Monday / Feb 08 2021
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
بدعنوانی کی وجہ سے ملک کو غربت، امن و امان کی خراب صورتحال اور ناخواندگی جیسے بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ موجودہ دورمیں تعلیم کا اعلیٰ معیار سماجی و اقتصادی ترقی کا ضامن بن گیا ہے۔ قومیں اب صرف اینٹوں، بجری، سڑکوں، پلوں یا ڈیموں اور بجلی گھروں میں سرمایہ کاری کرنے سے نہیں بنتیں بلکہ اپنے نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے لئے استعمال کر نے سے بنتی ہیں۔ غرض ملکی ترقی کا زاویہ ہی یکسر تبدیل ہو گیا ہے لہٰذا علمی معیشت میں منتقلی کے لئے ہمیں مجموعی طور پر(1)نظامِ تعلیم (2)حکومتی پالیسیوں (3)نجی شعبوں کو بااختیار بنانے اور ان میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے، ان تینوں عناصر کا اپنی اپنی جگہ انتہائی اہم کردار ہے۔ (1)پہلا عنصر ہے تعلیم۔ تخلیقی ذہن کی بنیادیں اسکول کی سطح پر رکھی جاتی ہیں، لہٰذا ہمیں اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا ہوگا۔ ہمارے ملک میں تقریباً 23ملین بچے اسکول جاتے ہیں۔ ابتدائی و ثانوی تعلیم کا معیار نہایت ناقص ہے کہ اگر دیگر ممالک کے طلبا سے موازنہ کیا جائے تو 10سال کی عمر کے تقریباً نصف طلبا 6سالہ طلبا کے مساوی قابلیت رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ اسکولوں میں اچھے اساتذہ اور بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی ہے، دیہی علاقوں کے اکثر سرکاری پرائمری اسکولوں قابل و اہل اساتذہ کی کمی ہے، اسی طرح کالجوں کی حالت بھی بہتر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعات میں داخلہ لینے والے طلبا اعلیٰ سطح کی تعلیم کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ نظامِ تعلیم میں ان خرابیوں کی اہم وجہ پارلیمانی جمہوریت کا جاگیردارانہ نظام ہے جس نے تعلیم کو ہمیشہ سب سے کم ترجیح دی ہے۔ 19اپریل 2010کو آئینِ پاکستان میں منظور شدہ 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 25اے کے تحت 5تا 16سال کی عمر کے تمام بچوں کو بنیادی حقوق کے طور پر مفت اور لازمی تعلیم کی ضمانت دی گئی تھی۔ تاہم 10سال گزر گئے ہیں لیکن اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے، اِس کے علاوہ تعلیم کو 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کے ماتحت کرنے سے بھی بہت بڑا نقصان ہوا ہے جس کی وجہ سے مختلف معیار، نصاب اور امتحان لینے کے طریقہ کار کا نظام قائم ہوا۔ اس نظامِ تعلیم کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تمام طلبہ ایک ہی قومی نصاب پڑھیں اور ایک ہی امتحانی نظام میں شامل ہوں۔ ساتھ ہی کالجوں اور جامعات کو اعلیٰ شعبوں میں نوجوانوں کو مناسب طریقے سے ہنر مند اور اِس قابل بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ ہر شعبے میں مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جامعات اور تحقیقی مراکز کے ساتھ تکنیکی پارکس اور بزنس انکیوبیٹرز منسلک ہونے چاہئیں تاکہ صنعتوں اور محققین کو نئی مصنوعات تیار کرنے کے مواقع میسر ہوں۔ ان سہولتوں میں قانونی اور مالی خدمات کے ساتھ پیشہ ورانہ رہنمائی اور انتظامی مشاورت بھی شامل ہونی چاہئے۔ ملک میں تعلیم کی اس صورتحال کے پیش نظر تعلیمی ہنگامی صورتحال کا فوری طور پر اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ (2) پالیسی سازی کے تناظر میں حکومت کی رہنمائی لازمی طور پر ایک پُر بصیرت قیادت کے ذریعے ہونی چاہئے جو علمی معیشت کی اہمیت کو سمجھتی اور مناسب پالیسیوں کے نفاذ اور وسائل کے لئے مختص رقم کو ملکی ترقی کے لئے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس میں متعدد اقدامات ضروری ہیں جن میں محدود وقتی حکمت عملی اور عملی منصوبہ بندی کی تیاری، وینچر کیپیٹل اور طویل مدتی ٹیکس چھوٹ کے ذریعے اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعتوں کو فروغ دینے کی پالیسیاں مرتب کرنا اور تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لئے ضروری سرمایہ کاری کرنا شامل ہیں۔ علمی معیشت کے قیام کے لئے سب سے پہلا قدم ایک انتہائی منظم لائحہ عمل کی تیاری ہے۔ ایک ڈیلفی قسم کی ’’دور اندیشی مشق‘‘ کے ذریعے ایک واضح سنگ میل تیار کیا جائے اور متعلقہ ماہرین سرکاری محکموں، سب سے اہم یہ کہ نجی شعبے کے صلاح و مشورے سے ہر شعبے کا مکمل اور محتاط انداز میں تجزیہ کیا جائے۔ اس میں ملک کے افرادی اور قدرتی وسائل، ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں اور اس کے نتیجے میں مستقبل میں ترقی کے مواقع، اعلیٰ ٹیکنالوجی، اعلیٰ قسم کے سامان کی تیاری اور برآمدات کا جائزہ بھی شامل کیا جائے۔ 2004میں حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ اس طرح کی ایک ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتی بصیرت اور حکمت عملی برائے پاکستانی سماجی و معاشی ترقی میری قیادت میں عمل میں لائی جانی چاہئے۔ اس سے واضح قومی راستہ طے ہو سکے گا کہ کس طرح یہ ملک علم پر مبنی معیشت میں منتقل ہو سکتا ہے اور ہماری شہری اور دیہی آبادی کے بڑے شعبوں کو مشکلات سے نجات دلا سکتا ہے۔ (3) نجی شعبوں کو مضبوط علمی معیشت کی تعمیر کے لئے اہم کردار ادا کرنا چاہئے۔ ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ تر آر اینڈ ڈی (R&D) اخراجات نجی شعبے سے ہوتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں نجی شعبے کی طرف سے کی جانے والی سرمایہ کاری نہایت قلیل ہوتی ہے اور حکومت تحقیق کے شعبے کی مالی اعانت کرتی ہے۔ اس طرح کی مالی اعانت نئی صنعتی مصنوعات تیار کرنے، پیداواری صلاحیت یا مصنوعات کے معیار کو بہتر بنانے اور برآمدات کو فروغ دینے پر مرکوز نہیں ہوتی۔ اگر ہم نے ان تینوں پر عمل کر لیا تو ترقی کا راستہ بالکل صاف ہے۔ ہمیں فی الحال اسے عملی شکل دینے کے لئے سیاسی پارٹیوں کی رضامندی کی ضرورت ہے۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں