جینیات میں حیرت انگیز پیش رفت

Saturday / Jun 10 2017

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

لاکھوں افراد کیلئے اندھے پن کا صرف ایک ہی علاج سمجھا جاتا ہے اور وہ ہے دوسرے افرادکاکارنیا (Cornea)عطیہ میں مل جانا،جوکہ بہت ہی کم ہوپاتاہے،چنانچہ ہرسال ایک بڑی تعدادکارنیا نہ ملنےکی وجہ سےنابیناپن کاشکارہوجاتی ہے۔صرف یورپ میں اسوقت40,000 افراد ایسے ہیں جن کو آنکھوں کے کارنیا کی ضرورت ہے۔جرمنی کے فران ہوفر انسٹی ٹیوٹ آف اپلائڈ پولی مر ریسرچ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جوچیم اسٹورس برگ نے پولی مرسے مصنوعی کارنیا تیار کر لیاہے ۔ جس کو ارد گر کے خلیات کے ساتھ اچھی طرح ٹانک دیا جاتا ہے ۔اور اس کی مدد سے آنکھ کے پپوٹے بغیر کسی رگڑ کے حرکت کرتے ہیں۔اس دریافت کو 2010 کا فران ہوفر ایوارڈبھی دیا گیا ہے۔ اسی طرح کی ایک اور پیش رفت ہاورڈ میڈیکل اسکول سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں نے کی ہے۔ انہوں نےایک ایسی چمکدار روشنی تیار کی ہے جس کی مدد سے جلد کے زخم ٹھیک ہوجاتے ہیں ۔ اس طریقہ کار کو ’’Photochemical Tissue Bonding‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ اس طریقے سے ٹانکوں ، بینڈیج اور گوند کی ضرورت نہیں ہو تی ۔ اس میں زخم کے اوپر ایک رنگ (dye) کا استعمال کیا جاتا ہے جسکے بعد اس پر ایک خاص سبز رنگ کی روشنی ڈالی جاتی ہے ۔رنگ روشنی کو جذب کرلیتاہے جو پروٹین کو اس جگہ بندھنے میں مدد فراہم کرتاہے ۔ اسی طریقہ کار کو کارنیا کو جوڑنے کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ،اسکے علاوہ کارنیا کو جوڑنے کیلئے اسٹیم سیل کا استعمال بھی کیا جارہا ہے ۔کلوننگ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعےآپ کسی بھی پودے یا جانور کا ہو بہوویسا ہی دوسرا ساتھی تیار کر سکتے ہیں۔یہ ٹیکنالوجی انتہائی تیز رفتاری کیساتھ آگے بڑھ رہی ہے اوراس میں روز بروز نئی دریافتیں سامنے آرہی ہیں، اس ٹیکنالوجی کی مدد سے اب قدیم ناپید جانوروں کی کلوننگ کا خواب حقیقت میں تبدیل ہونے جارہا ہے ۔ یہ حقیقت اس وقت سامنے آئی جب کوبے ، جاپان کے رائیکن مرکز برائے ترقیاتی حیاتیات کےDr.Teruhiko Wakayamaنے کامیابی کیساتھ ایک چوہے کے ٹشوکو جو کہ سولہ سال قبل برف میں جمایا گیا تھا، استعمال کرتے ہوئے دوبارہ ویسا ہی زندہ چوہا تیار کرلیا۔ اسی تکنیک کو ہاتھی نما جانورمیمتھ کی کلوننگ کیلئے بھی اختیار کیاجا رہا ہے ۔میمتھ کی نسل ساڑھے چار ہزار سال قبل ختم ہو گئی تھی مگر ان کی باقیات سائبیریا کی برف میں دفن مل سکتے ہیں ۔ 1330ء اور 1347 ء کے درمیان ایک مہلک وبائی مرض ’’طاعون‘‘ کی وجہ سے دنیا کی ایک تہائی آبادی ہلاکت کا شکار ہوگئی تھی۔ اسی وجہ سے اس بیماری کو ’’سیاہ موت‘‘ کا نام دیا گیاتھا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ بیماری 1330 ء کی دہائی میں ایشیا کے شمالی حصوں سے ابھری تھی اور 1940ء کی دہائی میں یہ و با یورپ پہنچی جس نے پوری دنیا میں ساڑھے سات کروڑ افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ اب طاعون کا سبب بننے والے بیکٹیریا کے پورے جینوم کی سلسلہ بندی کینیڈا کی جامعہMcMaster اور جرمنی کی Tubingen جامعہ کے سائنس دانوں نے کی ہے۔ اس بیکٹیریا کے باقیات لندن میں ان افراد کی قبروں سے حاصل کئےگئے ہیں جو کہ اس مرض سے ہلاک ہوگئے تھے۔اب بھی چودھویں صدی میں بڑے پیمانے پر موت کا سبب بننے والے طاعون سے ہر سال تقریباً 2000افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ طاعون کے بیکٹیریاکی جینیاتی ساخت کو سمجھ کر اس مہلک مرض کا علاج دریافت کیا جاسکتا ہے ۔ نیز اس تحقیق سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ یہ بیکٹیریا کس طرح صدیوں میں ارتقاء پذیر ہوا۔ جینوم کی سلسلہ بندی کی ٹیکنالوجی نے ادویات کے میدان میں بالکل نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ جرثومہ کی ساخت کا فہم علاج کیلئے نئی دواؤں کی تیاری کیلئے استعمال کیا جاسکے گا۔ اسی طرح انسانی جینوم کی تیز رفتار سلسلہ بندی کئی اقسام کی جینیاتی بیماریوں کے حوالے سے وسیع معلومات فراہم کریگی۔ ان معلومات سے انفرادی دواؤں کے میدان میں ہونیوالی تیز رفتار جدید پیش رفت کے بعد مختلف آبادیوں اور گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی انفرادی دوائیں تیارکی جاسکتی ہیں۔بچوں کیلئے ماں کے دودھ کے فوائد عمومی طور پر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ماں کے دودھ میں پائے جانیوالے امائینو ایسڈ (جن سے پروٹین کی تعمیر ہوتی ہے) بچے کیلئے نہایت مفید ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماں کے دودھ میں پائی جانے والی شکر اور چکنائی گائے یا بھینس کے دودھ کے مقابلے میں کہیں بہتر ہوتی ہے۔ماں کے دودھ میں موجود انزائمز، وٹامن اور معدنیات بچوں کی آنتوں کیلئے بہت اچھے ہوتے ہیں اور یہ نظام خوراک ہضم کرنےمیں مدد کرتے ہیں۔ ماں کے دودھ میں پایا جانیوالا ایک اور اہم جزو بیماری سے جنگ کرنیوالی اینٹی باڈیز ہیں جو کہ بچوں کو پرانے اور شدید امراض سے محفوظ رکھتی ہیں بالخصوص چند ماہ کی عمر کے بچوں کو۔ تاہم اکثر مائیں اتنا دودھ فراہم کرنے سے قاصر رہتی ہیں جو کہ بچے کیلئے کافی ہو۔ جسکی وجہ سے انہیں پاؤڈر کے دودھ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر بن یینگ کی سربراہی میں چین کی ایک لیباریٹری میں کام کرنے والے سائنس دانوں اور بیجنگ کی چینی زرعی جامعہ کے سائنسدانوں نے اس کا ایک اہم حل دریافت کیا ہے۔ انہوں نے ایسی جینیاتی ترمیم شدہ گائے تیار کی ہیں جو انسانی دودھ کی خصوصیات کا حامل دودھ فراہم کرتی ہیں۔ یہ کام کلون کی گئی گائے کے جینین میں انسانی دودھ کی خصوصیات ڈال کر انجام دیا گیاہے۔ بعدازاں ان جینین کوحاملہ کی گئی گائیں میں داخل کردیا گیا۔ ان سے پیدا ہونے والے بچھڑے انسانی دودھ جیسا دودھ پید اکرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھے۔ اس دودھ میں انسانی دودھ کے مساوی انفیکشن سے لڑنے کی صلاحیت موجود تھی۔ نیز یہ عام گائے کے دودھ کے مقابلے میں زیادہ قوت بخش اور غذائیت سے بھرپور اور میٹھا تھا۔ توقع ہے کہ یہ دودھ تین سال کے اندر سپرمارکیٹ میں فروخت کیلئے مناسب مقدار میں موجود ہوگا۔’’ہمیشہ جوان رہنے کا راز‘‘ صدیوں سے کہانیوں اور انسانوں کا موضوع رہا ہے۔ اب حیاتیاتی سائنس اس کو حقیقت میں تبدیل کرنے جارہی ہے۔ ادویاتی کیمیااور جینومکس میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کی وجہ سے ہم اس نظام کو سمجھنے کے قابل ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے حیاتیاتی گھڑی ہمارے اندر ٹک ٹک کررہی ہے۔ یہ سمجھ بیکٹیریا، مکڑیوں، کیڑے مکوڑوں، حشرات الارض، چوہوں اور دوسرے جانوروں پر تحقیق کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ اس کی وجہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے خلیات زندہ رہتے ہیں۔ نمو پاکر بوڑھے ہوتے ہیں اور بالآخر ہلاک ہوجاتے ہیں۔کیلیفورنیا یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا ہے کہ پھلوں کی مکھی کی آنتوں میں پائے جانیوالے خلیات کے ایک جین (d PGC-1) میں ترمیم کرکے پھلوں کی مکھی کی اوسط عمر میں50 فی صد اضافہ ہوجاتا ہے۔یہ جین انسانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں سوئیڈش سائنس دانوں نے 2011 ء میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ کم کھا کر زندگی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ہمارے خلیات میں بعض مائی ٹو کونڈریا ہوتے ہیں جو کہ ہماری خوراک سے شکر اور چکنائی کو لے کر اس کو توانائی میں تبدیل کرتے ہیں۔ اگر کم حرارے والی خوراک استعمال کی جائے تو ان کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس سے ہماری زندگی کے دورانیے میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ طویل عرصے تک زندہ رہنے کا ایک طریقہ کم کھانا ہے۔ لہٰذا یہ بات سچ محسوس ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے ہم سب کی خوراک کی ایک مقدار متعین کردی ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ اس کو30سال میںکھا کرختم کردیں یا اسکو 120 سال میں کھائیں۔ مکڑی بلاشبہ ایک حیران کن تخلیق ہے۔ اب تک انسان کے علم میں مکڑی کی چار لاکھ اقسام ہیں۔ ریشم کی مکڑی جو دھاگا بناتی ہے وہ وزن برائے وزن کے حوالے سے اسٹیل سے زیادہ مضبوط ہے۔ وہ گوند جو مکڑی کےجال کو تھام کر رکھتی ہے، اس کے اندر دو اقسام کے لحمیات ہوتے ہیں جو کہ ہزاروں سال میں ارتقاپذیر ہوکر اس طاقت کے حامل ہوئے ہیں۔ جگنو ایک اور حیران کن کیڑا ہے۔ کیا آپ نے جگنو کو رات کے وقت چمکتے ہوئے دیکھاہے؟ اس کی وجہ ان میں موجود ایک خاص لحمیہ لیوسی فریز ہے جس سے ایک کیمیائی عمل کے تحت روشنی کی شکل میں توانائی پیدا ہوتی ہے۔ جامعہ ٹفٹ کے پروفیسر ڈیوڈ کپلان اور ان کے ساتھیوں نے ریشم کے دھاگے میں ترمیم کرکے اس میں جگنو کی پروٹین سے ملاپ کیا ہے اور اس ملاپ کے ذریعے چھاتی کے سرطان کا علا ج کیا جاسکے گا۔ یہ علاج جین میں تبدیلی سے کیا جاتا ہے ۔اس عمل کے نتیجے میں ایسے سرطان کے خلیات بنتے ہیں ہے جو جگنو کی طرح چمکتے ہیں۔ اس کے ذریعے سرجن آپریشن کے دوران سرطان کے مریضوں میں ان خلیات کی آسانی سے شناخت کر سکتے ہیں اور سرطان سےمتاثر حصے کو آسانی سے تشخیص کرکے نکال سکتے ہیں۔ہر جانور اور ہر پودے میں اللہ تعالی نے ایک کیمیائی گھڑی نصب کر رکھی ہے اسکو انسانوں میں Cycardian Rythms کہا جاتاہے۔ یہ عام طور پر 24گھنٹے کا دورانیہ مکمل کرتے ہیں۔ پودوں میں اسی طریقہ کار کے ذریعے شفاعی تالیف کے عمل کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور اسی گھڑی کے ذریعے پودوں کو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ پھول کے کھلنے کا بہترین وقت کونسا ہے ، اور کب پھل دینا چاہئےتاکہ کیڑوں کو اپنی جانب راغب کیا جائے اور پودوں کی افزائش کا عمل جاری رہے ۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں