فضا میں تبدیلی

Sunday / Jun 23 2019

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

جناب عمران خان کی حکومت کی آمد سے تبدیلی کے بادل تیزی سے بلندہو رہے ہیں،بدعنوانوں کو پکڑا جا رہا ہےاور تازہ خیالات کے ساتھ ایک نئی ابتداہوچکی ہے۔متوقع تبدیلیوں کے ساتھ، ہمیں ایک مضبوط علمی معیشت میں منتقلی پر توجہ مرکوز کرنا اورایک ایسی مربوط و منظم منصوبہ بندی تیار کرناہوگی جو ملک کو تیزی سے پائیدار اور باضابطہ سماجی واقتصادی ترقی کی جانب گامزن کر سکے۔ چوتھے صنعتی انقلاب کے آغاز کے بعد، نت نئی جدت طرازیاں دنیا بھر میں تیزی سےتبدیلیاںلا رہی ہیں ہی حتیٰ کہ مصنوعی ذہانت صنعتوں کو چلانے کے طریقے تک تبدیل کررہی ہے۔ نئے مواد جیسا کہ گرافین نے ،جو لوہے سے 200 گنا زائد مضبوط اور خالص کاربن سے بنا ہے، روایتی مواد کی جگہ لینا شروع کر دی ہے،مکانات اور انسانی اعضاء جیسا کہ گردے، جگر اور جبڑے کی ہڈیوں کے حصےاب 3D چھپائی کے ذریعےتیار کئے جا سکتے ہیں۔ جزعیہ خلیات کے شعبے کی ترقی نے طب کی دنیا میں علا ج کے طریقہ کار ہی کو تبدیل کردیا ہے اب خراب اعضاکی مرمت بھی ہوسکتی ہے، تجدیدی طب،طب کےبڑھتے ہوئے شعبوں میں سے ایک ہے. اسی طرح جینیات کے شعبے نے ترقی کرتے ہو ئے پودوں اور جانوروں کی ایسی نئی نسلیں ایجاد کی ہیں جو ہمارے سیارے پر کبھی موجود ہی نہیں تھیں۔ اسلوب کاروباربھی تیزی سے تبدیل ہو رہےہیں۔ اوبر، دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسی کمپنی ہے جو ایک بھی گاڑی کی مالک نہیں ہے، فیس بک، دنیا کی سب سے زیادہ مقبول میڈیا کمپنی ہے،لیکن کوئی بھی فلم نہیں بناتی۔ دنیا کی سب سے بڑی خوردہ فروش کمپنی علی بابا،کا اپنا کوئی اسٹاک نہیں، ایئر بی این بی، دنیا کی سب سے بڑی رہائش گاہ فراہم کرنےکی کمپنی ہے،لیکن اس کی اپنی کوئی جائیداد نہیں ہے،تعلیم اور تحقیق میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے والے ممالک تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، کیونکہ دور حاضر میں جدت طرازی اور کاروبار نمائندگی کرتے ہیں،علم کی اس دوڑ میں یہودی قوم بڑی تیزی سےآگے بڑھ رہی ہے.اس کا اندازہ ایسے لگا یا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر اب تک 870 نوبل انعامات نوازے جا چکے ہیں جن میں سے 185(21.2٪) نوبل انعام یافتگان یہودی باشندے ہیں، اس کے برعکس، صرف دو مسلمان سائنسدانوں نے نوبل انعام حاصل کیا ہے لیکن وہ بھی مغرب میں کام کی بنیاد پر۔ رائل سوسائٹی (لندن)، دنیا کی سب سے زیادہ معروف سائنس سوسائٹی ہے جو دنیا بھر کے سائنسدانوں کو 1660 سے اپنے فیلو کے طور پر منتخب کرتی ہے جس میں آئیزک نیوٹن ، چارلس ڈارون اور اسٹیفن ہاکنس جیسے نامور سائنسدان شامل ہیں،گزشتہ 357 سالوں میں منتخب ہونے والے،8000 سائنس دانوں میں سےاب تک صرف چارسائنسدانوں کا تعلق اسلامی دنیا سے ہے ان میں سے دو سائنس دان مرحوم ڈاکتر سلیم الزمان صدیقی اور یہ خاکسار پاکستان کے ایک ہی ادارے ،بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (حسین ابراہیم جمال تحقیقی ادارہ برائے کیمیائی تحقیق اور ڈاکٹر پنجوانی مرکز برائے سالمیاتی طب و ادویاتی تحقیق )، جامعہ کراچی سے تعلق رکھتے ہیںباقی دو سائنسدان (پروفیسر مرحوم عبدالسلام اور پروفیسر محمد اختر)کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ اس تیزی سے بدلتی دنیا میں جہاں علم سماجی و اقتصادی ترقی کا اہم جزو بن گیا ہے اور قدرتی وسائل کو پس پشت ڈال دیا گیاہے ، اب سوچنا یہ ہے کہ ہماری سماجی واقتصادی ترقی کی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے؟ اس کا سب سے بہترین حل یہ ہے کہ تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کواولین ترجیح دیتےہوئے اپنااصل ا ثاثہ یعنی 25 سال سے کم عمر 130 ملین افراد پر مشتمل نوجوان نسل کو استعمال کیاجائے ، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو کل یہی نوجوا ن ہماری قوم پر سب سے بڑا بوجھ بن جائینگے اور اس کے ذمہ دار ہم خود اور ہماری فرسودہ حکمت عملیاں ہونگیں۔ ہم اسکول، کالج اور جامعاتی سطح کی تعلیم کے ساتھ ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی کے اہم شعبوں میں کافی سرمایہ کاری کئے بغیر علمی معیشت میں منتقلی نہیں ہوسکتے۔اس کے لئے تحقیق و ترقی کی مد میں کم از کم جی ڈی پی کا 3 فیصد مختص کرنا ضروری ہے جو بتدریج بڑھ کر جی ڈی پی کے 5فیصدتک پہنچ جائے۔ اسی طرح جی ڈی پی کا ٪ 5فیصد تعلیم کےلئے مختص کیا جانا چاہئے جس کاایک تہائی حصہ اعلی تعلیم کے لئے مختص کیا جائے ۔ البتہ سرمایہ کاری میں اضافہ بغیر موزوں حکمت عملی اور بہترین انتظام کے قومی وسائل کے زیاں کے سوا کچھ نہ ہوگا ۔اس کے لئے سخت بنیادوں پر ادارتی اصلاحات کرنا اور اعلی تعلیم و تحقیق کے اداروں کو کا رکردگی کی بنیادوں پر مراعات فراہم کرناہونگی۔ حکومت صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ماہر افرادی قوت کے بل بوتے پر ہی بہتر کردار ادا کر سکتی ہے۔ اور حقیقی فرق اس وقت نظر آئیگا جب پیداواری صلاحیتوں کو بڑھانے اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کوبرآمدات میں اضافے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ اس کے لئے نجی صنعتوں کے اعلیٰ ماہرین کو ملازمت فراہم کرنے کیلئے حکومت کو چھو ٹے کاروبار کے لئے فنڈز مختص کرنے چاہئیں۔اس کے علاوہ صنعتی صلاحیت میں اضافے اور اعلیٰ ٹیکنالوجی مصنوعات کی برآمدات کو فروغ دینے کے لئے ایسی صنعتوں کو ’’خاص مقام‘‘ دیتے ہوئے انہیں طویل مدتی ٹیکس کی چھوٹ فراہم کی جائے۔ نئے اعلیٰ تکنیکی تحقیق و کاروباریوں کے لئے حکومت کی جانب سے خسارے کی صورت میں بیمہ کی سہولت فراہم کی جائے ۔ ہمارے نجی و سرکاری شعبوں میں مقامی اعلیٰ تکنیکی ترقی کو فروغ دینے کے لئےگردشی جدت طرازی فنڈ قائم کرنا چاہئے۔ موجودہ حالات میں اس وقت ہر دس لاکھ افراد میں سے صرف 270 افراد سائنسدان اور انجینئر ہیں جبکہ ہمیں تقریباً ہر دس لاکھ افراد میں تین ہزار سائنسدان اور انجنئیر کی ضرورت ہے۔ یعنی دس گنا اضافے کی ضرورت ہے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو اس طرح کے صنعتی و تکنیکی اداروں پر مشتمل ایک سے زیادہ’’علمی ہب‘‘قائم کرنے ہونگے جن کی بالخصوص سامان کی تیاری، انجینئرنگ سامان کی برآمدات ، دفاعی مصنوعات، بائیو ٹیکنالوجی مصنوعات، دوا سازی پر توجہ مرکوز ہو۔ مقامی ٹیکنالوجی کوترقی دینے کے لئے منصوبہ بندی ڈویژن کو تمام غیر ملکی امداد اور غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کے منصوبوں کی منظوری کے لئے لازمی علم منتقلی کی شرط سے منسلک ہونا چاہئے، تاکہ اس طرح کے منصوبوں کی لاگت میں سے کم از کم 5 فیصد رقم تربیتی اور مقامی صلاحیتوں کی ترقی کے لئے مقرر کی جاسکے جو کہ قومی خود مختاری کے لئے بہت ضروری ہے ۔ یہ ایک شرمناک حقیقت ہے کہ پاکستان سائنس اور ٹیکنالوجی (2018/2019 کے سالانہ بجٹ کےلئے مختص) صرف ایک ارب روپے خرچ کئے لیکن تین سو گنا سے زیادہ رقم،. 300 ارب روپے ، لاہور میں آرنج لائن بس کے منصوبے پر خرچ کئے گئے ۔کیا یہ قوم کے ساتھ ظلم نہیں؟. ہماری قومی منصوبہ بندی میں مجرمانہ غفلت ہوئی ہے۔ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر سے ان کی حکومت کی تین ترجیحات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا ردعمل تھا ’’تعلیم، تعلیم، اور صرف تعلیم‘‘ جبکہ پاکستان میں اس کو کو ئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ بہر حال تبدیلی کے بادل اڑ رہے ہیں، ان سےانشاء اللہ ہم نئی بلندیوں تک پہنچیں گے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں