Thursday / Oct 03 2019
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد ہی سے معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے اس لئے کہ ایک مضبوط معیشت کے قیام کے لئے کئی اہم اقدامات کئے گئے ہیں۔ جناب عمران خان کی پُر بصیرت حکمتِ عملی کے نتیجے میں ملکی سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت کے قیام کیلئے ایک قومی ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے جس کے صدر عمران خان صاحب ہونگے جبکہ مجھے اس ٹاسک فورس کا نائب چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے اراکین میں وفاقی وزراء برائے خزانہ، منصوبہ بندی، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، آئی ٹی/ ٹیلی کام اور بہت سے اہم سیکرٹری، ممتاز ماہرین تعلیم، مشیر، صنعت اور نجی شعبے کے نمائندے شامل ہیں۔ ٹاسک فورس کا پہلا اجلاس 29جنوری 2019کو منعقد کیا گیا۔ تقریباً چار ماہ کی مدت کے دوران 200ارب روپے سے زائد کے منصوبے مختلف وزارتوں کی جانب سے منظوری کے لئے جمع کرائے گئے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت عملی طور پر کچھ کرنا چاہتی ہے اور تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کیلئے بھاری فنڈز فراہم کرنے کو تیار ہے۔ ٹاسک فورس کی جانب سے شروع کیا گیا پہلا منصوبہ قومی ٹیکس میں اضافہ کرنا تھا۔ اس کیلئے نادرا کے ساتھ ایف بی آر کے ڈیٹا بیس کو منسلک کرنا ضروری تھا۔ میں نے پہلی کوشش 2001میں کی تھی جب میں وفاقی وزیر برائے آئی ٹی اور ٹیلی کام تھا اور ٹیکس نا دہندگان اور کم ٹیکس دہندگان کی شناخت کیلئے اس وقت کے نادرا کے چیئرمین کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ تمام اخراجات جیسے جائیداد، موٹر گاڑیاں، ہوائی جہاز کا ٹکٹ، اسکول کی فیس، اسپتال کے اخراجات وغیرہ سب کو قومی شناختی کارڈ سے منسلک کر دینا چاہئے لیکن چونکہ مجھے اسی دوران ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی چیئرمین کے طور پر مقرر کر دیا گیا تھا لہٰذا بدقسمتی سے یہ کام اس وقت مکمل نہیں ہو سکا۔ اس منصوبے کو دوبارہ ہماری علمی معیشت ٹاسک فورس کے ایک معروف ساتھی کے تعاون سے دوبارہ شروع کیا گیا ہے۔ اس طرح ایف بی آر کا ڈیٹا نادرا کو فراہم کر دیا گیا ہے اور ٹیکس نادہندگان اور کم ٹیکس دہندگان کی شناخت کیلئے پروگرام تیار کیا گیا ہے جس سے بڑی آسانی کے ساتھ بڑی تعداد میں ٹیکس نادہندگان اور کم ٹیکس دہندگان تک رسائی حاصل ہو گئی ہے۔ ٹاسک فورس کے تحت پاکستان کے وسیع معدنی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لئے ایک دوسرے بڑے اہم منصوبے کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس کا ایک اہم پہلو جواہرات اور زیورات کا شعبہ ہے۔ اس شعبے کی عالمی مارکیٹ 292ارب ڈالر ہے اور اس میں 10.6فیصد کی شرح سے سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس شعبے کی 292ارب ڈالر کی عالمی منڈی میں سے، 120ارب ڈالر زیورات کا حصہ ہے۔ بہت سے دیگر شعبوں کی طرح اس شعبے میں بھی پاکستان کی برآمدات کافی تنزلی کا شکار رہی ہیں، 2012میں برآمدات 1.62ارب ڈالر تک پہنچنے کے بعد 2013میں 431ملین ڈالر، 2014میں 118ملین ڈالر اور 2015میں 8ملین ڈالر رہ گئیں۔ امید ہے کہ ٹاسک فورس کے کئے گئے نئے اقدامات کی بدولت، اہم سرمایہ کار اس منافع بخش میدان میں سرمایہ کاری کے لئے پاکستان کی طرف راغب ہو جائیں گے اور ہم اس شعبے میں ایک اہم بین الاقوامی کھلاڑی بن کر سامنے آئیں گے۔ اس ٹاسک فورس کاتیسرا اہم منصوبہ پاکستان میں مصنوعی ذہانت اور اس سے متعلق تکنیکی شعبہ جات میں اعلیٰ درجے کے تحقیقی و جدت طرازی کے بڑی تعداد میں مراکز کا قیام ہے۔ مصنوعی ذہانت اور وابستہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک دہائی کے اندر عالمی مارکیٹ تقریباً 15کھرب امریکی ڈالرز تک پہنچنے کی امید ہے۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے اس شعبے میں پاکستان کے لئے بہت اچھا موقع ہے کہ ایک قیادت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ کمپیوٹر سائنس میں ہر سال تقریباً پچیس ہزار گریجویٹس فارغ التحصیل ہوتے ہیں، ان میں سے 10فیصد کو بھی اس میدان میں ہم اعلیٰ درجے کے عالمی اداروں میں بھیج کر تربیت کروا دیں تو اس کے بڑے اچھے نتائج نکلیں گے۔ قومی سطح پر ایک میگا پروجیکٹ تیار کر لیا گیا ہے۔ اس منصوبے کی لاگت 162ارب روپے ہے جو آٹھ سال پر محیط ہے۔ اس کے تحت ایک لاکھ پیشہ ور افراد کو تربیت کے لئے ملک سے باہر بھیجا جائے گا۔ ایک اور اہم منصوبہ اسکول، کالج اور جامعات کی سطح پر بڑے پیمانے پر اوپن آن لائن کورس شروع کیا جا رہا ہے۔ اس میں ایم آئی ٹی، ہارورڈ، اسٹینفورڈ جیسی بڑی جامعات کے کورسز شامل ہیں جن سے تعلیمی معیار میں نمایاں بہتری آئے گی۔ یہ کورسز اب پاکستان میں ایک ویب سائٹ پر دستیاب ہیں (www.lej4learning.com.pk) اس سے طالب علم دنیا کے سب سے بہترین اساتذہ سے استفادہ کر سکیں گے۔ یہ طریقہ تیزی سے بہت سے ممالک میں اپنایا جا رہا ہے ۔جناب وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس کو جامعہ میں بدل دیا جائے گا۔ میری تجویز یہ تھی کہ یہ ایک پالیسی انسٹیٹیوٹ نہیں ہونی چاہئے بلکہ ایک بھرپور انجینئرنگ جامعہ ہونی چاہئے جہاں ابھرتی ہوئی اور نئی ٹیکنالوجیوں پر توجہ مرکوز کی جائے، یہ منصوبہ اب میری نگرانی میں ترقی کے منازل میں ہے۔ ابتدائی مرحلے میں اس جامعہ میں بعد از گریجویٹ کی سطح کے پانچ بڑے اعلیٰ کارکردگی کے مراکز قائم کئے جائیں گے۔ ان میں (1)مصنوعی ذہانت اور مشینی تربیت کا مرکز بشمول بگ ڈیٹا، سائبر سیکورٹی، انٹرنیٹ آف تھنگز، کوانٹم کمپیوٹنگ، ٹیلی ہیلتھ (2)صنعتی بائیو ٹیکنالوجی، اگلی نسل جینیات کا مرکز (3)مائیکرو الیکٹرونکس انجینئرنگ، میکاٹرونکس، انڈسٹریل ڈیزائن کا مرکز (4)ایڈوانسڈ مٹیرئیلز نینو ٹیکنالوجی کمپوزٹس(5) توانائی ذخیرہ اندوزی نظام، قابل تجدید توانائی۔ اس جامعہ کا مرکزی نام تکنیکی پارک ہوگا جہاں تعلیم اور صنعت یکجا ہو کر نئی مصنوعات تشکیل دیں گے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے کیے گئے یہ جرأتمندانہ اقدامات پاکستان کی مضبوط علمی معیشت میں منتقلی کے آغاز میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری سے ہی ہم ملک کو درپیش اقتصادی مسائل سے نبردآزما ہو سکتے ہیں۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں