مصنوعی ذہانت ،ایک دودھاری تلوار

Sunday / Oct 01 2017

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

مصنوعی ذہانت کے میدان میں ہونے والی ترقی حقیقت میں ذہن کو چکرا دینے والی پیش رفت ہے۔ ڈاکٹر رے کروزویل(Dr. Ray Croswell)جو کہ مستقبل کی پیش گوئی کے حوالے سے ایک معتبر نام ہیں، کا کہنا ہے کہ2045ءتک ہم(state of singularity)تک پہنچ جائیں گےجب مشینیں عقل اورجدت طرازی میں انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائیں گی۔ اب انسانی تاریخ کا ایک اہم موڑ آگیاہے۔ کروزویل کی ماضی کی پیش گوئیاں86 فی صد درست ثابت ہوئی ہیں۔کروزویل کے مطابق یہ عمل شروع ہوچکا ہے اور مصنوعی ذہانت ہمارے دماغ کو الیکٹرانک سرکٹ سےمنسلک کردے گی جو جسمانی خلیوں کے مقابلے میں بہت بہترہونگے۔ 2030ءکی دہائی تک ہم انسانی دماغ اور شعور کو الیکٹرونک میڈیم سے نقل کرنے کےبھی قابل ہوجائیں گے۔ ایک مکمل عمیق تخلیق (Virtual Reality) کے بعد عام دفاترکی بھی ضرورت نہیں پڑے گی اورلوگ دفتر نہیں جائیں گےبلکہ گھربیٹھےتصور میںآفس میں محسوس( telecommunicate)کریں گے یعنی سر پرایک آلہ نصب کرلیں گے جسں سےآفس کاماحول پیدا ہو جائےگااورہزاروں میل دور سے لوگ ایک میز کے اطراف بیٹھ کرگفتگوکرسکیں گے۔یہ ایک تصوری آفس ہوگا۔اس کےنتیجے میں دنیا سے شہروں کا پھیلاؤ ختم ہوجائےگاکیونکہ لوگوں کو ملازمت کے لئے دوسرے شہروںمیں جانےکی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کیمبرج سے تعلق رکھنے والے ماہر طبیعات اسٹیفں ہا کنگ کے مطابق ’مصنوعی ذہانت کی ترقی انسانی نسل کے خاتمے کا سبب بنے گی اور یہ زیادہ ذہین، ارتقاء پذیرمشینوں سے تبدیل ہو جائے گی۔اس ارتقا میں یہ اہم سوال ہے کہ کیا مشینیں ازخود کچھ سیکھ سکتی ہیں اور اپنی ذہانت اور فہم میں اضافہ کرسکتی ہیں؟ یہ بھی مصنوعی ذہانت کی ایک شاخ سے منسلک ہے جس کو (learningunsupervised)کہا جاتا ہے اور اب یہ میدان تیزی سے وسعت پذیر ہے۔ AIکی زیادہ تر کمپنیوں میں الگورتھم پر انحصار کیا جاتا ہے جو کہ مشینوںکو انسانوں کے ذریعے ہی سکھایا جاتا ہے کہ کسی چیز کا ادراک کس طرح حاصل کیا جائے اور جو کچھ وہ سیکھ رہے ہیں ان کو کس طرح پیش کیا جائے۔یہ ایک سست اور تھکا دینے والا عمل ہے اور اس میں انسانی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم اسرائیل کی ایک کمپنی کورٹیکانے حال ہیں میں ایک نظام تیار کیا ہے جس کی مدد سے مشینیں بغیر کسی انسانی رہنمائی کے سیکھنے،درجہ بندی کرنےاور چیزوں کی نمائندگی کرنے کے قابل ہو رہی ہیں۔اسرائیل جدت طرازی میں دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل ہو گیاہے، اور اب امریکہ اور چین کے بعد نیو یارک اسٹاک ایکسچینج کی فہرست میں اسرائیلی کمپنیاں سرفہرست ہیں اور ان کی تعدا دمیں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ان کمپنیوں میں سے پچیس فی صدTechion(اسرائیلی انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی) کے اساتذہ اور طلباکے قائم کردہ ادارے ہیں۔ اپنے ارد گرد کی چیزوں کو دیکھنے، پہچاننے اور ان کو ماضی کی معلومات سے جوڑنے کی صلاحیت کا عمل (جو کہ سیکنڈ کے ایک چھوٹےسے حصے میں وقوع پذیر ہوتا ہے) میں وسیع پروسسنگ شامل ہوتی ہے۔ ہم اپنی آنکھوں کے پپوٹوں کو جتنی دفعہ حرکت دیتے ہیں ہماری آنکھ کے پیچھے موجود(receptors)حرکت میں آتے ہیں۔ بصری شبیہہ برقی سگنل میں تبدیل ہوتاہے اور پھر یہ سگنل ہمارے دماغ کے پچھلے حصے کو منتقل کئےجاتے ہیں جہاں یہ اس شے کی جسامت، شکل، گہرائی، اور رنگ کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ ہمارے سامنے آنے والی ہر شے کا اسی طریقے سے موازنہ کرتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ہم چیزوں کو دیکھنے اورسمجھنےکے قابل ہوتے ہیں اور ان کے افعال کا تعین کرتے ہیں۔یہ عمل ایک سیکنڈ میں کئی دفعہ ہوتا ہے جب ہم ادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہیں۔ ذہن کو حیران کردینے والا یہ عمل اب مشینوں میں مصنوعی طور پر تیار کیا جا رہا ہے، جو کہ آنے والے کل میں روبوٹس کی تیاری کے حوالے سے ایک بڑا قدم ہوگا۔ اپنی ان کوششوں میں کورٹیکا (Cortica)تنہا نہیں ہے۔ بے شمار دوسری کمپنیاں ایسی مشینیں تیار کرنے کی کوشش کررہی ہیں جو کہ انسانی آنکھ کی طرح چیزوں کو دیکھ کر انہیں شناخت کرسکیں۔یہ ایجاد کئی جگہ اطلاق ہوتی ہے جس میں سیکورٹی کیمرے، خود کار مشینیں، سیٹلائٹ سےتصاویر، طبی تشخیص، عسکری روبوٹ اور خودکار صنعتیں شامل ہیں۔جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ مصنوعی ذہانت انتہائی تیز رفتاری سے بڑھتا ہوا میدان علم ہے، توقع کی جارہی ہے کہ آنے والی چند دہائیوں میں یہ پڑھنے، لکھنے اور جذبات کے اظہار کی صلاحیت کے حصول کے بعد انسانی ذہانت کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ماہرین اس بات پریشان ہیں کہ جلد ہی یہ صورت حال ہو جائےگی کہ انسانوں اور روبوٹ میں فرق کرنامشکل ہوجائے گا اورپھر ڈریہی ہے کہ روبوٹ انسا نیت کوتباہ نہ کردیں انسٹی ٹیوٹ آف ایتھکس اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیزکےڈائرکٹر جیمز حیوز (James Hughes)کے مطابق انسانوں کی اہم ترین خوبیاں باشعور ہوناا ور خود شناسی ہے۔جتنا جلد مشین یہ صلاحیت حاصل کرلے گی وہ فردکا مقام حاصل کرلے گی۔ہم شعورکی تعریف کیسے کریں گے؟ یہ آج کل اس میدان کے ماہرین کے درمیان گفتگو کا اہم موضوع ہے ہم ایک ایسی مخلوق کے ساتھ کس طرح کا سلوک کریں گے جو کہ ایک بالکل مختلف مادے سے بنی ہے لیکن کئی حوالوں سے ہماری جیسی ہے اور وہ ہمارے معاشرے میں کس طرح شامل ہوگی؟ یہ اس وقت کے اہم سوالات ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے بہت سے استعمال سامنے آچکے ہیں۔ گوگل نے حال ہی میں ایک ملازمت دلانے کی تلاش کا طریقہ متعارف کرایا ہے جو AIپر تیار کیا گیا ہے۔یہ کسی فرد کو مختلف ویب سائٹ پر جائے بغیر اس کی ترجیح کے مطابق ملازمت کی تلاش میں معاونت فراہم کرے گا۔یہاں تک کہ اس میں کسی ایپ(App) کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔اس میں متعلقہ فرد کو صرف’’ job near to me‘‘یا ’’writing jobs’’یا’’ teaching jobs‘‘وغیرہ ٹائپ کرنا ہوگا۔اس کے نتیجے میں نئی نوکریوں کا widget نمودار ہوگاجس کے ساتھ بے شمار نوکریاں جومختلف جگہوں پرموجودہیں جن میںفیس بک، لنکڈان، شامل ہیں ظاہر ہوجائیں گے۔ AIکا ایک اور اہم اطلاق بڑے اداروں کو ہیکرزسے محفوظ کرنا بھی ہے ایک اور میدان جس میں اس ٹیکنالوجی کا اطلاق ممکن ہے وہ نیورو سائنس ہے، نیورو سائنس اس وقت تیزی سے ترقی کرتا ہوا میدان ہے۔ڈاکٹر واٹسن کے مطابق ’’دماغ، حیاتیاتی سرحدوں کا آخری بڑاچیلنج ہے، یہ ہماری کائنات میں اب تک دریافت ہونے والی اشیا میں سب سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ہمارادماغ سینکڑوں ارب خلیات پر مشتمل ہے جو کہ کھربوں جوڑوںے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ دماغ کا مطالعہ ذہن کو چکرا دیتا ہے۔ یہ میدان مجھے بہت متاثر کرتا ہےکیونکہ سوچیں abstractنہیں ہوتیں بلکہ یہ مادی ہوتی ہیں۔یہ ایٹم اور مالیکیلولز پر مشتمل ہیں اور ہم نے یہ تصور کیا ہے کہ یادداشتیں خاص پیٹرن پر بنتی ہیں جو کہ تیز رفتار عمل ہے جس کو ’ہائیڈروجن بانڈنگ‘ کہا جاتا ہے کے ذریعے تشکیل پاتی ہیں۔ جب آپ چائے کا کپ اٹھانے کے لے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں تودماغ سے نکلنے والا حکم دوسری منتشر سوچوں سے مختلف انداز میں کام کرتا ہے اور تیزی سے یہ شناخت کرتا ہے کہ آپ نے کیا حکم دیا ہے۔اب ایسی ٹوپیاں ایجاد ہوگئی ہیں جس میں برقی آلے لگےہوتےہیں جوان خیالی احکامات کو باآسانی پہچان سکتے ہیں۔اس قسم کی برقی ٹوپیاں اب تجارتی پیمانے پر بازار میں موجود ہیں اور ان کومکمل معذور افراد استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ معذور افراد ایسی وہیل چیئر جس میں ایک کمپیوٹراورموٹرلگی ہو اُس کو صرف خیالی احکامات سے چلاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ انتہائی بھیڑ والی سڑک پر آرام سے اپنی کار خیالی احکامات کے کنٹرول کے ذریعےچلا سکتے ہیں اب ایسےآلات تیار بھی کئے جارہے ہیں جو آپ کے دماغ سے منسلک ہوں گی اور یہ نہ صرف آپ کے سوچنے کی صلاحیت میں اضافہ کردیں گے بلکہ آپ کےدماغ میں لاکھوں کتابوں کی معلومات فراہم کر دیں گے۔ اس طرح مزید صلاحیتوں کی حامل ایک نئی انسانی نوع وجود میں آئے گی۔پاکستان اس ابھرتےہوئے میدان میں بہت پیچھےرہ گیا ہے اور یہ ہمارے دفاع کے لئے بہت بڑاخطرہ ہے کیونکہ آنے والے وقت میں جنگیں انسانوں کے ذریعے نہیں بلکہ کمپیوٹر اور ربوٹ کے ذریعہ لڑی جائیں گی۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں