Monday / Mar 15 2021
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
ٹیکنالوجی کے طول و عرض میں بڑی تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے اور جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے طرح طرح کی دلچسپ ایجادات آنکھیں خیرہ کردیتی ہیں اور عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ مادّی سائنس یا میٹریل سائنس (Material Science) بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ ایسے مادّے تیار کرلئے گئے ہیں جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں انتہائی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔بلکہ یہ مادّےگزشتہ استعمال ہونے والے مادّوں کے بہترین نعم البدل ہیں ۔ شفاف المونیم… ٹھوس مادّے کے پار دیکھنا آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ طبیعیات کے پروفیسر Jastin Wark اور ان کے ساتھیوں نے ایک دلچسپ دریافت کی ہے۔ ان کے مطابق جب طاقت ور نرم ایکس رے لیز رکی المونیم پر بمباری کی جاتی ہے تو ہر ایٹم کا Core الیکٹران اپنی جگہ چھوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور المونیم مکمل طور پر شفاف ہو جاتی ہے۔ یہ دریافت انتہائی طاقت ور لیزر کے دھماکے کے ذریعے بونے سیاروں Maniature Stars کی تخلیق کے بارے میں روشنی ڈالے گی اور نیو کلیر فیوژن کی طاقت کو لگام دینے کے حوالے سے ہمارے فہم میں اضافہ کرے گی۔ اس ضمن میں ایک اہم کام امپریل کالج آف لندن اور Neuchatel(سوئزرلینڈ) کے سائنس داں نےکیا ہے ۔انہوںنے لیز رکو ٹھوس مواد سے گزارکر نینو فلمیں تیار کی ہیں اور جب لیزران نینو فلموں سے گزاری جاتی ہے تو نینو فلمیں شفاف ہو جاتی ہیں۔ یہ ایجاد ہمیں ٹھوس اشیاء کے پار دیکھنے کے قابل بنا دے گی۔ مثلا کسی تباہ شدہ عمارت کے ملبے میں پھنسے ہوئے لوگوں کو دیکھنا آسان ہو جائے گا اسی طرح طب کے میدان میں ایکس رے پر انحصار ختم ہو جائے گا۔ ذہین مادّے اور خود صحیح ہونے والے رنگ و روغن گزشتہ چندسالوں میں ذہین مادّوں Intelligent Material)) کی تیاری میں غیر معمولی پیش رفت نظر آئی ہے۔ جب برقی کرنٹ، مقناطیسی میدان یا حرارت کا استعمال کیا جاتا ہے تو یہ مادّے اپنی شکل تبدیل کر لیتے ہیں۔اس حوالے سے نئی بھرت (alloy) تیار کی جارہی ہے۔ جو کہ اپنی سابقہ شکل کو یاد رکھے گی اور کسی چوٹ یا ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں خود اپنی گزشتہ شکل میں واپس آجائے گی ۔ نکل سے پاک ٹیٹینئم بھرت (Ni Ti nol) اپنی شکل کو یاد رکھ سکتی ہے اور اس کو مقناطیسی فیلڈ کے ذریعے ضرورت کے مطابق شکل اختیار کروائی جاسکتی ہے۔ لوہے اور پلاڈئم کی بھرت میں بھی شکل تبدیل کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت موجودہوتی ہے۔ اس کی یہ خصوصیت اس میں اندرونی طور پر موجود نینو مشین کی وجہ سے ہے۔ کاربن نینو ٹیوب کے اندر اسٹیل کے مقابلے میں 600گنازیادہ طاقت پائی جاتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں خلائی جہاز اور ہوائی جہاز ان مواد سے تیار کیے جائیں گے۔ خود درست ہو جانے والے مواد میں طویل زنجیر والے مالیکیولز (Ionomers) ہوتے ہیں وہ گولی گزر جانے کے بعد بھی خود کو درست کر سکتے ہیں۔ وہ رنگ جن میں خراش کے بعد ٹھیک ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے، ان میں Chitosan کا استعمال کیا جاتا ہے۔ Chitosan دراصل Chitin سے نکالے جاتے ہیں جو کہ قشری جانوروں( کیکڑے ،جھینگاا ور مچھلی) کے خول سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ اس کے متبادل کے طور پر ان رنگوں میں چھوٹی چھوٹی مائع سے بھری ہوئی کیپسول استعمال کی جاتی ہے جو خراش کی صورت میں روغن خارج کر تی ہیں۔ لوہے سے زیادہ مضبوط کاغذ رائل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اسٹاک ہوم میں کام کرنے والے محققین نے ایک نینو کاغذ تیار کیا ہے جو لوہے سے بھی زیادہ مضبوط ہے اور اس سے گولی بھی نہیں گزر سکتی ۔یہ کاغذ مضبوطی سے بنے ہوئے نینو جسامت والے (موٹائی میں ایک ملی میٹر حصہ) سیلی لوز فائبر سے بنے ہیں۔اصل میں سیلی لوز کپاس اور لکڑی کا مرکزی جُز ہوتے ہیں۔ یہ بلٹ پروف کاغذ، خامروں (انزائم) کی مدد سے فائبر کو ہضم کرتے ہیںاور پھر ان فائبر کو بلینڈر میں پیس کر خاص نینو کاغذ کی شیٹ تیار کی جاتی ہے، جس میں سیلولوز فائبر ایک طاقتورجال میں اچھی طرح گندھے ہوئے ہیں۔ یہ مواد کیلوار( kelvar) سے بھی زیادہ مضبوط ہے جو کہ ریسنگ والے ٹائروں میں اسٹیل کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مصنوعی نرم ہڈی گھٹنوں کے جوڑوں کا درد عمر رسیدہ افراد کا ایک عام مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ جوڑوں کی شکست ریخت اور ٹوٹ پھوٹ ہے قدرتی نرم ہڈی جو ہڈیوں کے درمیان رگڑ کو کم کرتی ہے وقت کے ساتھ فرسودہ ہو جاتی ہے اور اس کو بدلنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ قدرتی نرم ہڈی کے متبادل کے لیے سائنس دان مسلسل کوشش کر رہے ہیں اور اس حوالے سے محدود کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔ اسرائیل کے Weizman Institute of Space میں کام کرنے والے Jacob Klein نے کم رگڑ والے جوڑ تیار کیے ہیں جو کہ پولی مر سے تیار کیے گئے ہیں اور ان کی اوپری سطح سالمی برش پر مشتمل ہے۔ یہ برش پانی کے مسالمات کو اپنی جانب راغب کرتے ہیں اور یہ سالمات جب ایک دوسرے کی سطح سے ٹکراتے ہیں تو پانی کے مالیکیول کوچکنا کرنے والے غلاف کی طرح کام کرتے ہیں۔ اس مواد (Material) میں قدرتی نرم ہڈیوں (Cartilage) سے مشابہ خصوصیات موجودہیں۔ فائر پروف گھر کسی علاقے میں آگ لگ جانے کی صورت میں اگر ہوا بھی چل رہی ہو تو آگ پورے محلے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور اس وجہ سے ہر سال بڑے پیمانے پر جانوں اور املاک کا ضیاء ہوتا ہے۔ گنجان آبادیوں اور جنگلوں کے قریب مکانات بالخصوص اس کی زد پر ہوتے ہیں ،کیوںکہ آگ کے شعلے دور دور تک سفر کر کے ایسے مکانات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ ان خطرات کے پیش نظر ایسے مکانات اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے ٹیکنالوجی تیار کی جارہی ہے جو مکانات کو آگ سے محفوظ رکھ سکیں۔ اس میں پورے گھر کو ڈھانکنے والا ایک غلاف تیار کیا گیا ہے، جس کو مکانات کی چھت پر رکھا جائے گا اور وہ ایک بٹن دبانے پر ایک منٹ کے اندر کھل کر پورے گھر کو ڈھانک لے گا (جس طرح کاروں کا ائیر بیگ ہوتا ہے) اس کے بعد دو بڑے پنکھے اپنا کام شروع کر دیں گے اور ٹینٹ کے اندرموجود لچکدار ٹیوب ہوا بھرنا شروع کر دیں گے اوراس کا ایک بیرونی ڈھانچہ تیار ہو جائے گا۔ جب ٹینٹ میں سے ہوا نکالی جائے گی توکپڑے کا غلاف کھل جائے گا اور گھر کی چھت اور کناروں کو ڈھانپ لے گا۔ اسٹیل سے زیادہ مضبوط شیشہ برکلے لیب اورکیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے (Caltech) کے سائنس دانوں نے ایک خاص شیشہ تیار کیا ہے جو اسٹیل سے زیادہ مضبوط ہے۔ یہ شیشہ ٹوٹنے کے بجائے مڑ جاتا ہے ،کیوںکہ اس میں اچھی خاصی لچک موجود ہے۔ اس میں یہ خصوصیت پلاڈئم کی تھوڑی سی مقدارملا کر پیدا کی گئی ہے۔ اس کے اندر ٹوٹنے سے مزاحمت کی قوت اس سے قبل تیار کیے گئے سخت ترین مواد سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس شیشے کا استعمال دفاعی اور صنعتی اشیاء کی تیاری میں ہونے کی توقع ہے۔ اگلا کمپیوٹر انقلاب … گریفین سے ہم نے گریفائٹ کے بارے میں سن رکھاہے۔ یہ کاربن کی ایک پرت ہوتی ہے جو کہ ایک دوسرے کے ساتھ شہد کے چھتے کی شکل میں گٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اس میں سے موٹے ایٹم کی ایک تہہ یا پرت کو اتار دے تو Graphene نای مواد حاصل ہوتا ہے، جس کے اندر شاندار خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اس مواد نے شاندار الیکٹران نقل پذیری کامظاہرہ کیا یہ الیکٹران بہت ہی تیز رفتار سے ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے حرکت کرتے ہیں۔ رائس یونیورسٹی ہیوسٹن ٹیکساس کے James Tour اور ان کے ساتھیوں نے ایٹم کی ان شیشوں پر نقش کاری کا طریقہ ایجاد کیا ہے۔ اس طرح اس مادّے کا ایک پرت پر مشتمل حصہ تار کا کام انجام دے سکتا ہے۔ اگر گریفین کے ایک حصے پراس انداز سے نقش کاری کا عمل کر دیا جائے کہ اس کی دو پرتیں حاصل ہو جائیں تو یہ نیم موصل کی طرح کام کرنے لگیں گی اور ان کو ٹرانسسٹر میں تبدیل کیا جا سکے گا۔نقش کاری کے طریقے پر جامع کنٹرول حاصل کرکے آنے والے دور کے انتہائی تیز رفتار Super fast کمپیوٹر بنائے جاسکیں گے۔ گرین ہاؤس گیسوں سے عمارتی سامان کی تیاری فوسل فیول یا معدنی تیل کے جلنے سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ بالخصوص صنعتی منصوبوں سے خارج ہونے والی گیسیں عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کے حوالے سے اہم خطرہ ہیں۔ ان منصوبوں پر اسکربر Scrubber (گیس کو خالص بنانے والے اوزار) کا استعمال کرکے کاربن ڈائی آکسائیڈکو نکال تو دیا جاتا ہے ،مگر اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مائع کو لازمی پروسیس کرنا پڑتا ہے، تا کہ اس میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ علیحدہ کی جا سکے، جس کو بعد میں دبا کر ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ طریقہ کار تھوڑا مہنگا ہے۔ اب امریکا کی مشی گن ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے طلبا نے ایک ایسا طریقہ کار تیار کیا ہے جو چمنی سے خارج ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پکڑ کر ٹھوس میں تبدیل کر دے گا ۔اس کو بعد میں عمارت کی تعمیرمیں استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ اس طریقہ کار کے ذریعے صنعت کاروں کو ایک Value Added ضمنی شے میسر آجائے گی، جس کو وہ فروخت کر کے اس عمل پر لگنے والی لاگت کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ رنگ تبدیل کرنے والے اسمارٹ میٹریل بعض مچھلیوں اوررینگنے والے جانوروں اوربحری صدفیوں میں اپنا رنگ تبدیل کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت ہوتی ہے ، یہ اپنی جلد کے رنگ کو ماحول یا موسم کی مناسبت سے ہلکا یا تیز کر لیتے ہیں۔ ان جانوروں کی خصوصیات کو دیکھتے ہوئے برطا نیہ میں برسٹل یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ایسے اسمارٹ مواد تیار کیے ہیں جو کہ مچھلیوں اور رینگنے والے جانوروں کی طرح اپنا رنگ تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس میں نرم کھنچنے والے بجلی سے فعال پولی مر کا استعمال کیا گیا ہے (Dielectric elastomers)جس کے ذریعے مذکورہ جانوروں جیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ بجلی کا کرنٹ ملتے ہی یہ elastomeric مواد پھیل جاتے ہیں اور رنگ کی تبدیلی کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ان کے رنگ (پگمنٹ) اور برقی کرنٹ میں تبدیلی کے ذریعے ان مواد سے تیار کردہ کپڑوں کا رنگ تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں