیا تھا کہ گولی اپنے ہدف تک پہنچنےکے لئے بیچ راستے میں اپنی رفتار کو قائم رکھتے ہوئے رخ تبدیل کرکے درست ہدف کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ 2012 ءمیں Sandia نیشنل لیبارٹری نے ایک ایسی گولی کا نمونہ تیارکرنےکا اعلان کیا جو کہ ہدف پر پڑنے والی لیزر کی شعاع کو از خود نشانہ بنا سکتی ہے۔ اس گولی میں اپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے ایک میل کی دوری سے 30بارفی سیکنڈدوران تعاقب رخ تبدیل کرنے کی صلاحیت تھی۔روس نے بھی گزشتہ سال اعلان کیا ہےکہ وہ بھی اسی قسم کی گولی تیا ر کررہا ہے جو کہ6 میل کے فاصلے پر اہداف کو اپنا رخ دوران تعاقب مسلسل تبدیل کرکے نشانہ بنا سکے گی۔ اس جدید دور میں انسانوں کے ساتھ مشینوں کے ملاپ کا نظام بھی تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ ایسے مشینی سوٹ (mechanical suits) Exoskeletons پہلے سے ہی دستیاب ہیں جو کہ انسانی طاقت اور رفتار کو کئی گنا بڑھا سکتے ہیں اور مستقبل کی جنگیں بھی اسی طرح کے سپر انسانی (super humans) فوجیوں ہی سے لڑی جائیں گی ۔انسانوں میں دانشورانہ صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے انسانی دماغ میں طاقتور حافظہ چپس(memory chips) نصب کئے جانے پر بھی بہت کام ہورہا ہے۔ایلون مسک کے مطابق اس انتہائی ذہین مشینی دور جسے ہم خود تخلیق کررہے ہیں ،ا س میں زندہ رہنے اور اس کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہنے کے لیے ایک براہ راست انسانی دماغ کی اشدضرورت ہے ۔اس نئے مواد کے میدان میں سب سے زیادہ حیرت انگیز پیش رفت میٹا میٹرئیل کی دریافت ہے ۔اس مواد میں روشنی کو جھکانے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے ۔اس سے ڈھکے ہوئے ہوائی جہاز ،ٹینک اور آبدوزیں انسانی نظر سے پوشیدہ کی جاسکتی ہے ۔اسی طر ح نینو ٹیکنالوجی کا شعبہ بھی طب ،صنعت اور دفاع پر اثر انداز ہورہا ہے ۔اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے ماہرین نے نینو سیلولوز (nano-cellulose) نامی ایک کاغذ تیار کیا ہے ،جواتنا زیادہ مضبوط ہے کہ مستقبل میں بلٹ پروف جیکٹس اس سے بنائی جائیں گی ۔ سائی بورگ بھنورا ایک نیا دفاعی ہتھیار ٹوکیو میں قائم زرعی ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے ایک Cyborge beetle تیار کی ہے ،جس میں ایک پہلے سے طے شدہ پروگرام کی حامل ریموٹ کنٹرول چپ بھنورے کے دماغ میں چپکا دی جاتی ہے یا اس کے دماغی خلیے سے منسلک کردی جاتی ہے ،جس کے ذریعے اس بھنورے کی حرکت کو بیرونی ذرایع سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔اس کو طاقت فراہم کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی بیٹریاں بنائی گئی ہیں ۔ماہرین کو اُمید ہے کہ یہ سائی بورگ ایک نیا دفاعی ہتھیار ثابت ہوں گے جو کہ خفیہ تنصیبات اور گفتگوکے متعلق معلومات فراہم کریں گے ۔ ڈرون کیڑے اب دیکھ بھی سکتے ہیں امریکا میں کیڑوں کی جسامت کے ڈرون تیار کیے گئے ہیں اور ان میںمنی کیمرے بھی نصب کیے گیے ہیں ۔یہ آواز اور تصویر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرسکتے ہیں ۔یہ کیمرا ایک مائیکرو چپ میں نصب کیا جا تا ہے جو کہ وزن میں بہت زیادہ ہلکا ہوتا ہے ۔خاص طور پر جاسوسی کے لیے یہ ایک کلو میٹر کے فاصلے سے ایک محفوظ فریکوئینسی کے سگنل سے کنٹرول کیا جاتا ہے ۔اس آلے کو caltech's jet propulsion lab میں تیار کیا گیا ہے ۔ اسمارٹ ہتھیار سیکورٹی اور دفاع کے میدان میں کام کرنے والے اداروں کو دشمن فوجیوں یا پناہ گاہ (Bunker)میں چھپے باغیوں کو ہلاک کرنے میں مسئلہ پیش ہوتا ہے اگروہ نظر کے سامنے نہ ہوں تو ان کو ہلاک کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔ امریکی فوج نے25 XMرائفل کی ایجاد کے ذریعے اس مسئلہ کا حل تلاش کرلیا ہے جوکہ ریڈیو کنٹرول گولیوں سے فائر کرتی ہے ۔ رائفل میں ایک لیزر رینج فائٹرز نصب ہے جوکہ ہدف سے فاصلے کی پیمائش کرتا ہے ۔ یہ تین میٹر تک کے فاصلے کو ایڈجسٹ کرکے فائر کرنے پر گولی (ایئر برسٹ کی صورت میں) ہدف کے پاس یا ہدف سے کچھ فاصلے پر جاکراس کو ہلاک کردیتی ہیں۔یہ خصوصی رائفل گرینیڈ لانچر کی طرح عمل کرتی ہے، جس میں دھماکے کے اصل مرکزپرانتہائی دھماکہ خیز راؤنڈ کے ساتھ کنٹرول کرنے کی صلاحیت موجود ہے 25XMراؤنڈ میں ایک چپ لگی ہوتی ہے ،جس کے ذریعے رائفل کی گن ساکٹ سے ایک سگنل بھیجا جاتا ہے جوکہ مطلوبہ جگہ پر جاکر پھٹ جاتا ہے ۔اس قسم کے اسمارٹ اسلحےکی تیاری جدید مائیکرو چپ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے ۔یہ جدید اسلحے گزشتہ دو سالوں میں عراق اور افغانستان میں استعمال ہوئے ہیں۔ نئے اسٹیلتھ ہتھیار اگر دشمن کی سرزمین سے کئی میل کے فاصلے سے جوہری دھماکہ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی برقی مقناطیسی پلس دشمن کی نگرانی کے آلات اور دوسرے آلات کو جام کردیں گے ،مگر اس کے ساتھ دونوں اطراف کا وسیع نقصان ہوگا ۔امریکی فوج اب ایک نیاہتھیار استعمال کررہی ہے، جس میں برقی مقناطیسی پلس کا گیگاواٹ برسٹ استعمال کیا جاتا ہے جو10نینو سیکنڈ طویل ہوتا ہے یہ ننگے تاروں میں بجلی دوڑادیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ریڈار،سیٹلائٹ ڈش اور دیگر برقی آلات تباہ ہوجاتے ہیں ۔یہ ہتھیار انسان کے بغیر چلنے والی اسٹیلتھ گاڑی UAVسے فائر کیا جاتا ہے اس طرح بوئنگ نے ایک خاص اسٹیلتھ کا حاملUAV Phanton Ray تیار کیا ہے جو کہ دشمن تک پہنچ جاتا ہے اور دشمن اس کے بارے میں لاعلم رہتا ہے ،کیوں کہ مائیکروویوVantilation ducts اورپائپ میں سفر کر سکتی ہے۔ لہٰذا یہ دشمن کی خفیہ پناہ گاہ ہوں تک پہنچ جاتی ہے اور اس میں چھپائے گئے برقی آلات بھی تباہ ہوجاتے ہیں۔ امریکی فضائیہ نے اس میں مزید ترقی کے لئے 40ملین امریکی ڈالرز وقف کئے ہیں، تاکہ زیادہ طویل فاصلے پر مار کرنے والے ہتھیار تیار کئے جاسکیں ۔ لیزر جنگ 3اسٹاروار کی طرزپر 11فروری2010ء میں سمندر پر موجود موبائل لانچ پلیٹ فارم سے ایک بلاسٹک میزائل پھینکا گیا جیسے ہی راکٹ بوسٹر کی فائرنگ سے میزائل نے رفتار پکڑی اس کو فوراًایک ہوائی جہاز،جس میں طاقت ور کیمیکل آکسائیڈلیزر گن نصب تھی ،ا س نے اس کو شناخت کرلیا ۔ہدف کی تلاش کم توانائی والے لیزر سے کی گئی اور میگاواٹ تک بلندتوانائی والے لیزر سے اس کو فائر کیا گیا، جس نے پلاسٹک میزائل کو تباہ کردیا۔ یہ پلاسٹک میزائل کو تباہ کرنے کا پہلا مظاہرہ تھا ۔ اس تجربے کے بعد جنگی ہتھیار وں کی دوڑ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی جوکہ مستقبل کی جنگوں کا نقشہ تبدیل کر سکتی ہے ۔ اس قسم کے ہتھیاروں کی تیاری کے پروگرام کا آغاز رونالڈریگن نے 1983ء میں کیا تھا۔ ان ہتھیاروں سے زمین پر وار کرنے والے لیزر ہتھیار تیار کئے گئے ،مگر اس میں خرابی یہ تھی کہ یہ بہت محدود علاقے کی حفاظت کر سکتے تھے۔ اس کے بعداہم ترین پروگرام موبائل فضائی Airborneلیزر گن سسٹم تھا جوکہ کہیں بھی فوری طور پر اُتا را جاسکتا تھا ۔2004ء میں B-747 ایئر کرافٹ میں ترمیم کرکے اسے ہائی پاور لیزر گن میں تبدیل کردیا گیا۔اس ٹیکنالوجی میں فری الیکٹران لیزز(FEL) شامل تھے۔ یہ روایتی لیزر سے مختلف ہوتی ہے، جس میں روشنی کے طول موج پر اس کے خارج ہونے کا انحصار ہوتا ہے ( گر چہ کے اس کا انحصارلیزر میں لیکٹران کے ماخذ، گیس یا کرسٹل پر ہوتا ہے ) FELآلے میں ایٹم الیکٹران کی پٹیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ دوبارہ استعمال کے قابل ہوائی جہاز 22 اپریل 2011 ء میں بوئنگ خلائی جہاز کا آغاز امریکا (فلوریڈا) کے canaveral air force station (caps) سے کیا گیا ۔ماہرین کے مطابق X-32B Orbital test vehicles مستقبل کی خلائی گاڑی کی نمائندگی کرتی ہے ۔اس کو تیار کرنے کا مقصد خلا میں لے جانا نہیں بلکہ سیٹلائٹ میں لگانے کے لیے آلات ،مواد اور سینسرز لے جانا ہے ،تاکہ ہتھیار وں کے نئے نظام کو lower earth orbit میں خلا میں ہی جانچ لیا جائے ۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نو ماہ سے زیادہ عر صے تک خلا میں رہ سکتا ہے ،یہ دشمن کی سر زمین پر ہونے والی عسکری نقل وحرکت پر چوکس نظر رکھتا ہے ،اس کے ساتھ ہی اس دشمن پر حملہ کرنے کی صلاحیت کا حامل بھی ہے ۔اس کی تیاری میں ناسا کے ساتھ امریکا کی defense advance research project agency) )DARPA اور دوسری امریکی ایجنسیاں بھی شامل ہیں ۔خفیہ معلومات جمع کرنے کے علاوہ یہ خلائی جہاز جنگی حوالے سے بھی اہم مقامات پر چھوٹے جاسوس سیٹلائٹ بھی بھیج سکتا ہے ۔ ایک اہم عسکری ترقی....ٹینکوں کو غائب کرنا BAE سسٹمز دفاعی ہتھیار بنانے والا بین الاقوامی ادارہ ہے ۔یہاں کے ماہرین نے دفاعی ہتھیار وں کے میدان میں ایک نئی پیش رفت کی ہے ۔کوئی ٹینک یا دوسرا اسلحہ دشمن کے مقابلے میں اس صورت میں کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے ،اگر اس کو کسی غلاف میں لپیٹ دیا جائے یا اس طر ح نظر آئے کہ اس کی شناخت ممکن نہ رہے ۔BAE کے انجینئرز نے ایک ایسی Cloaking technology تیار کی ہے ،جس کے ذریعے ٹینکوں اور گاڑیوں کو ایک خا ص مواد کے بنے ہوئے مسدسی( hexagon) غلاف سے ڈھک دیا جا تا ہے ۔ یہ مسدس بطور کیمرا کام کرتے ہیں ،جن کے اندر اپنا درجۂ ٔحرارت تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے اور یہ ایک زیریں انفراریڈ شبیہ (infra red) کی صورت میں آپس میں مل جاتے ہیں ۔سطح پر موجود مسدس وزن میں ہلکے مگر مضبوط مواد سے بنے ہیں جو کہ دشمن کی گن فائر سے حفاظت بھی فراہم کرتے ہیں ۔انفرا ریڈ شبیہ کے علاوہ اس ٹیکنالوجی کو اسپیکٹرم کے دوسرے حصوں کے حوالے سے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے (مثلاً نظر آنے والی روشنی)اس طرح ہر انداز کی خفیہ صلاحیت کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی پانی کے جہازوں، ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹر کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں