Thursday / Jul 06 2023
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
ترقی پذیر ممالک میں سماجی و اقتصادی ترقی کا عمل ایک مشکل کام ہے۔ تاہم چین کی کامیابیوں سے سیکھنے کیلئے بہت کچھ ہے ، انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا کہ اتنی تیزی سے ڈیڑھ ارب افراد کی زندگیاں تبدیل ہوگئی ہوں۔ چین کو چار دہائی قبل احساس ہوا کہ سماجی و اقتصادی ترقی کا زیادہ تر انحصار اعلیٰ ٹیکنالوجی یعنی اعلیٰ قیمتی اشیا کی تیاری اور برآمد کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ لہٰذا ایسے شعبوں کوترجیح دےکر حکومتی اور نجی تحقیق اور ترقی کے اداروں کو مالی تعاون فراہم کیا گیا ۔ساتھ ہی 2000 ءسے 2022ءکے درمیان تحقیق اور ترقی کے اخراجات میں سالانہ 18فیصد اضافہ کیا گیا۔ نتیجتاً چین نے 2020ءمیں جدت طرازی میں عالمی سطح پر امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا، اب چین کے امریکہ کے مقابلے میں سالانہ دائر کردہ بین الاقوامی پیٹنٹ کی تعداد کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔ ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کے مطابق گزشتہ 20سال کے دوران چین کی جانب سے جاری بین الاقوامی پیٹنٹ کے اعداد و شمار میں حیران کن طور پر 200گنا اضافہ ہوا ہے۔ جدت طرازی اور نئی ٹیکنالوجی کی مصنوعات کو فروغ دینے اور تیز ترین ترقی میں اسپارک پروگرام کو خاص اہمیت حاصل ہے، اس نے چین کی تکنیکی اور اقتصادی ترقی کی بنیاد رکھی، اسپارک پروگرام نے کاروبار کی حوصلہ افزائی کیلئےچھوٹی و درمیانی کمپنیوںکو مالی امداد فراہم کی، چین میں نئے کاروبار کرنے میں مدد کی گئی جو نجی شعبے کی ترقی کا باعث بنی اور چین کی اقتصادی ترقی کے پیچھے ایک طاقتور محرک بن گئی۔ اسپارک پروگرام نے تحقیق اور ترقی کیلئے بھی فنڈنگ کی، جس سے نئی ٹیکنالوجیز اور مصنوعات کی تیاری میں ترقی ہوئی اور مختلف صنعتوں میں پیداواریت اور مسابقت کو بہتر بنانے میں مدد ملی۔ اسپارک پروگرام نے ان کلیدی ٹیکنالوجیز پر توجہ مرکوز کی جو چین کی ترقی کیلئے اہم تھیں،جیسے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ، بائیو ٹیکنالوجی ، جدیدسامان سازی، ـنینو ٹیکنالوجی، توانائی اور خلائی انجینئرنگ ،ان ابھرتے ہوئے شعبوں میں مہا ر ت نے چین کی تکنیکی صلاحیتوں کو استوار کرنے میں مدد کی اور مستقبل کی ترقی کی بنیاد رکھی۔ اسپارک پروگرام نے غیر ملکی جامعات اور کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ تحقیقی منصوبوں کیلئے فنڈ فراہم کرکے بین الاقوامی تعاون کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ اس سے چین اور باقی دنیا سے تعلقات بنانے، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور علم کے تبادلے میں بھی کافی مدد ملی۔ قومی سائنس اورٹیکنالوجی کے اہم منصوبوں کے انتظامی اقدامات پہلی بار1997ءمیںکئے گئے پھر2019ءمیں انکی تجدید کی گئی ۔ چینی سائنس اور ٹیکنالوجی کے بڑےمنصوبوں کے انتظامات، دانشورانہ املاک کے تحفظ ،پیٹنٹ قانون اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کیلئے ایک فریم ورک قائم کرتے ہیں ۔عوامی جمہوریہ چین کا کاپی رائٹ قانون سب سے پہلے بالترتیب 1984ءاور 1990ءمیں نافذ کیا گیا تھا۔اس کے بعد کئی بار ضرورت کے مطابق اس کی تجدید بھی کی گئی ۔چین کی جانب سے سائنس، ٹیکنالوجی اور اعلیٰ تعلیم کے شعبوںکو مضبوط بنانے کیلئے کئی دیگر اقدامات بھی کئے گئے۔ 973 پروگرام، جسے قومی بنیادی تحقیقی پروگرام بھی کہا جاتا ہے1997ءمیں شروع کیا گیا جس نے بائیو ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، اور ماحولیاتی سائنس جیسے اہم شعبوں میں بنیادی تحقیق کیلئے فنڈز فراہم کئے۔ 863پروگرام ، جسے قومی اعلیٰ تکنیکی تحقیق و ترقی پروگرام کے نام سے بھی جانا جاتا ہے1986ءمیں شروع کیا گیاجس نے اعلیٰ تکنیکی شعبوں مثلاً خلائی انجینئرنگ ، توانائی، اور ٹیلی مواصلات میں تحقیق اور ترقی کیلئے فنڈز فراہم کئے۔ اسی طرح 2006ء میں شروع کئے گئے قومی جدت طرازی کے نظام کا مقصد جامعات، تحقیقی اداروں اور صنعت کے درمیان روابط کو بہتر بنا کرجدت طرازی کو فروغ دینا تھا۔ چانگ جیانگ اسکالرز پروگرام1998ءمیں شروع کیا گیا ، جسکا مقصد دنیا بھر کے اعلیٰ اسکالرزکو چینی جامعات اور تحقیقی اداروں میں کام کرنے کیلئے راغب کرنا تھا۔اسکے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری سے تیز ترین پیشرفت ہوئی ، جسکے نتیجے میں تقریباً600000چینی طلباء کو سالانہ پی ایچ ڈی یا پوسٹ ڈاکٹریٹ تربیت کیلئے بیرونِ ملک اعلیٰ ترین مغربی جامعات میں بھیجا جاتا ہے جبکہ سائنسی علوم میں تربیت یافتہ 5لاکھ پیشہ ور افراد سالانہ واپس آ رہے ہیں اور صنعتی افرادی قوت، مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپیوٹنگ، روبوٹکس، صنعتی بائیو ٹیکنالوجی، توانائی ذخیرہ کرنے کے نظام اور دیگر شعبوں میں شامل ہورہے ہیں، اس بڑے پیمانے پر اعلیٰ تعلیم یافتہ تکنیکی طور پر قابل افرادی قوت کی شمولیت سےچین کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کے سامان کی تیاری اور برآمد کرنے کی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی شعبے کو مضبوط بنانے کیلئے چین نے بہت سے اہم پروگرام شروع کئے تھے۔ 1995ء میں شروع کیا گیا منصوبے211کا مقصد چینی جامعات میں تعلیم اور تحقیق کے معیار کو بہتر بنانا تھا۔ یہ منصوبہ منتخب جامعات کو تحقیق اور تعلیم کے عالمی معیار کے حصول کیلئے فنڈنگ اور مدد فراہم کرتا ہے۔ 1998ءمیں شروع ہونیوالے منصوبے 985نے چین میں عالمی معیار کی جامعات بنانے میں مدد کی۔ اس منصوبے کے تحت منتخب جامعات کو قرضے اورمالی معاونت فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ اعلیٰ تحقیقی مراکزقائم کر سکیں۔ اسی طرح کا ایک اور پروگرام 2015میں شروع کیا گیا، اس ڈبل فرسٹ کلاس انیشی ایٹو کے تحت چین کی بڑی جامعات کو اعلیٰ بین الاقوامی درجہ حاصل کرنے میں مددملی ۔ دیگر اقدامات کے نتیجے میں، چین کمزور زرعی معیشت سے مضبوط ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت کی طرف تیزی سے منتقلی میں کامیاب ہوا ۔ خلاصہ یہ کہ ہمیں آگے بڑھنے اور چین کی تیز رفتار سماجی و اقتصادی ترقی کی مثال کو سامنےرکھتے ہوئے دوٹوک حکمت عملی بنانی چاہئے۔ پہلی توجہ پائیدار اور مساوی سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے سائنس، ٹیکنالوجی، تعلیم اور تحقیق کو کلیدی ستون بنانے کے اقدامات پر مرکوز کرنی چاہئے ۔ تب ہی پاکستان تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں