نیو نارمل اور قومی تعمیر نو

Monday / Aug 24 2020

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

کو وڈ -19 کی وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس کی وجہ سے دنیا کی مضبوط سے مضبوط معیشتیں بھی لرز کر رہ گئی ہیں اورصنعتیں تباہ ہو گئی ہیں ۔ ایسے میں پاکستان جیسے پسماندہ ملک کو جس کی معیشت پہلے ہی تباہی کے دہانے پر تھی ، ایک ایسی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے ، جو نہ صرف ہمیں اس نقصان سے باہر نکالے بلکہ ہما رے سماجی و معاشی مستقبل کو بھی محفوظ کر سکے۔ ان حالات میں سی پیک (CPEC) معاہدہ اس پوری صورتحال کی کایا پلٹنے میں نہایت کار گر ثابت ہوسکتا ہے بشرطیکہ ہمارے وزیر اعظم چینی صدر ژی جن پنگ کو اپنی کچھ بڑی صنعتوں مثلاً موٹرگاڑیوں،برقیات، دواسازی ، طیارہ سازی ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر صنعتوں کے لئے چینی صنعتوں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں پر عملدرآمد کے لئے آمادہ کریں۔چین کی تیز ترین ترقی اور تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی میں مستقل اور مثبت نشوونما ہمارے لئے مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ گزشتہ 3 دہائیوں میں چین کی برق رفتار ترقی ایک ایسی قیادت کی وجہ سے ہوئی ہےجس نے تعلیم ، سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کو مضبوط بنانے پر یک جہتی کے ساتھ توجہ مرکوز کی ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں ، جو دنیا کے معروف سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے،کے مطابق 2000سے 2017تک، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں تحقیق و ترقی کے اخراجات میں ہر سال اوسطاً ٪ 4.3 فیصد اضافہ ہوا، لیکن چین میں اسی عرصے کے دوران تحقیق و ترقی کے اخراجات میں ہر سال ٪ 17فیصدسے زیادہ اضافہ ہوا۔ 2019 کے ابتدائی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چین تحقیق اور ترقیاتی اخراجات میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کو بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے۔اس لئے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے مقابلے میں چین میں زندگی گزارنے کی لاگت بہت کم ہے ، لہٰذا ، چین پہلے ہی سائنسی تحقیق اور ترقی میں امریکہ سے کم از کم دگنا خرچ کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی رہنما چین کی حیرت انگیز پیشرفت کے بارے میں اس قدر فکر مند ہیں۔ چین نے 1988میں ٹارچ (TORCH) پروگرام شروع کیا تھا ، جس نےاعلی ٹیکنالوجی کا سامان تیار کرنے والی کمپنیوں کو بڑے پیمانے پر فنڈز مہیا کئے تھے اور سرکاری اداروں میں کام کرنے والے سائنسدانوں کو سرکاری فنڈ سے کاروبار شروع کرنے کی ترغیب دی تھی۔ پاکستان میں ہمارے تنگ نظر رہنماؤں نے اس کے برعکس کیا ہے، انہوں نے سرکاری جامعات یا تحقیقی اداروں میں کام کرنے والے سائنسدانوں اور انجینئروں کو اپنا کاروبار شروع کرنے سے منع کیا ۔ اس پالیسی کو فوراً بدلنا ہوگا۔ چین کی اسٹیٹ کونسل نے 1999ءمیں ایک اور تاریخی ’’فیصلہ‘‘ کیا تھا جس میں اعلیٰ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں صنعتی تیاری کو فروغ دینے کے لئے متعدد اقدامات کئے گئے تھے۔ کاش ہمارے رہنماؤں میں بھی ایک مضبوط علمی معیشت کے قیام کے لئے موءثر فیصلے کرنے کی مناسب سمجھ بوجھ ہو ۔ گزشتہ 30 سالوں کے دوران چین کی اوسط جی ڈی پی میں حیرت انگیز اور شرح پیداوار میں 8-10 فیصد اضافہ ہوا ہے یہ ترقی جدید ٹیکنالوجیوں کو اپنانے اور اعلیٰ غیر ملکی جامعات میں افرادی قوت کی تربیت کے ذریعہ حاصل ہوئی۔ چین میںتحقیق و ترقی کی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے چین میں جدت طرازی اور سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لئے فنڈز قائم کیے گئے۔ 1978 میں 6.3 ارب یوآن سے شروع ہو کر ، 2004 میں بتدریج بڑھ کر 124.4 ارب یوآن اور 2018 میں 200 ارب یوآن تک مختص کئے گئے تھے۔لہذا اسی طرح کی سرکاری مراعات کے ذریعے ، چینی حکومت کی تحقیق و ترقی کی پالیسی نے مقامی جدت طرازی کی صلاحیت کو پروان چڑھایا۔ اس کے نتیجے میں ایک مرکزی انٹرپرائز ٹیکنالوجی ،جدت طرازی کا نظام قائم ہوا جس نے چین میں اعلیٰ ٹیکنالوجی سے متعلق صنعتوں کو مضبوط کیا، اور اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ ہوا ۔ اسی طرح کوریا حکومت کی نے ایک مشہور برانڈ کے موبائل فون جیسی ٹیلی کام کمپنیوں کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان میں موبائل ٹیکنالوجی کی ابتدائی نشوونما (1980 اور 1996 کے درمیان) ، سی ڈی ایم اے کا قیام ، انٹرنیٹ پلیٹ فارم برائے انٹرآپریبلٹی کی ترقی (2001تا2007) اور آئی فون کی ترقی (2007تا 2009 کے درمیان) شامل ہیں۔ جس کے بعد مقامی طور پر بنائے گئے اسمارٹ فونز کا تعارف ہوا۔ اس میں پاکستان کے لئے ایک سبق ہے جہاں نجی کمپنیوں کی نشوونما اور ترقی کے لئے حکومتی مدد کو بدعنوانی سمجھا جاتا ہے اس روش کو بدلنا چاہئے۔ملک کی اولین ترجیح تعلیم ، سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی ہونی چاہئے جو اعلیٰ ٹیکنالوجی کے سامان کی تیاری اور برآمدات کا سبب بنے۔ اسی میں ہمارا مستقبل مضمر ہے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں