ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان کی تعمیر نو

Friday / Nov 27 2020

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کووڈ 19 کی وبا نہ صرف پوری دنیا پر سماجی طور پر اثر انداز ہوئی ہے بلکہ معاشی و اقتصادی طور پر بھی اِس نے بالواسطہ اور بلاواسطہ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک تک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔ اِس صورتحال میں انتہائی توجہ طلب معاملہ یہ ہے کہ ہم جیسا ترقی پذیر ملک جو پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اُسے اِس منجھدھار سے باہر نکالنے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ یہی وقت ہے کہ ہم اپنی روایتی اور فرسودہ حکمتِ عملی چھوڑ کر جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگی اختیار کریں اور غربت اور لاعلمی سے چھٹکارا حاصل کریں۔ سنگاپور، کوریا، چین اور ویتنام جیسے ممالک کے نقشِ قدم پر چلنے کی کو شش کریں۔ یعنی کہ ہم اعلیٰ ٹیکنالوجی کے سامان کی تیاری اور برآمدات پر توجہ دیں کیونکہ اِسی میں اقتصادی ترقی پنہاں ہے۔ ہم نے ماضی میں علمی معیشت کو بہت کم اہمیت دی، اِس سلسلے میں پالیسیوں، قوانین اور بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی پر بھی بہت کم کام کیا اور اِن پر مکمل طور پر عملدرآمد بھی نہیں ہو سکا۔ ٹیکس کا نظام بھی انتہائی نا ہموار ہے، اِس کا اندازہ اِس سے لگا لیں کہ تیار شدہ مصنوعات پر ڈیوٹی کم یا نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اُن ہی مصنوعات کے خام مال پر ڈیوٹی اور دوسرے ٹیکس زیادہ ہیں۔ اِس کا پوری صنعت پر منفی اثر پڑا ہے۔ اگر ہم اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی تیاری میں اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اِس کے خام مال اور دیگر اشیاء کی خریداری سے لے کر تمام مراحل پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں کرنا چاہئے یعنی درآمدی مرحلے سے لے کر فروخت کے مرحلے تک ٹیکس صفر ہونا چاہئے۔ حکومت کی جانب سے ایک اور اہم قدم جو کارآمد ثابت ہو سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ حکومت خود خریدار بن کر مصنوعات کی مقامی تیاری میں تعاون کرے، ہمارے سامنے ہندوستان کی مثال ہے جہاں ہندوستانی حکومت نے ملک کے عوام و خواص کو صرف وہی گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی ہے جو مقامی طور پر مکمل طور پر تیار کی گئی ہیں۔ پچاس سال قبل ایمبیسیڈر کاروں سے یہ عمل شروع کیا گیا، یہاں تک کہ وزیراعظم اور وفاقی وزراء کو بھی صرف مقامی طور پر بنی ہوئی موٹر گاڑیوں کو ہی استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنے خریداری کے قواعد تبدیل کرنا چاہئے اور مقامی طور پر تیار کردہ مصنوعات کی خریداری کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ جب میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا وفاقی وزیر تھا، جس میں آئی ٹی/ ٹیلی کام ڈویژن بھی شامل تھے، میں نے مقامی تیاری کی حوصلہ افزائی کے لئے بہت سی پالیسیاں تبدیل کیں۔ نتیجتاً کچھ ہی برسوں میں، متعدد مقامی اسیمبلروں نے پاکستان میں پی سی (PC) کی مقامی تیاری شروع کر دی۔ اِس طرح پاکستان میں کمپیوٹروں کی اسمبلی، تیاری، جانچ، فراہمی، مرمت اور بحالی کا ماحول بن گیا جس کے نتیجے میں اس شعبے نے شاندار ترقی کی کیونکہ مقامی اسمبلروں نے جی ایس ٹی اور ڈیوٹی کی چھوٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دلجوئی سے کام کیا، مقامی اسمبلروں نے بھی آئی ٹی انڈسٹری میں اضا فے کا رجحان دیکھتے ہوئے آئی ٹی خدمات میں توسیع کرکے زیادہ منافع کمایا۔ لہٰذا مقامی اسمبلروں کی حوصلہ افزائی کے لئے اٹھائے گئے اِن اقدامات سے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہوئی۔ غیر ملکی سامان پر انحصار کم ہوا اور مقامی کاروباری افراد اور تکنیکی ماہرین کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے مگر صدافسوس 2005 میں بہت ساری ٹیکس چھوٹ پر پابندی عائد کردی گئی نتیجتاً بیشتر صنعتیں بند ہو گئیں۔ اس کے بعد سے آج تک پاکستان میں یہ صنعتیں بحال نہیں ہو سکیں۔ صنعتوں کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے ہمیں مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے (1) وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مقامی طور پر تیار یا اسمبلڈ شدہ مصنوعات کی خریداریوں کو واضح ترجیح دینی چاہئے۔ اِس نظام کو متعارف کرانے کے لئے مصنوعات کی جانچ کے عمل کو مضبوط و مربوط کرنے کی ضرورت ہے (2) اسمگلنگ کی روک تھام انتہائی ضروری ہے جو کہ ہمارے ملک میں بہت وسیع پیمانے پر سرکاری ایجنسیوں کی ماتحتی میں ہماری ناک کے نیچے کی جاتی ہے۔ کووڈ 19کی وبا کی بدولت عالمی سطح پر بند یا انتہائی کم آمدو رفت کی وجہ سے اسمگلنگ وقتی طور پر کچھ حد تک کم ہو گئی ہے اور اسمگلر دبئی کے راستے الیکٹرونک اور کمپیوٹر کا سامان نہیں لا پا رہے۔ تاہم یہ چند مہینوں میں دوبارہ شروع ہو جائیں گی اور حکومت پھر سے بھاری آمدنی سے محروم ہونا شروع ہو جائے گی۔ اس اسمگلنگ کو صرف ملک گیر ’’اسٹنگ آپریشنز‘‘ اور کسٹم قانون میں تبدیلی اور سخت سزاؤں کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔ (3) 5سال سے زیادہ پرانے تیارشدہ برقی آلات اسکریپ کے طور پر درآمد کئے جاتے ہیں، مقامی تیاری کو مسابقتی طور پر آگے بڑھانے کے لئے اس پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔ (4)درآمدی مرحلے پر جی ایس ٹی کا نفاذ ، مائیکرو پروسیسرزکے لئے پی سی ٹی کوڈز کا غلط استعمال، غلط تشخیص اور کسٹم پر قیمت کا غلط اندازہ لگانے کے نتیجے میں زیادہ اخراجات ہوتے ہیں۔ اس کو جلد درست کرنے کی ضرورت ہے۔ (5) ویتنام، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں تیار کی جانے والی بہت سی اشیاء مزدوری اور دیگر کم اخراجات کی وجہ سے ہماری مقامی صنعت کے لئے مقابلے کو مشکل بنا دیتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں، درآمد شدہ الیکٹرونک اشیاء کی قیمتیں مقامی اسمبلروں کی اشیاء کی قیمتوں سے زیادہ موزوں ہو تی ہیں۔ لہٰذا مقامی اسمبلروں کو فرسودہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے سودے میں گھاٹا ہوتا ہے بلکہ اسی وجہ سے بہت سے مقامی اسمبلر اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو گئے۔ لہٰذا مقامی اسمبلروں کی حوصلہ افزائی کے لئے فوری طور پر ہر طرح سے ریلیف اور چھوٹ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ مجموعی طور پر مقامی صنعت کاروں کو ٹیکس میں 15سال کی چھوٹ دینی چاہئے تاکہ وہ اپنے سرمائے کا استعمال بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ کر سکیں۔ اگر ہم پاکستان کی معیشت کو تیزی سے عا لمی مارکیٹ میں ترقی کرتا دیکھنا چاہتے تو اِسے جدت طرازی اور علم پر مبنی معیشت میں بدلنا ہوگا۔ مذکورہ بالاوہ اہم اقدامات ہیں جن پر وزارتِ تجارت، صنعت، خزانہ نیز ایف بی آر اور سرمایہ کاری بورڈ کو فوری طور پر عمل درآمد کرنا چاہئے۔ اسی میں ملکی ترقی پنہاں ہے اور یہ ہی وقت کا اہم تقاضا ہے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں