اعلیٰ تعلیم میں اصلاحات

Monday / Jul 19 2021

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ تعلیم دونوں کے معیار کا تعین کرنے والا واحد سب سے اہم عنصر فیکلٹی کا معیار ہوتاہے۔ اس وقت ہماری جامعات میں پی ایچ ڈی فیکلٹی ممبران تقریباً صرف 25 ٪فی صد ہیں ۔ واضح طور پر ایچ ای سی کو بیرون ملک اعلیٰ جامعات میں کم از کم ایک لاکھ روشن نوجوان مردوں اور خواتین کی تربیت پر توجہ دینی چاہئے تھی اور پھراپنی جامعات میں ملازمت کی پیش کش ، اچھی تنخواہوں ، تحقیقی گرانٹ اور لائبریریوں اور آلات تک رسائی کے ذریعہ انہیں واپس راغب کرنا چاہئے تھا۔ درحقیقت سابق چیئرمین نےبالکل برعکس کیا بغیر کسی اضافی فنڈنگ یا فیکلٹی کی دستیابی کے 3 سال کے اندر اندر تقریباً 40 نئی جامعات قائم کی گئیں ، اس کے نتیجے میں جامعات کا معیار لازمی طور پر زمین بوس ہی ہونا تھا۔اوّل تو بیرون ملک تربیت کے لئے طلبہ کی تعداد کو انتہائی کم کر دیا گیاپھر ان میں سے جو واپس آئے تو ان کے لئے کوئی ملازمت کا انتظام نہیں تھا وہ سڑکوں پر مارے مارے پھرے ، ان میں سے کچھ نے وزیر اعظم ہاؤس کے باہر احتجاج بھی کیا ۔ یہ سب 2002 سے 2008 میں میری ایچ ای سی کی سربراہی کے دوران ایچ ای سی کی پالیسیوں کے بالکل برعکس تھا ، اور میرے بعد آنے والے چیئرمینوں کی مستقل کاوشوں نے میری پالیسیوں کو جاری رکھا ۔ ان پالیسیوں کے پانچ اہم اجزاء تھے۔ پہلا یہ تھا کہ اگر ہم سب سے زیادہ روشن نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں اور تعلیم اور تحقیق میں دلچسپی لیتے ہیں تو ہمارے پاس لازمی طور پرکیریئر کے بہترین ڈھانچے ہونے چاہئیں۔ لہٰذا تقرری کے معاہدے کے نظام کی بنیاد پر تنخواہ کا ایک نیاڈھانچہ متعارف کرایا گیا تھا۔اس نظام کے تحت، ایک پروفیسر کی تنخواہ اتنی بڑھا دی گئی جو حکومت میں ایک وفاقی وزیر کی تنخواہ سے بھی چار گنا زیادہ تھی۔تاہم ، کمزور افراد کو اعلیٰ تنخواہوں کی ادائیگی ،قومی فنڈز کا ضیاع ہوتا۔ لہٰذا معاہدے3سال کے لئے تھے اس کے بعد معاہدے کی تجدید سے قبل بین الاقوامی ماہرین سے کارکردگی کی تشخیص کو لازمی کیاگیا ۔ دوم ، بیرون ممالک سے پی ایچ ڈی کی سطح پر تربیت حاصل کرنے والے طلبا وطن واپسی سے ایک سال قبل غیر ملکی پروفیسر کے ساتھ مل کر ایک لاکھ امریکی ڈالر تک کی تحقیقی گرانٹ کے لئے درخواست دے سکتے تھے ۔ اس سے انھیں کثیر فنڈز مہیا ہوتے تھے حتیٰ کہ اگر وہ کسی کمزور جامعہ ہی سےکیوں نہ اپنا تحقیقی سفر شروع کرتے۔ ان فنڈز کی فراہمی سے بڑی تعداد میں بین الاقوامی رابطے قائم کرنے کا فائدہ بھی ہوا ۔اس پالیسی کا تیسرا ستون ایک ڈیجیٹل لائبریری تک رسائی تھی جس میں 65ہزار کتابیں اور 25ہزاربین الاقوامی تحقیقی جرائد تھے۔ اس سے تدریسی اور تحقیقی مواد کی دستیابی میں بہت زیادہ سہولت ملی۔ چوتھا ستون یہ تھا کہ ملک میں کہیں بھی دستیاب نفیس سائنسی آلات تک محققین کو مفت رسائی حاصل تھی جس کے تجزیاتی چارجز کی ادائیگی ایچ ای سی کی ذمہ داری تھی ۔ پانچویں اور شاید سب سے اہم سہولت یہ تھی کہ پی ایچ ڈی تربیت حاصل کرکے یہ لوگ جب پاکستان واپس پہنچیں ، تو ان کو فوری طور پر ایچ ای سی اسکالر کے تحت اسسٹنٹ پروفیسر کی سطح پر، مناسب جامعہ میں بھرتی کیا جائے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں97فیصدطلبا جو 2003-2008 کے دوران بیرون ملک بھیجے گئے تھے واپس پاکستان واپس آئے اور مختلف جامعات میں بھرتی ہوگئے ۔ یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ ان پالیسیوں کے نتائج حیرت انگیز تھے۔ یکے بعد دیگرے ایچ ای سی کےمختلف سربراہان کی حمایت کے بعد ، تحقیق کے منظر نامے میں تیزی سے تبدیلی آنا شروع ہوگئی ۔ 2002 میں اعلیٰ معیار (’’امپیکٹ فیکٹر‘‘) کے جرائد میں ہماری صرف 700 بین الاقوامی تحقیقی اشاعتیں شامل تھیں جبکہ گاہے گاہے انہی پالیسیوں کے تحت تحقیق کی پیداوار بڑھ کر اب سالانہ 20ہزار بین الاقوامی اشاعتوں تک پہنچ چکی ہے ، جس نےفی کس کی بنیاد پر2017 میں بھارت کو پیچھے چھوڑدیا تھا۔ اب موجودہ دور میں ہمیں اطلاقی تحقیق پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے تاکہ جامعات میں موجود فیکلٹی ممبران صنعتی اور زرعی تحقیق میں کام کر سکیں اس طرح پاکستان میں علم پر مبنی معیشت میں منتقلی میں مدد کریں۔ڈاکٹر جاوید لغاری کی صدارت میں قائم کردہ ریسرچ اینڈ کمرشلائزیشن کے دفاتر کو دوبارہ فعال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جامعات صنعت کے ساتھ بامقصد تعاون کر سکیں۔ ہماری تحقیق کی ایک بہترین مثال ہمارے مرکز ’’ بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی سائنسز‘‘(ICCBS) میں عمدہ کام کیا جا رہا ہے ۔ یہ ادارہ جامعہ کراچی میں حسین ابراہیم جمال فاؤنڈیشن ، اور بعد میں ڈاکٹر پنجوانی ٹرسٹ، کی فراخدلانہ گرانٹس سے قائم ہواہے، اسی طرح کی شاندار گرانٹ جرمنی، جاپان ، برطانیہ اور امریکہ سے بھی حاصل کی گئیں تاکہ تحقیق کے کام کو فروغ دیا جا سکے ۔ کراچی یونیورسٹی میں ICCBS میں واقع حال ہی میں قائم جدید سندھ فارنزک اور سیرولوجی لیب قائم کی گئی ہے۔ یہ فارنزک لیبارٹری اور منسلکہ نیشنل وائیرولوجی سینٹر اور متعدد دوسرے ادارے قائم کیے گئے تھے جو حکومت سندھ کی فراخ دلی ، مدد اور وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کی بصیرت اور سرپرستی کے ذریعے ممکن ہوئے ۔ اس ریسرچ کمپلیکس کے اندر جمیل الرحمن سنٹر برائے جینومکس ریسرچ بھی واقع ہے ۔ یہ کورونا وائرس کی جینیاتی تبدیلیوں کا تجزیہ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے کیونکہ اس وائرس میں جنیاتی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اور دنیا کے لئے خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ COVID 19وبا کے دوران اِن مراکز نے قوم کے لئےاپنی خصوصی خدمات پیش کیں اور تقریباً ایک لاکھ پی سی آر کے ٹیسٹ کئے، جمیل الرحمن جینوم ریسرچ سینٹر کے سائنسدان وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں (Mutational) کی مسلسل نگرانی میں مشغول ہیں۔ ان مشکل وقتوں میں ، ہر 2 یا 3 ہفتوں میں اس مہلک وائرس کے نئے تغیر پذیر ہونے کے ساتھ ، ان تبدیلیوں کی نگرانی کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح برطانیہ ، جنوبی افریقہ ، برازیل اور حال ہی میں ہندوستانی ڈیلٹا کی مختلف حالتوں میں نشاندہی کی گئی۔ برسوں کی محنت کے بعد ، ہم ہری پور ہزارہ میں پاکستان آسٹریا یونیورسٹی کے قیام میں کامیاب ہوگئے۔ یہ پاکستان میں پہلی جامعہ ہے جس میں آسٹریا اور چین کی 8 شراکت دار غیر ملکی جامعات شامل ہیں۔خیبر پختونخواحکومت کی مالی اعانت سے چلنے والی ، یہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی ترقی کے فروغ میں اہم مقام کی نمائندگی کرتی ہے۔اس طرح کی ایک اور غیر ملکی جامعہ کا منصوبہ حال ہی میں میری زیر نگرانی سیالکوٹ میں منظور کیا گیا ہے جبکہ تیسری جامعہ کے قیام کا منصوبہ اسلام آباد میں بنایا جا رہاہے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں