جدید سائنسی ایجادات

Monday / Jun 27 2022

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

نئی سائنسی ایجادات تیزی سے ہمارے ارد گرد کی دنیا کو تقریباً طلسماتی اندازمیں تبدیل کر رہی ہیں۔ ان میں عجیب و غریب قسم کے نئے مواد شامل ہیں جن سے اشیاکوڈھانپ دیا جائے تو وہ نظر سے اوجھل ہو جاتی ہیں، ایسے آلات تیار کر لئے گئے ہیں جو اعصابی نظام کے ذریعے دماغ میں خاکے منتقل کرتے ہیں جس سےنابینا افراد کی جزوی بینائی بحال کی جا سکتی ہے۔ بڑھاپے کے خلاف مرکبات تیار کئے جا رہے ہیں جو بڑھاپے کے عمل کو سست کرتے ہیں اور عمر کو بڑھا سکتے ہیں۔یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آج پیدا ہونے والے بچوں کی اوسط عمر120 سال سے زیادہ ہوگی۔ایک اورمواد گرافین تیار کیا گیا ہے جو اسٹیل سے200گنا زیادہ مضبوط ہے اور یہ بہت سے کاموں کیلئے کارگر ثابت ہو سکتا ہے ۔ مصنوعی ذہانت بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے جوشہر کے نظامِ نقل و حمل سے منشیات کی دریافت تک، اسٹاک ایکسچینج کی تشخیص سے صحت اور ماحولیاتی مسائل کو اجاگر کرنے تک متعدد شعبوں میں اپنا لوہا منوارہی ہے، اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت اعصابی نیٹ ورک کےشعبے میں خاص پیش رفت کررہی ہے اور انسانی دماغ پر مبنی دیگر تکنیکی عوامل پراس کا اطلاق تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ان میں سے کچھ نئی ایجادات جدید جنگ میں اہم کرداراداکرسکتی ہیں۔ذہین ڈرونز کے جھنڈ جو آپس میں بات چیت کر سکتے ہیں اور انتہائی منظم انداز میں دشمن کے ٹینکوں پر حملہ کر سکتے ہیں، ٹینک اور پیدل سپاہیوں کو آہستہ آہستہ غیر ضروری بنا تےجارہے ہیں۔ ترکی ڈرون( بیراکتار ٹی بی 2) ایک جنگی ڈرون ہے جس کے پروں کی لمبائی 12میٹر ہے جو چار لیزر بموں اور مغرب سے فراہم کردہ دیگر اسلحے سے لیس ہے، جو ٹینکوں اور دیگر بھاری زمینی ہتھیاروں کو تباہ کر نے کے لئے کافی ہے۔ یوکرین میں چھوٹے سوئچ بلیڈ ڈرون بھی کامیابی سے استعمال ہو رہے ہیں۔انہیں ایک ٹیوب میں آرام سے لے جایا جاسکتا ہے جہاں سے انہیں براہ راست اُڑایا جا سکتا ہے۔ ایک اور تیزی سے ابھرتا ہوا شعبہ نینو ٹیکنالوجی کا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی اس وقت وجودمیں آئی جب یہ پتہ چلا کہ مادوں کی خصوصیات میں نمایاں تبدیلیاں اس وقت ہوتی ہیں جب ان کے حجم کو کم کر کے1نینو میٹر اور 100نینو میٹرکے درمیان کر دیا جاتا ہے۔ ایک نینو میٹر ایک ملی میٹر کا اربواں حصہ ہوتاہے۔ مثال کے طور پراگر ہم سونے کے ذرّات کو انتہائی باریک پیس کر انہیں نینو میٹر جتنا کر دیں تو سونے کا رنگ سبزی مائل نیلا ، سرخ یا جامنی رنگ میں تبدیل ہو جاتا ہے، یہ ذرات کے حجم پر منحصر ہے۔ نینو ٹیکنالوجی کا اطلاق سائنس کے تمام شعبوں میں ہو رہا ہے جن میں بائیو میڈیکل، کیمیا، مکینیکل، برقیات، کمپیوٹر سائنسز اور مادی سائنس شامل ہیں ۔ نینو اسکیل سینسرز اور آلات انتہائی کم لاگت میں پلوں، سرنگوں وغیرہ کی ساخت کی حفاظت اور کارکردگی کی مسلسل نگرانی کے کام آتے ہیں۔ انہیں نقل و حمل میں مدد کےلئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ ڈرائیوروں کو سڑک پر اپنی جگہ برقرار رکھنے، تصادم اور رش سے بچنے اورسفری راستوں کو مرتب کرنے میں مدد ملے۔ نینو سینسرز کے استعمال نے زراعت میں پانی، کھاد اور کیڑے مار ادویات کی ضرورت کو بہت کم کر دیا ہے۔ زراعت میں کیڑے مار ادویات کے استعمال کو بہتر بنانے کے لئے خصوصی نینو کیپسول تیار کئے گئے ہیں جن میں کیڑے مار ادویات شامل کی جاتی ہیں۔ یہ کیڑے مار ادویات صرف کیڑوں کے پیٹ میں جا کرخارج ہوتی ہیں،پودے اور انسان ان کے مضر اثرات سے محفوظ رہتے ہیں۔ نینو ٹیکنالوجی کا استعمال پانی صاف کرنے، ادویات، کاسمیٹکس، برقیات،نئے مواد اور دیگر بہت سے شعبوں میں انتہائی مفید ثابت ہو رہاہے۔ صرف نینو الیکٹرانکس کے شعبے کی مارکیٹ کا تخمینہ تقریباً 4کھرب ڈالر ہے اور یہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔اسی طرح نینو سیلولوز سے بنے بلٹ پروف کاغذ سےبلٹ پروف جیکٹس تیار کی گئی ہیں،یہ جیکٹس ہلکی، جاذبِ نظر اور بلٹ پروف ہیں ۔تیز رفتار ترقی کا ایک اور دلچسپ شعبہ توانائی کا ہے۔ نئے زیادہ موثر شمسی خلیے تیار کئے جا رہے ہیںجو خصوصی رنگ سےتیارکئے گئے ہیں تاکہ جب بھی سورج کی روشنی ان پر پڑے تو وہ بجلی پیدا کر سکیں۔ برقی موٹر گاڑیوں کوچلانے کیلئے نئی زیادہ کارآمد بیٹریوںپر تحقیق اس شعبہ کی اولین ترجیح ہے۔ایسی ہی دیگر حیرت انگیز ایجادات ہماری دنیا کو تیزی سے تبدیل کر رہی ہیں، اور وہ ممالک ،جو ان ایجادات کو صنعت اور کاروبار کے لئے استعمال کر رہے ہیں ،تیزی سے ترقی کر رہے ہیں ۔یہ دلچسپ بات ہے کہ حیاتیاتی ماڈلز پر مبنی کمپیوٹر سسٹم نئی اور ابھرتی ہوئی ایجادات میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی ٹیکنالوجی ہے جس میں 2016اور 2020کے درمیان 67صد اضافہ ہوا۔گوگل،مائیکروسافٹ اور انٹیل اس شعبے میں سرفہرست ہیں۔ مشین لرننگ ، کوانٹم کمپیوٹنگ، خود مختارٹیکنالوجی اورD 3پرنٹنگ کے شعبوں میں شامل نئے پیٹنٹ میں بھی بڑی تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ان میں سے کچھ شعبوںکا پاکستان میں ہری پور ہزارہ میں پاک آسٹرین جامعہ برائے اطلاقی سائنس و انجینئرنگ کے قیام کے ساتھ شاندار آغاز کیا گیا ہے اور اسی طرح کی ایک جامعہ اب سیالکوٹ میں بھی زیر تعمیر ہے۔ مصنوعی ذہانت کے متعدد مراکز قائم کئے گئے ہیں جن میں NUST، اسلام آباد کے علاوہ NED ،UET لاہور اور دیگرجامعات شامل ہیں۔ چین اور آسٹریا کی اعلیٰ جامعات کے تعاون سے پاک آسٹرین جامعہ ،ہری پور میں سینو پاک مرکز برائے مصنوعی ذہانت نے بھی کام شروع کر دیا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کا پہلا قومی مرکز برائے نینو ٹیکنالوجی جامعہ کراچی میں قائم بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم میں حسین ابراہیم جمال فاؤنڈیشن کے چیئر مین عزیز جمال صاحب کے مالی تعاون سے قائم کیا گیا ہے۔پاک آسٹرین جامعہ برائے اطلاقی سائنس و انجینئرنگ نئے اور ابھرتے ہوئے شعبوں میں پاکستانی طلبا کی تربیت پر خصوصی توجہ دے گی۔یہ دو اہم خصوصیات کی حامل دنیا کی پہلی جامعہ ہے۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے دو تعلیمی سیکشن ہیں، ایک سیکشن BSc اور MSc میں اعلیٰ سطح کی تکنیکی تربیت فراہم کرتا ہےجبکہ دوسرا پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ سطح کا سیکشن ہے۔ اس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ہر شعبہ آسٹریا اور چین کی معروف جامعات کی سرپرستی میں قائم کیا گیا ہے ۔ یہ غیر ملکی جامعات معیار کی ضمانت، اساتذہ اور تکنیکی ماہرین کی تربیت اور امتحانات کے معیار کوبہتر بنانے میں مدد کریں گی۔اس جامعہ کی اول ترجیح اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی ترقی پر بھر پورتوجہ دینا ہے،اس لئے اس کا مرکز ٹیکنالوجی پارک ہے جہاں صنعتوںکےتعاون سے مختلف تجارتی مصنوعات کی بھرپور پیداوار جاری ہے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں