Monday / Mar 28 2022
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
جدت سے بھر پور اس دور میں سائنس دان کام کو آسان تر بنانے اور جلد کرنے کے لیے اب تک متعدد انوکھی چیز یں متعارف کرچکے ہیں ،ایسی ڈیوائسز اور آلات تیارکیے جا چکے ہیں ،جن کا پہلے کبھی تصور بھی نہیں کیا گیا۔ اب گھنٹوں کے کام سیکنڈز میں کرلیے جاتے ہیں۔ ایسی چند ایجادات کے بارے میں ذیل میں پیش کیا جارہا ہے ۔ انٹرنیٹ کی رفتار میں 8لاکھ گنا اضافہ گزشتہ دو دہائیوں میں انٹرنیٹ کی رفتار میں غیرمعمولی اضافہ نظر آیا ہے۔ اس وقت میسر کیبلز 30میگابائٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے چلنے والے وانٹرنیٹ کو سہارا دے سکتے ہیں۔ اب اس میدان میں ایک نیا دھماکہ ہونے والا ہے۔ یونیورسٹی آف سائوتھرن کیلی فورنیا (USC)کے محققین روشنی کی Twisted Beamکی مدد سے ڈیٹا ٹرانسمیشن کی رفتار میں 85000گنا اضافہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس طرح ڈیٹا ٹرانسمیشن کا عمل 56.2ٹیرابائٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے ہوگا۔اس تیز ترین رفتار سے ڈیٹا منتقلی (ٹرانسمیشن) کا عمل روشنی کی آٹھ مڑی ہوئی شعاعوں جو کہ ایک دوسرے سے ڈی این سے مشابہ مرغولے دار Helical شکل سے منسلک ہیں ۔ ان آٹھ شعاعوں میں سے ہر ایک کی اپنی خصوصیت ہے جن کی 1 اور 0 کے ڈیٹا Bitesمیں رمزبندی کی گئی ہے۔اس طرح ڈیٹا آٹھ آزاد Data Streamکی شکل میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا خلایا Opticalکیبل کے ذریعے منتقل کیا جاسکتا ہے۔اسی وقت Karl Sruhet انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (KIT) کے پروفیسر Jurg Leuthold کی سربراہی میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے اس سے بھی تیز رفتار ڈیٹا ٹرانسمیشن کا عمل انجام دیا ہے۔ وہ 26ٹیرابائٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا کی منتقلی (ٹرانسمیشن) کا کام انجام دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں (جو موجودہ رفتار سے8000,000 گنا زیادہ ہے) یہ ڈیٹا 50کلومیٹر (311میل) کے فاصلے سے ایک سیکنڈ میں نشر (Transmit) کیا گیا۔ اس قدر بڑی مقدار کے ڈیٹا کی (جس کو ذخیرہ کرنے کے لیے 700 DVDs کی ضرور ت ہوتی) منتقلی حیرت انگیز ہے۔ ذہین عینکیں گوگل نے Intellegent عینک کا دلچسپ جوڑا تیار کیا ہے۔ اس کو پہن کر آپ کا بصری دائرہ وسیع ہوجائے گا۔ اگر آپ کو کسی خاص جگہ کا راستہ معلوم کرنا ہے تو آپ کو بس اپنی عینک سے کہنا ہوگا کہ وہ متعلقہ گلی کا نقشہ اس طرح آپ کی نظروںکے سامنے لے آئے کہ دیکھنے میں کسی قسم کی رکاوٹ بھی پیدا نہ ہو۔ اسی طرح اگر آپ غروب آفتاب کا منظر دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو عینک سے ایک تصویر لینے کی درخواست کرنی ہوگی اور یہ وہ کام فوراً کردے گی۔ یہ آپ کے لیے تھیٹر کے ٹکٹ کی بکنگ کروادے گا۔ یہ آپ کو بتادے گا کہ کتابوں کی دکان پر آپ کی مرضی کی کتاب کہاں رکھی ہے یا پھر سڑک پر آگے موجود اژدھام سے آپ کو مطلع کردے گا۔ اس عینک کے بعد آپ کو اپنی مطلوبہ معلومات کے حصول کے لیے اسمارٹ فون کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ آپ کی ناک کے کنارے ہمیشہ موجود رہے گا۔ آپ اس سے جو کہیں گے یہ فوری طور پر آپ کےحکم کی تعمیل کر دے گا ۔صرف یہی نہیں بلکہ غیر ملکی زبان کا ترجمہ بھی کردے گا ۔یہ عینک گوگل Xنے ایجاد کی ہے۔نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ عینک اس سال کے آخر تک مارکیٹ میں موجود ہو گا ۔اس میں ایک Intelligent Personal سوفٹ وئیرشامل کیا گیا ہے، تاکہ بغیر کسی رکاوٹ اور مشکل کے آپ اس سے لطف اندوز ہوسکیں۔ بیکٹیریا سے گھر روشن کریں سائنس اور انجینئرنگ کے شعبے میں ہونے والی تیز رفتار پیش رفت مسلسل جاری ہے ۔ گھر کو روشن کرنے کے لیے بے شمار طریقے اختیار کیے جاچکے ہیں، جس میں عام استعمال کے بیلٹ سے لے کر LEDs لائٹیں تک شامل ہیں، تاہم اب ڈچ الیکٹرونک کمپنی نے گھر کو روشن کرنے کے لیے ایک اور حیران کن طریقہ دریافت کیا ہے، وہ ہے بیکٹیریا کے ذریعے روشنی۔ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے کیڑے اور گہرے سمندروں میں پائی جانے والی مچھلیاں روشنی پیدا کرسکتی ہیں۔ پاکستان میں موسم گرما میں جگنو چمکتے ہوئے نظر آنا عام تجربہ ہے۔ بالخصوص پنجاب کے باغوں میں جگنو کی یہ روشنی (Bioluminessence) ایک خامرے (انزائم) کے ایک رسوب لیوسی فرین کے ساتھ تعامل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ فلپس کمپنی نے Bioluminiscence بیکٹیریا کو قدرتی روشنی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس بیکٹیریا کو میتھین کھلائی گئی جو کہ عام گھریلو کچرے سے پیدا ہوتی ہے۔ بھاری توپ خانے میں داخل ہونے والا ہتھیار عسکری تحقیق کے میدان میں ایک اہم موضوع ایسے ہتھیاروں کی تیاری ہے جو کہ دشمن کی مضبوط بنکروں میں گھس کر اس میں چھپے ہوئے دشمن کو ہلاک کردیں۔ اس میں 5000 پائونڈ طاقت والے بنکر بسٹر 15000 1b BLU-82ڈیزی کٹر 15,6501b کے اضافی طاقت والے Tharmobaric bomb، 22000 1b Grand salam earthquak bomb اور Massive Ordnance Air 600،22 بلاسٹ شامل ہیں، تاہم بعض اوقات یہ بھاری بم بھی بے کار ثابت ہوتے ہیں، کیوں کہ دشمن200 فیٹ چوڑی اورمظبوط سیمنٹ کی دیوار کے پیچھے چھپاہوتا ہے، تاہم اب امریکی فوج کو ایسے ہتھیار دیے گئے ہیں جو کہ 200 فیٹ تک باآسانی نفوذ کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔ یہ 300,000پائونڈ وزنی GBU 57 A/B Massive Ordnance Penetration ہیں جو کہ پھٹنے سے پہلے 200 فیٹ اندر گھس جائیں گے۔ یہ ہتھیار جوہری ہتھیاروں کو تباہ کرنے میں کارآمد ہوں گے جن کو پہاڑیوں اور سیمنٹ کی دیواروں میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس کو حملہ کرنے والی جگہ کی معلومات GPS سسٹم کی مدد سے فراہم کی جاتی ہے۔یہ B-2 اور B-52 بمبرز لے جاسکتے ہیں۔ دماغ سے کنٹرول کیے جانے والے ہتھیار نیوروسائنس تصادم اور حفاظت "Neuro Science Conflict and Security" میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مستقبل کی جنگیں ذہن سے کنٹرول کیے جانے والے ہتھیاوں سے لڑی جائیں گی۔ ایسے ہتھیار تیار کیے جارہے ہیں جو کہ انسانی دماغ سے کنٹرول کیے جائیں گے۔ یہ Neural Interface System (NIC) جنگوں میں ایک نئے باب کا آغاز کریں گے اور انسان کی وسیع تباہی پھیلانے کی صلاحیت میں مزید اضافہ ہوگا۔ انسانی دماغ کی کمپیوٹر سسٹم کے ساتھ Interfacingکا مظاہرہ ایک امریکی کمپنی Cyber kineticsنے2004ء میں کیا تھا۔ اسپرین دواکی جسامت کا ایک چھوٹا Implant(برین گیٹ) کمپیوٹر سسٹم کو سوچ سے کنٹرول کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے، تاہم اب اس میدان میں تیزی سے توسیع جاری ہے اور اب ان سنسرز کی حامل ایک ٹوپی سرپر پہن کر بغیر کسی Implantکے سوچ سے کمپیوٹر کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ Neural Interface Weaponsسسٹم انتہائی تیز رفتار ردعمل فراہم کرتا ہے ،کیوں کہ انسانی دماغ شعوری ردعمل کے مقابلے میں انتہائی تیز رفتاری سے کام کرتا ہے۔ یہ آلہ جات اس سے قبل گاڑی چلانے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ جن کی مدد سے ڈرائیور اپنے دماغ کی مدد سے گاڑی چلاتا ہے۔ اس کے علاوہ مکمل طور پر مفلوج افراد کمپیوٹر سے کنٹرول ہونے والی وہیل چیئر اپنے دماغ سے پیغام بھیج کر کنٹرول کرتے ہیں۔ دماغ کو پڑھنے والے کمپیوٹرز ایمرجنسی کی صورت میں انسان فوری طور پر کوئی اقدام نہیں کر پاتا ۔اس مسئلے کے حل کرنے کے لیے اب برلن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں کام کرنے والے محققین نے ایسا کمپیوٹر تیار کیا ہے جو کہ آپ کی سوچ پر ہنگامی حالت میں روشنی کی رفتار سے ردعمل کا اظہار کرے گا۔ اس طرح سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں خاطر خواہ کمی آجائے گی۔ ایک ٹوپی سے منسلک دو چھوٹے الیکٹروڈ دماغ سے نکلنے والی Ellectro encephalo graphic سگنل (EEG) کی شناخت کرتے ہیں اور تیز رفتار ردعمل فراہم کرتے ہیں۔kmb100 فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والی کار کی بریک کا فاصلہ اس انتظام کے بغیر چلنے والی گاڑی کے مقابلے میں12 فیٹ تک کم ہوجاتا ہے۔دنیا میں تانبے کا سب سے بڑا ذخیرہ چلی میں ہے اور یہ چلی کی برآمدات کا 70 فی صد ہے۔ یہ دھات کچ دھات کے اندر 30فی صد تک موجود ہوتی ہے، مگر بعض مقامات پرتانبے کی ایک بہت قلیل سی مقدار جو کہ صرف1یا 2فی صد تک ہوتی ہے۔ اس میں سے تانبا کی تخریج نہیں کی جاتی بلکہ اس کو فضلہ سمجھا جاتاہے۔ عام طورپر دھات کو پکانے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جاتاہے ۔اس میں سب سے پہلے کچ دھات کو توڑا جاتاہے ۔ اس کے بعد اس کو پیسا جا تا ہے اور پھر انتہائی بلند درجۂ حرارت پر گرم کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں موجود سلفائیڈز (Sulfides) سلف آکسائیڈز (Sulfoxide) میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد اس کو صاف کرنے کے Refining کے مختلف عملوںسے گذارا جاتا ہے، جس میں سلفیورک ایسڈ سے Treatment اور برق پاشی Electrolysis کا عمل بھی شامل ہے، تاہم اگر یہ کام قدرت کی ننھی سی تخلیق بیکٹیریا کے حوالے سے کردیا جائے تو تانبے کی معمولی سی مقدار کی بھی تخریج کی جاسکتی ہے۔ یہ عمل جسے Biomining یا ’’حیاتیاتی کان کنی‘‘ کہا جاتا ہے۔ چلی، جنوبی افریقا، برازیل، آسٹریلیا اورکئی دوسرے ممالک میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اس طریقے سے دنیا بھر میں تانبے کی 20 فی صد پیداوار حاصل کی جارہی ہے۔Bio Bleaching کا طریقہ سونے اور یورینیم کی تخریج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بیکٹیریا دھات کو توانائی کے ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ان پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ نینوٹیکنالوجی… ایک نیا میدان گزشتہ دو دہائیوں میں سائنس کے میدان میں اہم ترین پیش رفت نینو ٹیکنالوجی کی تیاری ہے۔ اس کی غذا، پانی کی صفائی، آرائش حسن، الیکٹرونکس اور دوسرے میدانوں میں بے شمار اطلاقات ہیں۔ نینوٹیکنالوجی کی مارکیٹ میں سب سے زیادہ حصہ امریکا کا (28 فی صد ) ہے جب کہ اس کے بعد جاپان (24 فی صد) اور یورپ کا (25 فی صد، جرمنی، فرانس اور برطانیہ)کا حصہ ہے۔ نینو مواد کی انفرادیت ان کی جسامت ہے۔ یہ عام طور پر نینومیٹر (nm) اور 100نیومیٹر سائز کے ہیں۔ ایک نینو میٹر ایک بلین کا ایک حصہ ہے۔ یہ زمین اور ماربل کے ایک ٹکڑے کی تقابلی شرح ہے۔اس میدان کا ابھار1980ءکی دہائی میں شروع ہوا اور اس میں پہلی ترقی 1981ءکی ابتداء میں Scanning Tunnelingمائیکرو اسکوپ سے ہوا جو ایٹمی سطح پر تصویر لے سکتی تھی۔ اس کے بعد اس حوالے سے پیش رفت کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں کاربن نینوٹیوب Thin Carbon Sheaths (گریفین) اور مختلف طریقے کار شامل تھے جو کہ کارآمد نینو مواد کی تیاری میں استعمال کیے گئے۔ نینو مواد کی ادویات کے میدان میں اطلاق کرکے زیادہ بہتر دوائیں تیار کی جاسکتی ہیں۔ ان کا طبی تصویر سازی میں استعمال کرکے کینسر کے حامل ٹشوز کی زیادہ بہتر تصویر لی جاسکتی ہے۔ ایک خاص طریقے سے تیار کردہ نینو ذرّات دوائوں، حرارت، روشنی اور دوسرے مواد کو جسم کے دوسرے خلیات کو نقصان پہنچائے بغیر صرف متاثرہ خلیات تک منتقل کرسکتے ہیں۔ الیکٹرونکس کے شعبے میں ہلکی ڈسپلے اسکرین تیار کی گئی ہیں جن کو کم بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نینو وائر سے لچکدار ڈسپلے پینل تیار کیے جارہے ہیں۔ high density memory chips اور بہت ہی چھوٹے ٹرانسمیٹرز کو ایک Integerated سرکٹ میں تیار کیا جارہا ہے، جس کی مدد سے مزید فعال اور مستعد کمپیوٹر تیار کیے جاسکیں گے۔ فوڈ سائنس میں بھی نینو ٹیکنالوجی کے استعمال دریافت ہوئے ہیں۔ یہ غذائوں کی پیداوار اور ان کے ذخیرے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ پلاسٹک کے ذخیرہ کرنے والے ڈبوں میں سلور نینو ذرّات شامل کردیے جاتے ہیں۔ چناںچہ ان سے ربط میں آنے والے ضرر رساں بیکٹیریا ہلاک ہوجاتے ہیں۔ زنک آکسائیڈ کے نینو ذرّات کو پیکجنگ میں استعمال ہونے والی پلاسٹک فلم میں شامل کیاجاتا ہے، جس کے ذریعے وہ بالائے بنفشی شعاعوں کا راستہ روک دیتی ہے اور اس طرح ایک طرف تو یہ اینٹی بیکٹیریل حفاظت فراہم کرتی ہے، دوسری طرف فلم مضبوط اور پائیدار ہوجاتی ہے۔ حشرات کش ادویات میں نینو کیپسول شامل کرکے ان کا زہریلا مواد کیڑوں کے معدے کو ہی ہدف بناتا ہے، جس سے پودوں کو اور ہمیں ان ضرر رساں کیڑوں سے حفاظت میسر آتی ہے۔ ایسے نینو سینسرز تیار کیے جارہے ہیں جو ایسے انفرادی پودوں کی شناخت کرلیں گے جنہیں پانی، فرٹیلائزر یا غذائیت کی ضرورت ہوگی اور یہ حسب ضرورت ان اشیاء کے اخراج کے عمل کو بڑھا دیں گے۔ نینوٹیکنالوجی کے دوسرے استعمالات میں نیو سیلولوز کے بنے ہوئے بلٹ پروف کاغذ شامل ہیں جو کہ اسٹیل سے زیادہ طاقتور ہیں۔ اس کے علاوہ خلائی جہاز میں نئے ہلکے وزن والے طاقتور مواد استعمال کیے جارہے ہیں اور زیادہ دیر چلنے والی بیٹریاں تیار کی جارہی ہیں۔ نینو ٹیکنالوجی کا استعمال مضبوط ہلکے وزن کے کپڑوں کی تیاری، ٹینس کے ریکٹ اور کھیلوں کے دوسرے سامان بنانے میں کیا جارہا ہے۔ سوچ کے کنٹرول پر کمپیوٹر آپریٹنگ سو چ سے کنٹرول ہونے والی وہیل چیئر اور گاڑی تو متعارف ہو چکی ہے ۔اس سلسلے میں ایک نئی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ٹوپی کے بجائے بازو بند (armband) تیارکیا گیا ہے جو کہ دماغ سے آنے والی اشاروں کوپڑھ کر ان آلہ جات کو دور سے ریموٹ کے ذریعے آپریٹ کرے گا۔ یہ Bio Feed Back Arm ہاتھ کے پٹے کہلاتے ہیں اور ان کو Freer Logic نامی کمپنی نے تیار کیا ہے۔ آئی پیڈ کے سائز کی یہ ڈیوائس استعمال کرنے والے فرد کے بازو یا ٹانگ کے ساتھ باند ھ دی جاتی ہے۔ اس بازو بند میں تین سنسرز لگے ہیں جو نیورو ٹرانسمیشن سگنل کی شکل میں سوچ کے عمل کو شناخت کرتے ہیں۔ یہ آلہ دماغ کے نیورونز میں پیدا ہونے والی سگنلز کو پڑھ کر اپنا کام انجام دیتا ہیں۔ یہ سگنل استعمال کنندہ کے اعصاب میں گردش کررہے ہوتے ہیں۔ بعدازاں یہ سگنلز کمپیوٹر کو بھیج دیے جاتے ہیں۔ دماغ، مختلف انداز کی لہروں کی شکل میں چار اقسام کے سگنلز پیدا کرتا ہے۔ ان میں سے سب سے اہم ادراکی بیٹا سگنلز ہیں۔ یہ اس وقت استعمال میں آتے ہیں جب آپ کی تمام تر توجہ کسی ایک نکتے پر مرکوز ہو اور آپ کوئی اہم فیصلہ کرنے جارہے ہوں۔ مثلاً کار کے بریک لگانے کا فیصلہ، بستر سے اٹھنے کا فیصلہ یا کوئی شے اٹھانے کا فیصلہ۔ دوسرے سگنلز میں ڈیلٹا سگنلز (فرد کے سونے کی حالت میں یہ مشاہدے میں آتا ہے) تھیٹا سگنلز (جب انسان دن میں خواب کی حالت میں ہو یا قیلولہ کرہا ہو یا اونگھ آجائے) الفا سگنلز (جب انسان سکون کی حالت میں ہو، مگر شعوری طور پر چوکس ہو) شامل ہیں ۔ آلے کو فعال کرنے کے لیے توجہ کی ایک خاص سطح کو چھونا ہوگا، تاکہ آلہ اس کی شناخت کرسکے۔ جب آپ کسی بات پر غور کررہے ہوں گے تو یہ آلہ اس کیفیت کو نظرانداز کردے گا لیکن جیسے ہی آپ کی سوچیں ایک نکتے پر چلی جائیں گی ،جس کے نتیجے میں کوئی فعلس انجام پاتا ہے تو نیورونز ایک منفرد انداز سے فائرنگ شروع کریں گے۔ Body Waveآلہ یہ منفرد علامت پڑھ کر آپ کی طرف سے فوری ردعمل انجام دے گا۔ جیسے ہی آپ اپنی توجہ کے ارتکاز کو ختم کردیں گے Neuronal Firingسے آنے والے اشارے غائب ہوجائیں گے۔ اس پیش رفت کے استعمالات دفاع، ادویات اور صنعت کے میدان میں بھی ہیں۔ بالخصوص اس وقت جب سیکنڈ سے بھی کم وقت میں فیصلہ کرناہو اور سیکنڈ کا ایک حصہ بھی زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ بن جائے۔ مثلاً فضا میں ہونے والی جنگ کے دوران سپر سونک اثرات ایسی صورت میں سیکنڈ کے ہزارویں حصے کے فیصلہ کی تاخیر کہ کب جہاز کی سمت تبدیل کرنی ہے یا کس وقت ہدف پر میزائل فائر کرنا ہے، جیسے فیصلے بازی پلٹنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں