تھیلی سیمیا سے بچاؤ اور آگاہی

Wednesday / Aug 09 2023

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

تھیلیسیمیا(Thalassemia) پاکستان اور دیگر جنوب ایشیائی ممالک میں بہت زیادہ پائی جانیوالی والی بیماری ہے۔ تھیلیسیمیا بین الاقوامی تنظیم کے مطابق،اس بیماری کے سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ہے ، جہاں ایک اندازے کے مطابق 5-7 فیصد آبادی تھیلیسیمیا کےمرض میں مبتلا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں تقریباً 10 ملین افراد تھیلیسیمیا کا شکار ہیں ۔تھیلیسیمیا ایک جینیاتی بیماری ہے جو خون میں موجود ایک گروپ میں خرابیوں کی وجہ سے وجود میں آتی ہے ،یہ گروپ خون میں موجود سرخ خلیوں (Red Blood Cells) کے لحمیات (Protein) تک آکسیجن کی فراہمی کو روکتا ہے جس کی وجہ سے سرخ خلیوں (hemoglobin) کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ یہ حالت جینز میں تغیرات (mutations) کی وجہ سے ہوتی ہے جو سرخ خلیوں کی پیداوار کو قابوکرتے ہیں۔ تھیلیسیمیا دنیا کے بہت سے حصوں میں عام ہے، خاص طور پر بحیرہ روم کے ممالک،جنوب مشرقی ایشیا میں تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور لاؤس (Laos) میں ۔ بحیرہ روم کے علاقے میں، سب سے زیادہ قبرص، یونان اور اٹلی میں اسکے مریض ہیں۔

بحیرہ روم کے علاقے اور جنوب مشرقی ایشیا کے علاوہ تھیلیسیمیا مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں بھی پایا جاتا ہے۔ ان خطوں میں ایران، عراق اور مصر جیسے ممالک میں یہ زیادہ عام ہے۔ تھیلیسیمیا دنیا کے دیگر حصوں میں بھی پایا جاتاہے، بشمول جنوبی اور وسطی امریکہ، کیریبین (Caribbean) ، اور ریاست ہائے متحدہ کے کچھ حصوں میں ۔

پاکستان کے علاوہ، تھیلیسیمیا دیگر جنوب ایشیائی ممالک بشمول بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال میں بھی عام ہے۔ ہندوستان میں، یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ تھیلیسیمیا کے 40 ملین سے زیادہ کیریئرز ہیں، جن میں مہاراشٹر، گجرات اور پنجاب کی ریاستوں میں سب سے زیادہ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ بنگلہ دیش میں تھیلیسیمیا سے تقریباً 7 فیصد آبادی متاثر ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ سری لنکا میں، یہ اندازہ تقریباً 2فیصدہے، جبکہ ملک کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں اس کی شرح زیادہ ہے۔ نیپال میں، تھیلیسیمیا کا پھیلاؤ نسبتاً کم ہے، جس میں اندازے کے مطابق کیریئر کی شرح تقریباً 1فیصد ہے۔

جنوب ایشیائی ممالک میں تھیلیسیمیاکا زیادہ پھیلاؤ کئی عوامل کے مجموعے کی وجہ سےہے،مثلاً بیماری کے بارے میں آگاہی کی کمی اور جانچ اور علاج تک محدود رسائی میں تاخیراور کمی، خاندان میں متواتر شادیوں کی بلند شرح، ہم آہنگی کی شادیاں، جہاں افراد قریبی رشتہ داروں سے شادی کرتے ہیں، بہت سے جنوب ایشیائی ممالک میں یہ رواج عام ہیں جن کی وجہ سے تھیلیسیمیا اور دیگر جینیاتی امراض کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے ۔ تھیلیسیمیا کی جینیاتی بنیاد اس کے پھیلاؤ کی بلند شرح کا سب سے بڑا سبب ہے ، کیونکہ بہت سے کیریئرز اس بات سے واقف نہیں ہوتے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ بیماری منتقل کررہے ہیں۔ علاج کی خدمات تک محدود رسائی بھی پھیلاؤ کی شرح میں اضافے کابڑا سبب ہے، کیونکہ افراد اس نگہداشت تک رسائی نہیںرکھتے جس کی انہیں ضرورت ہو تی ہے۔

جنوب ایشیائی ممالک میں تھیلیسیمیا کے زیادہ پھیلاؤ سے نمٹنے کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان میں مرض کے بارے میں آگاہی میں اضافہ، شادی سے پہلے جانچ اور مشاورت کو فروغ دینا، جانچ اور علاج کی خدمات تک رسائی کو بہتر بنانا شامل ہے۔ تاہم، ان ممالک میں تھیلیسیمیا کی روک تھام اور انتظام کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اور جانچ اور علاج کے پروگراموں میں زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ تھیلیسیمیا کے شکار افراد صحت مند زندگی گزار سکیں۔

تھیلیسیمیا کی دو قسموں میں درجہ بندی کی جاتی ہے، الفا تھیلیسیمیا (Alpha Thalassemia) اور بیٹا تھیلیسیمیا (Beta Thalassemia) ، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کونسی گلوبن زنجیر متاثر ہوئی ہے۔ الفا تھیلیسیمیا الفا گلوبن جین میں تغیرات (mutations) کی وجہ سے ہوتا ہے، جبکہ بیٹا تھیلیسیمیا بیٹا گلوبن جین میں تغیرات (mutations) کی وجہ سے ہوتا ہے۔

الفا تھیلیسیمیا کی چار اقسام ہیں، جن کا انحصار الفا گلوبن جینز کی تعداد پر ہوتا ہے۔ الفا تھیلیسیمیا کی اس قسم میں، صرف ایک الفا گلوبن جین متاثر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں خون کی ہلکی کمی ہوتی ہے۔ ہیموگلوبن ایچ (Hemoglobin H) کی بیماری میں، تین الفا گلوبن جین متاثر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں معتدل سے شدید خون کی کمی ہوتی ہے۔ الفا تھیلیسیمیا میجر(Alpha Thalassemia Major) میں، چاروں الفا گلوبن جین متاثر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں پیٹ میں پانی بھر جاتا (Fetal Hydrops) ہے، یہ ایسی حالت ہے جو عام طور پر مہلک ہوتی ہے۔

نوعیت کی شدت کے لحاظ سے بیٹا تھیلیسیمیا کی دو قسمیں ہیں۔ بیٹا تھیلیسیمیا کی ایک قسم میں، صرف ایک بیٹا گلوبن جین متاثر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں خون کی ہلکی کمی ہوتی ہے۔ بیٹا تھیلیسیمیا میجر (Beta Thalassemia Major) میں، بیٹا گلوبن کے دونوں جین متاثر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں خون کی شدید کمی (anemia) ہوتی ہے۔

بیٹا تھیلیسیمیا میجر کے علاج میں زندگی بھر خون کی منتقلی شامل ہو سکتی ہے۔تھیلیسیمیا خون کی کمی، تھکاوٹ اور دیگر صحت کے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ علاج میں خون کی منتقلی، آئرن کیلیشیم تھراپی، اور بون میرو ٹرانسپلانٹ شامل ہو سکتے ہیں۔سادہ زبان میں اگر شوہر اور بیوی چھپے ہوئے تھیلیسیمیا کا شکار ہیں تو آنے والا بچہ بڑے تھیلیسیمیا کا شکار ہو گا جس کا مطلب ہے تا حیات خون کی کمی کے باعث خون کی منتقلی اور عمر کی میعاد 15-17 سال۔

صحت مند سرخ خون کے خلیات کی کمی کی وجہ سے تھیلیسیمیا کے شکار افراد کو اکثر تھکاوٹ اور کمزوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا افراد کی جلد پیلی یا زردی مائل ہو جاتی ہے۔خون کی کمی (anemia) سانس کی قلت کا سبب بن سکتی ہے، خاص طور پر جسمانی سرگرمی یا مشقت کے دوران۔تھیلیسیمیا کی شدید صورتوں میں، جسم بہت زیادہ سرخ خون کے خلیات پیدا کر سکتا ہے، جس کی وجہ سے تلی اور جگر بڑھ جاتا ہے۔تھیلیسیمیا کے شکار بچے صحت مند خون کے خلیات پیدا کرنے کی قدرتی صلاحیت نہیں رکھتے جس کے باعث لاغر اور ُکمزور رہ جاتے ہیں۔ یہ بیماری ہڈیوں کی خرابی کا سبب بھی بن سکتی ہے، خاص طور پر چہرے اور کھوپڑی کی ہڈیوں پریہ زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔

بچاؤ علاج سے بہتر ہے اسلئے اگر تھیلیسیمیا کی روک تھام کی جائے تو مریض اور انکے لواحقین کو بہت زیادہ جذباتی و ذہنی صدمے سے بچایا جا سکتا ہے اور اسکے لئے شادی سے پہلے مرد اور خواتین کا تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروا لیا جائے تو آنے والی نسلوں کو اس جان لیوا مرض سے بچایا جا سکتا ہے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں