Monday / Mar 16 2020
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
چین دنیا کا وہ واحد بڑا ملک ہے جس نے گزشتہ چند ہی دہائیوں میں علمی معیشت کے قیام کیلئے بہترین حکمت عملی بنائی اور انتھک محنت اور مستقل مزاجی سے ملکی معیشت کو عالمی سپر طاقت کے مدمقابل لا کھڑا کیا۔ اس کامیابی اور تیز ترین ترقی کی وجہ وہ اقدامات ہیں جن پر چین نے عمل کیا جس کے نتیجے میں آج اس کی مثالی ترقی پر دنیا محو حیرت ہے۔ 24اکتوبر 2019ء کو چین کے صوبہ ہنان کے شہر چانگشا میں جامعہ ہنان برائے چینی طب میں ایک بہت ہی خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ ایک خوبصورت اور بڑے 6منزلہ تحقیقی ادارے کا نام میرے نام پر رکھا گیا۔ یہ پہلی عمارت ہے جس کا نام چین میں ایک مسلمان سائنسدان کے نام پر رکھا گیا ہے، جو واقعتاً میرے لیے انتہائی اعزاز کی بات ہے۔ اسے ’’ماہر تعلیم پروفیسر عطا الرحمٰن ون بیلٹ، ون روڈ روایتی چینی طب (ٹی سی ایم) تحقیقی ادارہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس تقریب میں ہمارے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی جناب فواد حسین چوہدری بھی مدعو تھے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز پیشرفت، بالخصوص گزشتہ تین دہائیوں میں، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ معیاری تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں سرمایہ کاری کرنے والی قومیں تیزی سے آگے بڑھتی ہیں اور عالمی معاشی رہنما بن سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ چین نے خام مال اور قدرتی وسائل کی برآمد کو بہت کم کر دیا ہے، اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی مشترکہ پیداوار اور برآمد کیلئے براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو اولین ترجیح دی ہے۔ 1978کے بعد سے چین نے جی ڈی پی میں واقعی قابلِ ذکر ریکارڈ قائم کیا ہے جو 8سے 11فیصد کے درمیان رہی ہے۔ جی ڈی پی میں یہ حیرت انگیز ترقی بیرونی ممالک سے جدید ٹیکنالوجی کے حصول اور اعلیٰ غیر ملکی جامعات میں افرادی قوت کی تربیت سے ممکن ہو سکی، ہر سال کم و بیش چھ لاکھ چینی طلبہ امریکہ اور یورپ اعلیٰ تعلیم کیلئے جاتے ہیں۔ نتیجتاً تقریباً پانچ لاکھ تربیت یافتہ طلبہ ہر سال چین واپس آتے ہیں، ان کی وجہ سے ہی چین متعدد جدید ٹیکنالوجی میں عالمی رہنما بن گیا ہے اور بہت اعلیٰ درجے کی جامعات کا قیام عمل میں لایا ہے۔ 1985ء میں چین میں سائنس اور ٹیکنالوجی مینجمنٹ سسٹم کی اصلاحات سے متعلق چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ اس کمیٹی کے قیام کا مقصد تحقیق و ترقی اور صنعتی سرگرمیوں کے درمیان فاصلے ختم کرکے ایک دوسرے سے منسلک کرنا تھا، خصوصاً تحقیقاتی اداروں کو اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی ترقی کیلئے بڑی مالی اعانت فراہم کرنا۔ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے سائنسدانوں اور انجینئروں کو فارغ وقت میں مشاورتی خدمات اور نجی کام کرنے کی ترغیب دی گئی۔ منسلک اداروں کو سہولتیں مثلاً آلات اور کیمیکلز وغیرہ استعمال کرنے پر انسٹیٹیوٹ کو اس کام سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حصہ دینے کا پابند کیا گیا۔ اس نقطہ نظر نے تحقیقی اداروں کو اپنے تجارتی بنیادوں پر تحقیقی منصوبے، تنہا یا مقامی صنعت کے ساتھ شراکت میں قائم کرنے کی ترغیب دی تاکہ تحقیق اور صنعت کے مابین روابط کو مضبوط کیا جا سکے۔ لہٰذا چینی اکیڈمی آف سائنسز نے ایک سرکاری ادارہ ہوتے ہوئے بھی 1990کی دہائی میں تحقیقی کاروباری اداروں کی ایک بڑی تعداد قائم کی۔ 1999میں ریاست چین کی کونسل نے ایک اور تاریخی فیصلہ کیا جو اعلیٰ تکنیکی صنعتوں کی ترقی کی حوصلہ افزائی کیلئے اقدامات کا ایک سلسلہ تھا۔ ان میں آر اینڈ ڈی میں سرمایہ کاری کرنے والے نجی کاروباری اداروں کو ٹیکس وقفے، نئی ٹیکنالوجی کی منتقلی یا ترقی سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی پر ٹیکس چھوٹ، چین میں تیار کردہ سافٹ ویئرز مصنوعات کی ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی شرح کم کرکے 6فیصد تک لانا، اعلیٰ تکنیکی برآمدات کیلئے مکمل VATچھوٹ اور اضافی قرضوں کی سہولت، شنگھائی اور شینزین اسٹاک ایکسچینج میں نئی اعلیٰ تکنیکی کمپنیوں کی فہرست میں شمولیت وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ چین میں ٹیکنالوجی کی صنعتوں کی نشو و نما کرنے پر زیادہ تر انحصار اعلیٰ و معیاری تحقیقی افرادی قوت پیدا کرنے پر تھا۔ اسی لیے چین کیلئے اعلی تکنیکی سامان کی تیاری اور برآمد میں راہیں بنانا ممکن ہوا۔ یہ ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن ہر سال دس ہزار طلبہ کو پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی سطح کی تربیت کیلئے بیرونِ ملک اعلیٰ درجے کی جامعات میں بھیجے تاکہ ہم ایک دہائی کے اندر ایک لاکھ تربیت یافتہ پی ایچ ڈی کے ہدف تک پہنچ سکیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تعداد اب صرف 300سالانہ رہ گئی ہے جبکہ جامعات کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔ اس سے تعلیمی معیار بہت تیزی سے گرا ہے۔ ہمارے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں اس وقت پندرہ لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں اور ساٹھ ہزا ضافی پی ایچ ڈی کی مزید ضرورت ہے، 2002تا 2008کے دوران ہم نے لبرل ریسرچ فنڈز (غیر ملکی وظائف) کے ذریعے ہونہار طلبہ (ہر طالبعلم کیلئے ایک لاکھ ڈالر تک مختص کیے تھے) بیرونِ ملک بھیجے جن میں وطن واپسی کا تناسب 97فیصد سے زائد تھا۔ علمی معیشت میں حقیقی انقلاب کیلئے مناسب اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی دستیابی ضروری ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں معیاری اساتذہ کی فراہمی پر توجہ دیے بغیر ذیلی معیاری جامعات کی کشمکش نے تیسرے درجے کی جامعات کو جنم دیا ہے، جنہیں کالج بھی نہیں کہا جا سکتا۔ موجودہ حکومت کیلئے ایک بہترین مشورہ ہے کہ کم از کم 20ارب روپے سالانہ اضافی طور پر ایچ ای سی کو مختص کرے تاکہ اسی طرز کا اہم غیر ملکی اسکالرشپ پروگرام دوبارہ شروع کیا جا سکے جیسا میں نے 2002تا 2008کے دوران بطور چیئرمین ایچ ای سی شروع کیا تھا۔ پاکستان کی ترقی کا واحد راستہ تعلیم، تعلیم اور صرف تعلیم ہے۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں