Monday / Nov 29 2021
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
مجموعی طور پر تعلیم اور بالخصوص اعلیٰ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کےقیام کے پہلے عشرے میں ایک مضبوط علمی معیشتکی بنیاد رکھی گئی تھی ، لیکن مطلوبہ فنڈز کی کمی کے باعث یہ عمل پچھلی حکومتوں نے روک دیا تھا۔ افسوس ، ہم ماضی میں یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ مسلسل کوششوں کے باوجودہم معاشی بحرانوں پر قابو کیوں نہیں پا رہے۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اعلیٰ ٹیکنالوجی ستعمال کرکے ، اعلیٰ وقیمتی برآمدات کو بڑھائیں۔اس کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی ،صنعتی بائیوٹیکنالوجی ، نیا مواد، انجینئرنگ کاسامان ، دفاعی مصنوعات اور معدنیات جیسے شعبوں میں ہزاروں مواقع موجود ہیں، ان سے فائدہ اٹھانے کےلئے ہمیں اعلیٰ ٰترین تحقیقی مراکز قائم کرنا ہوں گے اور صنعت کے ساتھ روابط کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی ہمیں نئی اسٹارٹ اپ کمپنیوں کو فروغ دینے کے لئے وینچر کیپیٹل فنڈز تک آزادانہ رسائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ہماری بھرپور توجہ تعلیم کے معیار پر ہونی چاہئے۔ اعلیٰ تعلیمی معیار کا انحصارکئی عوامل پر منحصر ہے۔ ان میں سے پہلا اور اہم عنصر اعلیٰ معیار کے اساتذہ ہیں جو دنیا کی بہترین جامعات میں تعلیم حاصل کر چکے ہوں ۔ اس کا آغاز اس وقت کیا گیا جب اعلی تعلیم کمیشن (ایچ ای سی) (2003-2012) کے قیام کے پہلے عشرے کے دوران دنیا کی معروف جامعات میں تقریبا 11ہزارطلباء کو بیرون ملک بھیجا گیا۔ پی ایچ ڈی پروگراموں کے لئے منتخب طلباء کو تین سخت جانچوں اور امتحانوں سے گزرنا پڑتاتھا جن میں غیر ملکی پروفیسرز کے حتمی انٹرویو اور چناؤشامل تھے۔ اس عمل کے نتائج بہت عمدہ نکلے۔ اور ہمارے بہترین نوجوان طلباء ڈاکٹریٹ کی تربیت کے لئے بیرون ملک گئے پھر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آنے پرانہیں بہت سی مراعات دی گئیں جن میں ایک نیا بہترین تنخواہوں کا نظام ٹینور ٹیک سسٹم ، تحقیقی گرانٹس ، جدید ترین آلات تک رسائی ، ڈیجیٹل لائبریری کی دستیابی اور اس طرح کے دیگر اقدامات شامل تھے۔ اس سے ہماری جامعات میں فیکلٹی ماہرین اور اعلیٰ معیار کی تحقیق میں بہت تیزی سےاضافہ ہوا۔ یہ اضافہ اس حیرت انگیز حقیقت سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان تحقیقی اشاعت میں سال 2000میں بھارت سے 400فیصد پیچھے تھا ، یعنی ہندوستان کی فی 10ملین آبادی میں 172 اشاعتوں کے مقابلے میں پاکستان کی فی 10ملین آبادی میں صرف 44بین الاقوامی اشاعتیں ہوتی تھیں ،جبکہ 2018میں فی کس تحقیقی اشاعت میں پاکستان نے بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا جس کی ہماری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ۔ مقامی پی ایچ ڈی پروگراموں کے معیار کو بہتر کیا گیا ، غیر ملکی پروفیسرز کے ساتھ نگرانی کی حوصلہ افزائی کی گئی ، پی ایچ ڈی تھیسس کی جانچ غیر ملکی بین الاقوامی ماہرین کے ذریعے لازمی قرار دی گئی ، اور سرقہ کی روک تھام کے لئے ایک سافٹ وئیر متعارف کیا گیا جس کے ذریعے اس برائی کو مکمل طور پر روک دیا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستانی طالب علموں کی غیر ملکی جامعہ میں 6 سے 12 ماہ تربیت کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ معیار کو بہتر بنانے کے لئے نصاب میں مناسب تبدیلیاں لائی گئیں ، غیر ملکی ماہرین سے تجزئیے کا نظام متعارف کرایا گیا،اس کے علاوہ فیکلٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر سے ایسوسی ایٹ اور پھر مکمل پروفیسر کی سطح پر ترقی کے لئے فیکلٹی ایولیویشن سسٹم متعارف کرایا گیا جس میں اگلی سطح پر ترقی کے لئے 6 بارغیر ملکی ماہرین کے ذریعے بین الاقوامی جائزوں میں کامیابی حاصل کرنا لازمی قرار دیا گیا۔ ابتدا میں ،اعلیٰ تعلیم تک رسائی 17سے 23 سال کے نوجوانوں میں صرف 2.6فیصد طلباء تک تھی۔ سال 2008تک یہ بڑھ کر تقریباً 9فیصد ہوئی ، اور اب تقریباً 13فیصد ہے۔ نصاب میں کئی بار مشاورت کے ساتھ نظر ثانی کی گئی۔ جامعہ،صنعت روابط کی حوصلہ افزائی کیلئے متعدد پروگرام متعارف کرائے گئے جن میں پروجیکٹس کی مشترکہ فنڈنگ شامل تھی جس میں صنعت پروجیکٹ کے اخراجات کا کم از کم 20فیصد اداکرتی تھی۔ ٹیکنالوجی پارکس بھی قائم کئےگئے ، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ یہ اور دیگر اقدامات بین الاقوامی ماہرین کی جانب سے تعریفی مقالوں کا باعث بنے جنہوں نے اسے پاکستان میں ’’اعلیٰ تعلیم کا سنہری دور‘‘ قرار دیا۔ افسوس کے پچھلے تیںسال میں ان میں سے بیشتر پروگرام بند کر دیئے گئے جن کو از سر نو شروع کرنا پڑ رہا ہے ۔ایچ ای سی کے بانی چیئرمین کے طور پر میں نے جن پروگراموں کو متعارف کرایا انہوں نے بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ پروفیسر سی این آر راؤجو اس وقت بھارتی وزیر اعظم کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے مشیر تھے نے 22جولائی 2006 کو اپنے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو ہمارے ان اقدامات پر تفصیلی رپورٹ پیش کی جس کی خبر بھارت کے معروف اخبار ہندوستان ٹائمز میں نیہا مہتا نے 23جولائی 2006کو ’’ہندوستانی سائنس کو پاک سائنس سے خطرہ‘‘کے عنوان سے شائع کی جس کے بعد بھارت نے پاکستان کے نقش قدم پر چلنے کا فیصلہ کیا اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ہائر ایجوکیشن کمیشن آف انڈیامیں تبدیل کر دیا ۔ حالیہ برسوں میں ان تمام پروگراموں کوغلط قیادت اور بدلتی حکومتوں کی جانب سے بجٹ کٹوتی کی وجہ سے بری طرح نقصان پہنچا لیکن اب وزیر اعظم عمران خان کی دلچسپی اور مدد کے باعث اعلیٰ تعلیم کی بحالی شروع ہو گئی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کا بجٹ پچھلے 4سال سے تقریباً65 ارب روپے پرمنجمد کر دیا گیا تھا محض ایچ ای سی کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے۔اب وزیر اعظم نے میری درخواست پر ،اس میں15ارب روپے اضافے کا اعلان کیا ہے جو ہماری جامعات کو بہت زیادہ سہولت فراہم کرے گا۔ غیر ملکی اسکالرشپ پروگرام جو پچھلے 3سال سے بہت کمزور ہو گیا تھا اور جس کی مد میں ایچ ای سی اکاؤنٹ میں کئی ارب روپے غیر استعمال شدہ پڑے ہوئے تھے اب اسے دوبارہ بحال کیا جا رہا ہے۔اسی طرح ٹینیور ٹریک سسٹم جو برسوں سے اساتذہ کی تنخواہوں کی سطح کے لحاظ سے تباہ ہو چکا تھا ، اس کو بھی دوبارہ بحال کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے مہربانی کی اور میری یہ تجویز قبول کرلی کہ اس نظام کےتنخواہ کے ڈھانچے میں 35فیصد اضافہ کیا جانا چاہئے جبکہ 100فیصد تنخواہ میں اضافہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی فیکلٹی کو دیا جانا چاہئے۔ موجودہ حکومت پاکستان کو ایک مضبوط علمی معیشت میں تبدیل کرنے کے لئے پرعزم دکھائی دیتی ہےجس کا ثبوت یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت ، جینیات ، صنعتی بائیو ٹیکنالوجی ، معدنی وسائل ، جدید زراعت ، توانائی اور دیگر شعبوں میں تقریباً 100 ارب روپے کے منصوبے نالج اکانومی ٹاسک فورس کے تحت یا تو منظور ہو چکے ہیں یا منظوری کے مختلف مراحل میں ہیں۔ میرے زیر انتظام حالیہ پیش رفت کی ایک روشن مثال پاک آسٹریا فوکہاکشولے اطلاقی سائنس اور انجینئرنگ کی جامعہ ہری پور ہزارہ میں آٹھ غیر ملکی جامعات( 3آسٹریا اور 5چین کی جامعات) کے تعاون سے کام کرنا شروع کر چکی ہے ۔ اسی طرح کے دو دیگر غیر ملکی انجینئرنگ کی جامعات کےپروجیکٹس بھی منظور کئے گئے ہیں ۔ ایک اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاؤس کے پیچھے واقع ہے جس پر تقریبا23.5ارب روپے جبکہ دوسرا سیالکوٹ کے قریب سمبڑیال میں قائم کیا جائے گا جس پر تقریباً 17ارب روپے لاگت آئے گی۔اب الحمدللہ تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیںجو ان شااللہ پاکستان کو نئی بلندیوں پر لے جائیں گی۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں