Saturday / Aug 17 2019
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
سائنس کی دنیا کو وسیع کرنے کے لیے سائنس دان نت نئی چیزیں تیار کررہے ہیں ۔اسی ضمن میں ماہرین نے مادّی سائنس میں اہم پیش رفت کی ہے، جن کے بارے میں ذیل میں موجود ہے۔ نینو ٹیکنالوجی … تیزی سے چارج ہونے والی مخلوط ہائی برڈ (Hybrid) کار بیٹری ہائی برڈ( hybrid car ) یا مخلوط گاڑیاں وہ گاڑیاں ہیں جو پٹرول کے خلیات (جس میں ہائیڈروجن طاقت کے ذخیرہ کے طورپر کام کرتی ہے) یابیٹریز (جو کہ بجلی سے دوبارہ چارکی جاتی ہیں) دونوں پر چلائی جاسکیں۔ یہ گاڑیاں گزشتہ چند سالوں میں متعارف ہوئی ہیں۔ دوبارہ چارج ہونے والی بیٹریوں میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کو چارج ہونے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں ۔ایم آئی ٹی (MIT) سے تعلق رکھنے والے Kangad cedarنے اب ایسی تجرباتی بیٹریاں تیار کی ہیں جو عام بیٹریوں کے مقابلے میں 100 گنا زیادہ تیزی سے چارج ہوتی ہیں ۔ ان بیٹریوں میں نینو بالز نصب ہیں جو کہ لیتھم، لوہے اور فاسفیٹ کی بنی ہیں اور یہ ایک گھنٹے کے بجائے ایک منٹ میں چارج ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان نینو میٹریل سے بنی موبائل فون کی بیٹریاں چند سیکنڈز میں چارج ہو سکیں گے۔ وہ دن دور نہیں جب پیٹرول بھرنے کے اسٹیشن بیٹری چارج کرنے کے اسٹیشن بن جائیں گی۔ دنیا کا سب سے ہلکا ٹھوس مواد ایجاد یونیورسٹی آف فلوریڈا میں کام کرنے والے سائنس دان دنیا کا سب سے ہلکا ٹھوس مواد تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ اس قدر ہلکا ہے کہ اس کے ایک مربع سینٹی میٹر کا وزن 4ملی گرام کے برابر ہے۔ اس کو جمے ہوئے دھوئیں ( Frozen Smoke )کا نام دیا گیا ہے۔ اگر چہ کہ یہ ایک انتہائی نفیس کاربن ٹیوب (نینو ٹیوب) سے بنا ہواہے۔یہ 99.8 فی صد ہوا پر مشتمل ہوتے ہیں اور یہ شیشےکے مقابلے میں ہزار گنا ہلکے حاجز (insulator) ہوتے ہیں۔یہ مواد لچکدار ہوتا ہے، جس کے اندر ہزار دفعہ کھیچنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اگر اس کے ایک اونس مواد کو لے کر ایک کونے سے دوسرے کونے تک کھینچا جائے تو یہ تین فٹ بال کے میدانوں کے برابر کے رقبے پر کھنچتا چلا جائے گا۔ یہ بجلی کا بہت اچھا موصل ہے جو کہ کئی اقسام کے بجلی کے سامان میں لگایا جا سکتا ہے۔ یہ باریک نینو ساختوں سے بنا ہے اس سے بنائی جھلیوں کو ایندھنی خلیات میں بطور عمل انگیز استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کو توانائی کے ذخیرے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ذہین پلاسٹک فلم اسکاٹ لینڈ کی strathclyde یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈریو ملز اور ان کے رفقاء نے ایک ذہین پلاسٹک فلم تیار کی ہے ،یہ پلاسٹک آپ کو بتا دے گی کہ اس کے اندر بند کیا ہوا کھانا اب خراب ہونے والا ہے۔ یہ پلاسٹک جس طریقے پر کام کرتی ہے اس کو بالکل خفیہ رکھا گیا ہے۔ کھانا جیسے ہی خراب ہونا شروع ہوتا ہے فلم کے رنگوں میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے ۔اسی طرح کی ایک دریافت جرمنی کے Franhofer institute for process engineering and packaging میں کی گئی ہے، یہ خصوصی پیکجنگ تیارکرنے کی کوشش ہے، جس میں بیکٹیریا کو ہلاک کر کے کھانے کو زیادہ دیر تک تازہ رکھا جا سکے گا۔ اس فلم پر ایک lacquer یا روغن کی تہہ چڑھائی جاتی ہے، جس میں کھانے کے قابل اینٹی بائیوٹک اجسام ہوتے ہیں۔ جب فلم غذا کو چھوتی ہے تو آہستگی سے اینٹی بائیوٹک کااخراج شروع ہو جاتا ہے، جس سے کھانے میں پیدا ہونے والے ضرررساں بیکٹیریا ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مختلف غذائیں مثلاً گوشت پنیر اور مچھلی وغیرہ کوزیادہ عرصے تک تازہ رکھا جا سکتا ہے۔ اسٹیل سے زیادہ مضبوط شیشے برکلے لیب اورکیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے (Caltech) سائنس دانوں نے ایک خاص شیشہ تیار کیا ہے جو اسٹیل سے زیادہ مضبوط ہے۔ یہ شیشہ ٹوٹنے کے بجائے مڑ جاتا ہے، کیوںکہ اس میں اچھی خاصی لچک موجود ہے۔ اس میں یہ خصوصیت پلاڈئم کی تھوڑی سی مقدارملا کر پیدا کی گئی ہے۔ اس کے اندر ٹوٹنے سے مزاحمت کی قوت سخت ترین مواد سے بھی بڑھ کر ہے۔ماہرین کے مطابق اس شیشے کا استعمال دفاعی اور صنعتی اشیاء کی تیاری میں ہونے کی توقع ہے۔ اپنی مرمت آپ کرنے والے مواد سائنس دانوں نے ایسا ذہین مواد تیار کیاہے جو اپنی مرمت خود کرسکتا ہے ۔یہ اپنی ساخت کی شکل کو یاد رکھتا ہے اور اس میں اپنی مرمت آپ کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے۔ان مواد کی ساخت میں مائیکرو کیپسول شامل کردیے جاتے ہیں ،جب اس کا کوئی حصہ پھٹتا ہے تو یہ کیپسول بھی پھٹ جاتے ہیں اور ایک مائع خارج کرتے ہیں جو کہ مہر بند کرنے والے مسالے (sealant) کی طر ح کام کرتے ہیں ۔اس ٹیکنالوجی کا استعمال پلاسٹک اور اپنی مرمت آپ کرنے والے کنکریٹ میں کیا جا رہا ہے ، جس میں ٹوٹ پھوٹ ہونے کے فوری بعد ہی وہ شے اپنی اصل حالت میں واپس آجائے گی۔حال ہی میں سبزیوں کے تیل سے حیاتیاتی پولی مر تیار کیے گئے ہیں ان کو گرم کیا جاتا ہے تو یہ اپنی سابقہ شکل پر واپس آجاتے ہیں۔ اس اہم میدان میں تحقیق lowa state university ،امریکا ، جاپان اور یورپ کے مختلف تحقیقی اداروں میں جاری ہے۔ ٹچ اسکرین…کاربن نینو ٹیوب موبائل فون اور دوسری برقی آلہ جات میں ٹچ اسکرین کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ مقبول ٹچ اسکرین وہ ہے، جس میں باریک اسکرین میں بہت زیادہ شفافیت اور شاندار موصلیت Conductivity بھی ہو۔ یہ ظرفی اسکرین Capacitative Screen ایک عنصر انڈیئم سے بنتی ہیں جو کہ ہمارے کرہ ٔارض پر کم مقدار میں ہے۔ چناں چہ ماہرین اس کے متبادل کی تلاش کررہے ہیں جو کاربن نینو ٹیوب اور کم قیمت والے پولی مر سے تیار کی جائے گی۔کاربن نینو ٹیوب (یہ کاربن فائبر سے مختلف ہیں) غیر معمولی طور پر مضبوط ہوتے ہیں جب کہ یہ انسان بال سے پچاس ہزار گنا زیادہ باریک ہیں۔ اور ان کی لمبائی 18 سینٹی میٹر تک ہو سکتی ہے۔ یہ گول Cylindrical کاربن کے مالیکیول ہیں، جس کی لمبائی اور قطر کسی دوسرے مواد سے زیادہ ہے۔ Bucky Ball جو کہ فٹ بال کی شکل کے کاربن مالیکیول ہوتے ہیں،یہ دریافت سسیکس یونیورسٹی کے پروفسیر رچرڈ اسمالے اور رائس یونیورسٹی کے رابرٹ کرل نے کی ہے ، وہ لوگ اصل میںیہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ سیاروں میں خاص مرکبات (پولی سائنو ایسی ٹائلین) کس طرح بنتے ہیں اور گریفائٹ کو تیز درجۂ حرارت پر کس طرح گرم کر دیتے ہیں ۔اس کے نتیجے میں حادثاتی طور پر فٹ بال کی شکل کے کاربن مالیکیول کی دریافت عمل میں آئی ہے۔ گریفین سے ۔۔ نیاکمپیوٹر تیار ہم نے گریفائٹ کے بارے میں سن رکھاہے۔ یہ کاربن کی ایک پرت ہوتی ہے جو کہ ایک دوسرے کے ساتھ شہد کے چھتے کی شکل میں گٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اس میں سے موٹے ایٹم کی ایک تہہ یا پرت کو اتار دے تو Graphene نام کا مواد حاصل ہوتا ہے، جس کے اندر شاندار خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ 2010 ءکا نوبل انعام andre Geim اور Kon Stantin Novoselov کو گریفین کے Two-dimension Structure کے اچھوتے کام پر دیاگیا۔ اس مواد نے شاندار الیکٹران نقل پذیری کامظاہرہ کیا یہ الیکٹران انتہائی تیز رفتار سے ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے حرکت کرتے تھے۔ رائس یونیورسٹی ہیوسٹن ٹیکساس کے James Tour اور ان کے ساتھیوں نے ایٹم کی ان شیشوں پر نقش کاری کا طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔ اس طرح اس مادّے کا ایک پرت پر مشتمل حصہ تار کا کام انجام دے سکتا ہے۔ اگر گریفین کے ایک حصے پر اس انداز سے نقش کاری کا عمل کر دیا جائے کہ اس کی دو پرتیں حاصل ہو جائیں تو یہ نیم موصل کی طرح کام کرنے لگیں گی اور ان کو ٹرانسسٹر میں بھی تبدیل کیا جا سکے گا۔نقش کاری کے طریقے پر جامع کنٹرول حاصل کرکے آنے والے دور کے انتہائی تیز رفتار Super fast کمپیوٹر بنائے جاسکیں گے۔ گرین ہاؤس گیسوں سے عمارتی سامان کی تیاری فوسل فیول یا معدنی تیل کے جلنے سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ بالخصوص صنعتی منصوبوں سے خارج ہونے والی گیسیںعالمی درجۂ حرارت میں اضافے کے حوالے سے اہم خطرہ ہیں۔ ان منصوبوں پر اسکربر Scrubber (گیس کو خالص بنانے والے اوزار) کا استعمال کرکے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو نکال تو دیا جاتا ہے، مگر اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مائع کو لازمی پروسس کرنا پڑتا ہے، تا کہ اس میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ علیحدہ کی جا سکے، جس کوبعد میں دبا کر ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ مہنگا طریقہ کار ہے۔ اب امریکا کی مشی گن ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے طلباء نے ایک ایسا طریقہ کار تیار کیا ہے جو چمنی سے خارج ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پکڑ کر ٹھوس میں تبدیل کر دے گا اس کو بعد میں عمارت کے تعمیراتی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ رنگ تبدیل کرنے والے اسمارٹ میٹیریل بعض مچھلیوں،رینگنے والے جانوروں اوربحری صدفیوں میں اپنا رنگ تبدیل کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت ہوتی ہے ، یہ اپنی جلد کے رنگ کو ماحول یا موسم کی مناسبت سے ہلکا یا تیز کر لیتے ہیں۔ ان جانوروں کی ان خصوصیات کو دیکھتے ہوئے برطا نیہ میں برسٹل یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ایسے اسمارٹ مواد تیار کیے ہیں جو کہ مچھلیوں اور رینگنے والے جانوروں کی طرح اپنا رنگ تبدیل کرسکتے ہیں۔اس میں نرم کھنچنے والے بجلی سے فعال پولی مر کا استعمال کیا گیا ہے (Dielectric elastomers)جس کے ذریعے مذکورہ جانوروں جیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ بجلی کا کرنٹ ملتے ہی یہ elastomericمواد پھیل جاتے ہیں اور رنگ کی تبدیلی کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ان کے رنگ (پگمنٹ) اور برقی کرنٹ میں تبدیلی کے ذریعے ان مواد سے تیار کردہ کپڑوں کا رنگ بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اسمارٹ کپڑے کیا آپ کاغذ یا کپڑے کے بنے ہوئے موبائل اور ٹیلی فون کا تصور کر سکتے ہیں ؟ اس جدید دورکی ایک دریافت نے اس کو ممکن بنا دیا ہے ۔امریکاکی نارتھ کیرولینا یونیورسٹی سائنس دانوں نے کاغذاور کپڑے پرموصل نینو غلاف (Conductive Nanocoating) چڑھاناممکن بنا دیا ہے ۔یہ غلاف انسانی بال سے ہزارگنازیادہ باریک ہے اوریہ اسی نامیاتی مواد سے بنائے گئے ہیں، جس سے الیکٹرون سنسرز اور شمسی سیل بنائے جاتے ہیں ۔ ان کو کاغذ، سوتی کپڑے یا Non Woven Polypropyleneمواد پر چڑھایا جاسکتا ہے ۔ یہ ابلاغ کرنے والے لباس اور اسمارٹ فیبرک کی دنیا میں پہلا قدم ہے ،جس کے بعد مزید پیش رفت کی توقع ہے ۔ کاربن کی انتہائی سخت شکل دریافت کاربن سے ہم سب ہی واقف ہیں۔ اس کی سب سے عام شکل کوئلہ ہے اس کے ساتھ ہی گریفائٹ بھی جانا پہچانا نام ہے ۔2004ء میں کاربن کی ایک اور شکل دریافت ہوئی ہے ،جس کو گریفین کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ کاربن کی دو سطحی تہہ ہے جس نے برقی سامان بنانے کی صنعت میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے اور اب لچکدار Touch Display، ہلکے جہاز، سستی بیٹریاں ، اور چھوٹے اور تیز رفتاری سے کام انجام دینے والے برقی سامان تیار کیے جاسکیں گے۔سائنس دان اب کاربن کی انتہائی سخت شکل تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو شدید ترین دباؤ کو برداشت کرلے گی۔سپر ہارڈ کاربن اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے تیار کیا تھا۔ انہوں نے glassy carbon پر انتہائی بلند دباؤ کا اطلاق کیا ۔ کاربن کی یہ نئی شکل Amorphous یہ بے ہیئت ہے( ہیرے کے مقابلے میں جو کہ شفاف ہوتا ہے)۔ ہیرے کی طاقت کا دارومدار اس رخ پر ہوتا ہے، جس پر کرسٹل growکرتا ہے۔ اس نئی کاربن کو ہیرے پر فوقیت ہوگی ،کیوں کہ یہ ہر لحاظ سے طاقت ور ہے ۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں