Saturday / Feb 08 2020
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
میں موجودہ حکومت کی بصیرت انگیز پالیسیوں کے تحت ایک مضبوط علمی معیشت کے قیام کیلئے متعدد اقدامات کا ذکر گزشتہ کالموں میں کر چکا ہوں، جس برق رفتاری اور تندہی سے علمی معیشت کے قیام پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے اس سے یہ امید ہو چلی ہے کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح قائم رہا تو ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا۔ تارکین وطن اور اندرونِ ملک سرکاری و نجی اداروں سے تعلق رکھنے والے دانشور، سائنسدان اور محققین پر مشتمل جدید علوم اور چوتھے صنعتی انقلاب سے متعلق شعبوں میں ٹاسک فورسوں کا قیام اور ان ٹاسک فورسوں کے اقدامات پر عملدرآمد اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ اعلیٰ تحقیقی مراکز کی بین الاقوامی سطح پر توسیع جلد ہی اس ٹاسک فورس کی مالی اعانت سے ہو جائے گی۔ ان اقدامات کے دوررس نتائج ہماری اگلی نسل تک اثر انداز ہوں گے، بالکل اسی طرح جس طرح مہاتیر محمد نے ملائیشیا میں، جنرل پارک نے کوریا میں اور ڈِنگ نے چین میں کیا تھا۔ آج یہ تمام ممالک علمی معیشت کا گہوارا ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کیلئے اپنی تحقیق کا رخ اطلاقی منصوبوں کی جانب کریں تاکہ اعلیٰ درجہ کی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ کر سکیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انتہائی مربوط انداز میں حکومت کی مناسب پالیسیوں کے ذریعے بڑے محتاط انداز سے منتخب شعبوں میں عمدہ مراکز کی تشکیل اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعتوں کے قیام کیلئے صنعتوں کو مناسب مراعات کی پیشکش کی جائیں۔ سائنسی اداروں کو قابل عمل منصوبے شروع کیے جائیں جو برآمدات اور روزگار میں اضافے کا سبب بنیں گے اور قومی معیشت پر مثبت اثرانداز ہوں گے۔ نجی شعبوں کو اعلیٰ تکنیکی شعبے مثلاً برقیات، مرکب دھاتیں، معدنیات، اعلیٰ درجہ کا زراعت، انجینئرنگ کا سامان، انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق مصنوعات، بایو ٹیکنالوجی، توانائی ذخیرہ اندوزی نظام اور ایسے دیگر شعبوں میں صنعتیں قائم کی جائیں۔ حکومت کو اپنے محکموں کو واضح ہدایت جاری کرنے کی ضرورت ہے کہ غیر ملکی درآمد شدہ اشیا کے بجائے مقامی تیار شدہ مصنوعات کو ترجیح دیں۔ اس کا اطلاق سافٹ ویئر کے ساتھ ساتھ ہارڈ ویئر پر بھی لاگو ہونا چاہئے۔ ٹیکس وصولی نظام میں بھی کافی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ پروجیکٹس کی تکمیل اور دیگر اشیاء کی تیاری کیلئے، درآمدی مرحلے سے فروخت تک، مصنوعات کی تیاری کے ہر مرحلے پر خام مال اور دیگر اخراجات پر ٹیکس کی صفر درجہ بندی ہونا ضروری ہے۔ بینک قرض اور دیگر مراعات اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی صنعتوں کے لیے دستیاب ہونا چاہئیں۔ ٹیکس کی چھوٹ کی بحالی اور دیگر مراعات کی وجہ سے ڈیسک ٹاپس، لیپ ٹاپس، سرورز، ٹیبلٹس اور دیگر آلات کی تیاری شروع ہو سکتی ہے۔ ہزارہ، ہری پور میں پاکستان کی ٹیلیفون صنعت کی سہولتیں کئی دہائیوں سے غیر استعمال شدہ پڑی ہیں۔ یہ مقامی طور پر سیل فون تیار کرنے میں دلچسپی رکھنے والے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پیش کی جانی چاہئیں۔ ساتھ ہی ہمیں اسمگل شدہ سامان کی روانی کو روکنا چاہئے۔ تقریباً 60فیصد آئی ٹی کی مصنوعات ملک میں اسمگل کی جاتی ہیں جس سے قومی خزانے کو بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے، خفیہ آپریشن اور مثالی سزاؤں کے ذریعے اسمگلنگ کو روکنا چاہئے۔ اگر مندرجہ بالا اقدامات پر عمل درآمد کر لیا جائے تو مقامی صنعت میں توسیع ہوگی اور لاکھوں ملازمتوں کے مواقع بھی میّسر ہوں گے۔ ’’پاکستان میں تیار شدہ‘‘ برانڈ کو ہر ممکن طریقے سے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ کاروبار میں آسانی ایک اہم عنصر ہے جس کی بنیاد پر غیر ملکی سرمایہ کار فیصلہ کرتے ہیں کہ کس ملک میں سرمایہ کاری کی جائے۔ ورلڈ بینک کی درجہ بندی کے مطابق پاکستان کو 190معیشتوں میں سے 136واں درجہ حاصل ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی رکاوٹیں ہیں جنہیں فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں غیر ملکی حصص یافتگان کی ایکویٹی کی رجسٹریشن میں طویل تاخیر، پیچیدہ طریقہ کار اور غیر ملکی اداروں سے قرض کیلئے پری رجسٹریشن شامل ہیں۔ اس نے غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ ایک اور رکاوٹ ایکویٹی حصص کی رجسٹریشن ہے۔ ایک غیر ملکی سرمایہ کار کا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ناقابل یقین حد تک ناقص طریقہ کار اور کارکردگی کے بارے میں کہنا تھا:اگر کوئی غیر ملکی ادارہ کسی پاکستانی ادارے میں حصص کے حصول کیلئے امریکی ڈالر میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی اجازت ضروری ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اس بارے میں کہتا ہے کہ وہ حصص غیر ملکیوں کیلئے درج نہیں کرتے، وہ ایسا کیوں نہیں کر رہے، اس کی کوئی وجوہات بھی فراہم نہیں کرتے۔ اگر شیئر ہولڈنگ کو رجسٹر نہیں کیا جا سکتا تو غیر ملکی ادارہ کیوں اور کیسے پاکستان میں قائم ٹیکنالوجی کمپنی میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے؟ غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ غیر ملکی قرض کے حصول کے ضوابط ہیں، اس سے غیر ملکی قرض کی منتقلی بہت مشکل ہو گئی ہے۔ فنڈز کو بیرونِ ملک منتقل کرنے سے پہلے اس طرح کے تمام قرضوں کا اسٹیٹ بینک میں پہلے اندراج ہونا ضروری ہے۔ ان حالات میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہم کاروبار میں آسانی کی عالمی درجہ بندی میں اتنے کم درجے پر ہیں۔ درحقیقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اپنی ضابطے کی کارروائیوں میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ ایک اور شعبہ جس کی جانب حکومت کی توجہ ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ نئی اسٹارٹ اپ کمپنیوں کو سہولتیں فراہم کرنا، اس کے لئے ’’رسک کیپٹل‘‘ کی فراہمی کے ذریعے اسٹارٹ اپ کلچر قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس سو ملین نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے، ان کی تخلیقی صلاحیت کو اجاگر کرکے بھی ہم ترقی کر سکتے ہیں۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں