علمی معیشت میں ترقی

Tuesday / Jan 18 2022

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

گزشتہ دنوں اعلیٰ تعلیمی کمیشن اور برٹش کونسل کے زیر اہتمام بھوربن میں ایک اجلاس ہوا جس میں سابق چیئرمین ایچ ای سی کی جانب سے متعارف کرائی گئی پالیسیوں کا جائزہ لیاگیا۔ اس بڑی تقریب میں شرکت کرنیوالے 180شیوخ الجامعہ میں سے 178شیوخ الجامعہ نے ان پالیسیوں سے اختلاف کیا۔ انکے خیال میں ان سے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو بہت نقصان پہنچا ہے ۔ایک پالیسی یہ تھی کہ پاکستان کو تعلیم کی تین واضح سطحوں (بیچلرز، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی) کے تقاضوں کو ترک کر دینا چاہئے، جو بولونیا پروٹوکول کے بالکل خلاف تھی جس پر دنیا کے زیادہ تر ممالک متفق و کاربند ہیں ۔یہ پروٹوکول تعلیمی قابلیت کے بنیادی خاکے پر مشتمل ہے ۔ اس پرو ٹوکول کا نام جامعہ بولونیا کے نام پر رکھا گیا ہے، جہاں 1999میں 29یورپی ممالک کے وزرائے تعلیم نے بولونیا اعلامیہ پر دستخط کئےتھے۔اس پروٹوکول کے تحت طلباء کی قابلیت، سیکھنے کی صلاحیت پرمنحصر ہے یعنی طلباء اپنی مخصوص ڈگری کی تکمیل پر کتنی علمی صلاحیت کے حامل ہوں گے اور آگے کیا کرسکیں گے ۔اس کے علاوہ یہ پروٹوکول ان تینوںڈگریوں بیچلرز، ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی اہلیت کی حد ود کی بھی وضاحت کرتا ہے ۔ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کالجوں سے بیچلر ڈگری سےفارغ ہونے والے ہمارے طلبا کا معیار کیا ہے۔ ان سے ماسٹر ڈگری کے بغیر براہ راست پی ایچ ڈی پروگرام میں جانے کی توقع رکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اگر واقعی اس پالیسی پر عمل درآمد ہوجاتا تو پاکستان کے پی ایچ ڈیز کی شناخت ہی ختم ہو جاتی۔اجلاس میں اس بات پر حیرت اور افسوس کا اظہار کیاگیا کہ ایسی پالیسیاں وضع کرتے وقت کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور اس طرح کی بنیادی تبدیلیاں شیخ الجامعہ کمیٹی کے علم میں لائے بغیر اور ان کا نقطہ نظر حاصل کئے بغیر متعارف کرائی گئیں۔ اجلاس میںشریک افرادکے خیال میںان پالیسیوں کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کوایک نقصان یہ پہنچا کہ ایچ ای سی نے نوجوان فیکلٹی ممبران کے لئےتحقیقی گرانٹس جو کہ قومی تحقیقی پروگرام برائے جامعات کے نام سے دی جاتی تھیں ،جو HEC کا ایک انتہائی اہم پروگرام تھا ، اس کو گھٹا کر تقریباً بند کر دیا، اس کے ذریعےتحقیق اورجدت طرازی میں ایک مضبوط مستقبل کی بنیاد رکھی جاتی تھی۔اس کے تحت ہماری جامعات کے 1200سے 1500 ابھرتے ہوئے نوجوان فیکلٹی ممبران کو ہر سال تحقیق کے لئے کثیررقم دی جاتی تھی،اسے روک دیا گیا اور صرف نوےپروجیکٹس منظور کئے گئے ۔ یہ پاکستان بھر کے نوجوان اساتذہ کے لئے ایک شدید دھچکا تھا۔ ان تحقیقی فنڈز کو کم کر کے صرف90گرانٹس کرنا ہماری جامعات کے لئے ایک تباہ کن قدم تھا ، اس کا مطلب یہ تھا کہ ہزاروں نوجوان فیکلٹی ممبرجو ا پنے مستقبل کے ابتدائی مراحل میں خود کومضبوط کرنے کیلئے ان تحقیقی گرانٹس پر انحصار کرتے تھے وہ ایچ ای سی میں فنڈز دستیاب ہونے کے باوجود تحقیقی فنڈز سے محروم ہو گئے، تقریباً 4000تحقیقی فنڈز کیلئے درخواستیں موصول ہوئیں جو بیکار گئیں جبکہ پاکستان بھر میں ہزاروں فیکلٹی ممبران یاد دہانیاں بھیجتے رہے اور HEC کے جواب کا انتظار کرتے رہے، جس سے ملک کے نوجوان محققین میں بڑے پیمانے پر مایوسی پھیل گئی۔خوش قسمتی سے، ایچ ای سی اب بحالی کی طرف گامزن ہے اس لئے کہ کئی مثبت قدم اٹھائے گئے ہیں۔ سب سے پہلے حکومت نے ایچ ای سی کے بجٹ میں اضافے کا اعلان کیا ہے۔جامعات کےعملیاتی بجٹ میں 15ارب روپے اضافی رکھے گئے ہیں۔درحقیقت مہنگائی، تنخواہوں میں اضافے، بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اور آلات اور استعمال کی اشیاء کی درآمد کے لئے درکار غیر ملکی کرنسی کی لاگت میں 40فیصد اضافے کی وجہ سے جامعات کے بجٹ میں حقیقی معنوں میں 70 فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہےجس کی وجہ سے جامعات ایک تباہ کن صورتحال سے دو چار ہیں ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کنٹریکٹ تقرری نظام کو زوال پذیر ہونے دیا گیا۔ اس نظام کے تحت ہزاروں ذہین نوجوان پاکستانی ا سکالرز کوجامعات میں بہت زیادہ تنخواہوں پر تعینات کیا گیا تھا لیکن ایسی تقرریوں کےلئے باقاعدہ بین الاقوامی تشخیص کی ضرورت تھی۔ اندرون ملک اور بیرون ملک بہترین اساتذہ کو راغب کرنے کے لئے اس تقرری نظام کو رائج کیا گیا تھا ۔ اس نظا م کو دوبارہ سے میں نے، وزیر اعظم عمران خان کو اس کی اہمیت کی جانب توجہ دلانے کے بعد بحال کیا ۔ نتیجہ یہ کہ حکومت نے تمام ٹینیور ٹریک نظام کے تحت مقررین فیکلٹی ممبران کی تنخواہوں میں 35 فیصد اور اس نظام کے تحت تعینات بہترین کارکردگی دکھانے والے فیکلٹی ممبران کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ کرنے پر اتفاق کیا ہے، اس طرح سب سے زیادہ ذہین نوجوان اساتذہ کو تعلیم و تحقیق کو بحیثیت مستقبل اپنانے کا انتخاب کرنے کےلئے اہم محرک فراہم کیا گیا ہے ۔ درحقیقت، اس نظام کو میں نے متعارف کرایا تھا جب میں 2004میں ایچ ای سی کا چیئرمین تھا،اس نظام نے ہندوستان میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں ، اس کے نتیجے میں 22 جولائی 2006 کو ہندوستانی کابینہ اور وزیر اعظم کو ہمارے ایچ ای سی کے پروگرام پر ایک تفصیلی رپورٹ دی گئی تھی جسے 23جولائی 2006کو روزنامہ ہندوستان ٹائمز میں ’’ہندوستانی سائنس کو پاک خطرہ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا تھا۔تیسرا اہم اقدام یہ ہے کہ ، حکومت نے نالج اکانومی ٹاسک فورس جس کی سربراہی وزیر اعظم خود کر رہے ہیں اور جس کا میں وائس چیئرمین ہوں،کے تحت کئی اہم منصوبوں کو فنڈز فراہم کر کے سائنس، ٹیکنالوجی اورجدت طرازی کو مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ منصوبے پاکستان کے اندر اور بیرون ملک دستیاب پاکستانی ماہرین کے ساتھ مشاورت سے تیار کئے جا رہے ہیں۔ انہیں صنعتی بائیوٹیکنالوجی مصنوعی ذہانت، جدید زر ا عت ، میٹریل انجینئرنگ اور دیگر ابھرتے ہوئے شعبوں میں فنڈز فراہم کئے جا رہے ہیں۔ ملک بھر کے سائنسی اداروں میں اس وقت تقریباً 100 ارب روپے کے منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ غورطلب بات یہ ہے کہ تقریباً 2 سال قبل وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا ترقیاتی بجٹ صرف 0.8ارب روپے تھا۔ اب ان ترقیاتی منصوبوں کی بدولت پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے منظر نامے میں بہت تیزی سے تبدیلی آرہی ہے ۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں