ایک متحرک قومی جدت طرازی کی پالیسی

Saturday / Jul 29 2017

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

پاکستان کی آبادی لگ بھگ 22کروڑ افراد پر مشتمل ہے جن میں دس کروڑ افراد بیس سال سے کم عمر کےہیں ۔ نو جوانوں کی اتنی بڑی تعداد کی موجودگی ہمیں سماجی واقتصادی ترقی کے لئے ایک منفرد موقع فراہم کرتی ہے کیونکہ مغرب کے اکثر ممالک میں نوجوانوں کی تعداد کم سےکم تر ہوتی جارہی ہے۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے ہمیں ایک متحرک جدت طرازی کی پالیسی مرتب کرنی چاہئے جو کہ تمام قومی ترقیاتی منصوبوں کامرکزی محرک ہو اورنتیجے میں قومی خودانحصاری تخلیق پا سکے۔ یہ پالیسی اسقدر قوی اور جامع ہو کہ قومی سطح پر عمل درآمد کی بدولت لفظ پاکستان جدت طرازی کے مترادف بن جائےاور ایسا ملک بن کر ابھر کر سامنے آئے جس کےاپنی آبادی کےتناسب سےسب سے زیادہ تعدادکےبین الاقوامی پیٹنٹ تجارتی بنیادوں پر دستیاب ہوں اور ہمارےاپنےنوجوانوں کی نئی نئی ایجادات مارکیٹ میںہواوربرآمدہو۔ ایسی صورتحال قائم کرنے کے لئے ملک بھرکی تمام وزارتوں کےمنصوبوں کو قومی جدت طراز پالیسی کےساتھ مضبوطی سےمنسلک کرنا ہوگا. اس کے لئے سب سے اہم یہ ہے کہ تعلیم کےمختلف شعبوںمیں بنیادی ا صلاحات اس زاوئیے سے کی جائیں کہ طلباکو رٹا لگا کرسیکھنےکےبجائے مسائل کا مہارت کے ساتھ حل تلاش کرنے پر زور دیا جائے۔ اس جدت طراز پالیسی کی پائیدار ترقی کو یقینی بنانا چاہئے، اور صرف اقتصادی مسابقت پرمرکوز نہیں ہونا چاہئے بلکہ سماجی انصاف اور ماحولیاتی تحفظ کو بھی یقینی بنانا چاہئے۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لئےسب سے اہم عنصر اور قومی ترقی کا ستون ایک پُربصیرت وزیراعظم کی موجودگی ہے جو کہ عہدحاضر کے تقاضوں کے مطابق ایک مضبوط علم پرمبنی معیشت کی ترقی میں سائنس ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے اہم کردار کو سمجھنے کی صلاحیت کا حامل ہو۔ لہٰذا ایسے وزیراعظم کی قیادت میں، تمام وزارتیں اور ادارے ایک مضبوط علم پرمبنی معیشت قائم کرنے کے لئے متحد ہو کر اور مربوط انداز میں کام کریں اور موجودہ کمزور زراعت پرمبنی معیشت سے منتقل ہوکر درمیانے اور اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی تیاری اور برآمد پر توجہ مرکوز کریں۔ اس طرح کی مربوط حکمت عملی شاندار نتائج کے ساتھ کوریا کےجنرل پارک چنگ ہی، چین کے ڈینگ زیاؤپنگ، سنگاپور کے لی کوان یو اور ملائیشیا کے مہاتیرمحمد نے اپنائی۔ افسوس کہ موجودہ حکومت نے 2016ء میں اعلی تعلیم کا ترقیاتی بجٹ 22 ارب سے کم کر کے صرف تقریباً 8 ارب کر دیا ہے جو اس قوم کے ساتھ ایک بھیانک مذاق ہے۔ پاکستان کے لئے مختلف شعبوں میں مثلاً انجینئرنگ کے سامان کمپیوٹر سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ،معدنی پیداوار،بائیوٹیکنالوجی مصنوعات، دوا سازی، توانائی اوردیگرشعبوںمیں سازوسامان کی تیاری کے وسیع مواقع موجود ہیں ۔ان شعبوں کی پہلے ہی ایک دوراندیش پروگرام کے تحت نشاندہی کی جاچکی جو کہ میری نگرانی میں تیار کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک 320 صفحاتی مسودہ اگست 2007ء. میں کابینہ کی جانب سے منظور بھی کرلیاگیاتھا۔اب ہمیں تمام وزارتوںکومتحرک کرنےکی ضرورت ہے تاکہ اس مسودہ کے تحت 5، 10 اور 15 سال کےاہداف پر عمل درآمد کیا جاسکے۔ مضبوط قومی تعلیمی ادارے اور بہترین کارکردگی کے مراکزایک متحرک قومی جدت کی پالیسی کے نفاذکےلئےدوسرےاہم ستون کی حیثیت رکھتے ہیں. اعلیٰ معیارکی تعلیم ایسے شہری پیدا کرتی ہے جو معاشرے میں جدت طرازی اوراعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعتی پیداوار کے علمبردار ثابت ہوتے ہیں۔ کوریاکاصنعتی انقلاب تعلیم کی سطح پرایسی ہی اصلاحات پرمبنی تھا جس کے تحت بین الاقوامی سطح کےسائنس اورٹیکنالوجی کے ادارے مثلاً کوریاانسٹیٹیوٹ برائے سائنس وٹیکنالوجی کوریا ایڈوانسڈانسٹیٹیوٹ برائے سائنس وٹیکنالوجی اورسیول نیشنل جامعہ قا ئم کئے گئے۔ چین نے 1978ء سے دنیا کی سب سےبہترین جامعات میں اپنے ہونہار طالبعلموںکوبھیجنا شروع کردیا تھا اور اب ہرسال پی ایچ ڈی اورپوسٹ ڈاکٹریٹ کی تربیت کےلئے پانچ لاکھ سے زائد طلباءبھیج رہاہے۔ اس کا اندازہ ایسے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف2016 ء میں 420000،سےزائد چینی طلباءدیگر جامعات اور عمدہ کارکردگی کے تحقیقی مراکز سے تربیت حاصل کرکے واپس چین آئے ہیں اور چین کی معیشت کو چار چاند لگانے میں مصروف ہیں۔ اسکے برعکس پاکستان میں ہم ہرسال بیرون ملک ایک ہزار طالب علموںکوبھی بھیجنےکےقابل نہیں ہیں۔ اعلیٰ معیار کے سائنسدانوںاورانجینئروں کی ایک بڑی تعداد یعنی کم ازکم 3000 سائنسدان فی دس لاکھ آ بادی کی ضرورت ہیں۔ اس حساب سے پاکستان میں کل 660000،سائنس دان اورانجینئر ہونے چاہئیں جبکہ ملک بھر میں اس وقت صرف 30000، سائنسدان اورانجینئر ہیں۔ جدت طرازی کی ثقافت کوفروغ دینے کے لئےتیسرا اہم ستون سرکاری امدادہے۔ پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا ترقیاتی بجٹ2 ارب روپےسےبھی کم ہے. اس وقت ہم سائنسی اعلی تعلیم کےمقابلےمیں بسوں کےمنصوبوںپر 100 گنازیادہ خرچ کررہے ہیں۔یہ افسوس کا مقام ہے اور سمجھ سےباہرہے۔اس وقت ترقی کےنقطہ نظرسےایک بڑی تبدیلی اورحکمت عملی کی ضرورت ہے۔تعلیم و سائنس میں بنیادی تحقیق کی سہولت ابتدائی مراحل سے لے کر تجارتی بنیادوں پر مصنو عات کی تیاری تک فنڈزکی فراہمی انتہائی اہم ہے۔ اسکے علاوہ ایک متحرک پالیسی نافذ کرنے کےلئےہماری جی ڈی پی کاکمازکم 6-5٪ حصہ تعلیم کے لئے اور کم سےکم 3 فیصدسائنس کےلئےمختص کرنا بھی ضروری ہے۔ چوتھا اہم ستون حکومتی پالیسیاں ہیں۔ مناسب پالیسیاں ہرشعبے میں ترقی کے لئے بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ 2001ءمیں جب میں وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی (بشمول انفارمیشن ٹیکنالوجی) تھا تب میں نےITکی صنعت کوفروغ دینےکے لئے 15سال کےٹیکس کی چھٹی اور بڑی تعداد میں اقدامات کئے تھے۔ جس کے نتیجے میں آئی ٹی کی خدمات میں سو گنا اضافہ ہوا اور ان کی برآمدات2001 ءمیں 30 لاکھ ڈالر سالانہ سے بڑھ کر اس وقت تقریبا 3 ارب ڈالر ب سالانہ تک جاپہنچی ہیں۔ دارصل ہماری حکومتوں کو یہ سمجھنےکی شدید ضرورت ہے کہ ا یسا سازگار ماحول پیدا کیا جائے کہ ہماری کمپنیاںمغربی کمپنیوں سے مقابلہ کرسکیں۔باقی نجی شعبہ خود کر لے گا۔گزشتہ 15 سالوں کےدورانIT کے کاروبارکی شاندار توسیع اس قسم کے اقدام کی پرزوروضاحت کرتی ہے۔اسی طرح موبائل ٹیلی فون کی پاکستان بھر میں دھماکہ خیز ترقی و توسیع کی واضح مثال موجود ہے۔ بحیثیت وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی میں نے ایک فون کمنی کوایک مضبوط مدمقابل کےطورپر متعارف کرایا ،اورموبائل فون پر کالز وصول کرنےوالےافرادکےلئے کال وصولی پر رقم کی ادائیگی کو ختم کر دیا ۔ا ن اقدامات کے بعدپاکستان بھر میں موبائل ٹیلیفون اس تیزی سے پھیلے کہ اس کا اندازہ ایسے لگایا جا سکتا ہے کہ 2001ء میں موبائل فون کےصارفین کی تعداد صرف تین لاکھ سے بڑھ کر اب 15کروڑسےزائد تک جا پہنچی ہے۔ اسی طرح میں نے بحیثیت چیئر مین اعلیٰ تعلیمی کمیشن ، اعلی تعلیم کی ترقی کے لئے جس پالیسی پر عمل درآمد کیا ، بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں اور نتیجتاً 22 جولائی 2006ء کو بھارتی وزیر اعظم کو ایچ ای سی (H.E.C.) کےاقدامت کی تفصیلی رپورٹ ان کو پیش کی گئی (جس کی خبر اگلے ہی دن ہندوستان ٹائمز میں شائع ہوئی)۔جب میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھا اس وقت پاکستان میں نیشنل آئ سی ٹی آر اینڈڈی فنڈ منظور کیا گیا تھا ( جسے اب "Ignite" " چنگاری "کانام دیا گیا ہے )،اب پورےملک میں یہی اہم قومی ادارہ ہے جو جدت طرازی اور تحقیق کو تجارتی سطح تک پہنچانے کےماحولیاتی نظام کوفروغ دینےکے لئے وقف ہے ۔ اس ادارے کا اصل مقصد پاکستان میںچوتھے صنعتی انقلاب سے منسلک صنعتی ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے نئی تحقیق کے لئے فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے تاکہ پاکستان علم پرمبنی معیشت کاایک مضبوط کھلاڑی بن جائے۔ ان میں کثیر مواد، مکمل انٹرنیٹ،کلاؤڈ / سائبرکی حفاظت،روبوٹکس ،D 3/ 4Dپرنٹنگ،نیوروٹیکنالوجی (neurotechnology)اورجسم میں برقی اشیاءکی متبادل پیوند کاریاں بھی شامل ہیں۔یہی نہیں بلکہ یہ کمپنی ملک بھرمیں نئی کمپنیاں قائم کرنے کے لئے (incubation centers)کی سہولت کا سلسلہ قائم کر رہی ہے۔ جس کی بدولت ملکی ماحولیاتی نظام تخلیقی صلاحیتوںکو اجاگر کرنے میں اثر اندا ز ہوگا ۔اسکا تازہ ترین اقدام کیمیائی اورحیاتیاتی سائنس کےبین الاقوامی مرکز کے زیر سایہ جامعہ کراچی کےاندرایک مرکز کا قیام ہے۔ قومی جدت طراز پالیسی کاایک اہم پہلو یہ بھی ہونا چاہئے کہ ترقی کے عمل میں ہر طبقہ شامل ہوتاکہ دولت چندہاتھوںمیں نہ رہے اور امیر لوگ امیرترین نہ ہوتے جائیں جبکہ باقی ملک غربت سے دوچار رہے۔ کالجوں اور جامعات سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو نوکریاں تلاش کرنے کی بجائے اپنی کمپنیاں قائم کرنے کے مواقع دینے چاہئیں تاکہ وہ دوسرو ں کو نوکری دے سکیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں