Monday / Apr 22 2024
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
پاکستان کی ڈوبتی صنعت و معیشت کو بچانے کیلئے فوری مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے ایک اہم عنصر جس پر غور کیا جانا چاہئے وہ مناسب بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہے جو ہموار کاروبار کیلئے ضروری ہے۔ حکومت کو سڑکوں،بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، اور ڈیجیٹل رابطہ کاریوں جیسے بنیادی ڈھانچوں کی ترقی اور دیکھ بھال میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔ مثال کے طور پر، کراچی کے سائٹ ایریا میں، کپڑا رنگائی کی زیادہ تر صنعتیں بند ہو چکی ہیں کیونکہ رنگنے کیلئے ضروری پانی فراہم کرنیوالے پانی کے پائپوں کی گزشتہ 15سال سے مرمت نہیں کی گئی! شکایات کی کوئی سنوائی نہیں ہوتی، اور بدعنوان اہلکاروں کو انکی غلطیوںپرکوئی سزا نہیں دی جاتی۔ اسکے نتیجے میں سائٹ ایریا میں کپڑا سازی کی صنعت تباہی کا شکار ہے اور زیادہ تر صنعتیں بند ہو چکی ہیں، کچھ کورنگی کے علاقے میں منتقل ہو گئی ہیں یا بہت سے صنعتکار بنگلہ دیش منتقل ہو گئے ہیں۔ کاروباریوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے کام کرنے کیلئے قابل اعتماد توانائی کی فراہمی ایک اور اہم عنصر ہے۔ قابل تجدید توانائی کے ذرائع میں سرمایہ کاری نہ صرف پائیداری میں اہم کردار ادا کرتی ہے بلکہ کاروبار کیلئے ایک مستحکم توانائی کی فراہمی کو بھی یقینی بناتی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان میں بجلی کے بار بار بند ہونے کے باعث صورتحال بہت خراب ہے، جس کی وجہ سے زیادہ تر صنعتوں کو بجلی کے مہنگے جنریٹر لگانے اور چلانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جائیداد کے حقوق کے تحفظ، معاہدوں کو نافذ کرنے اور تنازعات کو حل کرنے کیلئے ایک مضبوط قانونی اور عدالتی ڈھانچہ ضروری ہے۔ ہمیں قانونی اصلاحات کے نفاذ پر توجہ دینی چاہیے جو معاہدے کے نفاذ کو آسان بنائیں اور تنازعات کا بروقت حل فراہم کریں۔ اس کیلئے خصوصی تجارتی عدالتوں کا قیام لازم ہے جن میں تین ہفتوں کے اندر تنازعات کو حل کرنے کی لازمی حد ہونی چاہئے، نیزتنازعات کے حل کے متبادل طریقہ کار کو متعارف کرانا، اور عدلیہ کی مکمل آزادی کو یقینی بنانا شامل ہے۔سرمایہ کاروں میں اعتماد پیدا کرنے کیلئے واضح اور قابل نفاذ دانشورانہ املاک کے حقوق بہت ضروری ہیں۔ ہمیں زمین کی رجسٹریشن کے نظام کو جدید بنانے، جائیداد کے لین دین کی پیچیدگی کو کم کرنے، اور املاک دانش کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان پیٹنٹ آفس کو قابل عملہ اور بین الاقوامی معیار کے تشخیصی نظام کیساتھ مکمل نئے طرز پر قائم کرنیکی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت ہم اس سلسلے میں پتھر کے دور میں رہ رہے ہیں۔کاروبار کی ترقی کیلئے ایک منصفانہ اور موثر ٹیکس نظام بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں، حکومتیں جاگیردارانہ تسلط کے زیر سایہ ہیں اسلئے زرعی ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے اور ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت کا تصور، جو سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے ضروری ہے، عملی طور پر غیر موجود ہے۔ ہمیں فوری طور پر زمینی اصلاحات کو نافذ کرنا چاہیے،زراعت پر ٹیکس لگانا چاہیے تاکہ صنعت کو مجموعی ٹیکس کے بوجھ سے کچھ آرام مل سکے، اور ٹیکس کوڈ کو آسان بنانے، ٹیکس کی تعمیل کے بوجھ کو کم کرنےاور شفافیت کو یقینی بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ نجی کمپنیوں پر ٹیکس کی شرح کو کم کرنے سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکتا ہے اور کاروبار کو وسعت دینے کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔تحقیق اور ترقی، جدت طرازی اور ملازمتوں کی تخلیق کے لیے ترغیبات متعارف کرانے سے معاشی ترقی کو مزید تحریک مل سکتی ہے۔ ایک ہنر مند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت معاشی ترقی کا ایک اہم محرک ہے۔ ہمیں تعلیم اور ہنر کی ترقی کے پروگراموں میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ افرادی قوت کاروباری ماحول کے بدلتے ہوئے تقاضوں کیلئے ضروری مہارتوں سے لیس ہے۔
اسی طرح
آسان
کاروباری
ماحول Ease of Doing Business
پیدا کرنا بھی
بہت ضروری
ہوگا جو جدت
طرازی کیلئے
سازگار ہو ۔
پاکستان EoDB
فہرست میں 108 ویں
نمبر پر ہے۔
فہرست کی یہ
نچلی سطح غیر
ملکی سرمایہ
کاری کیلئے ایک
بہت بڑی رکاوٹ
ہے کیونکہ غیر
ملکی کمپنیاں
ایسے ملک میں
سرمایہ کاری
نہیں کرنا
چاہتیں جہاں
کاروبار کرنے
میں بہت دشواریاں
ہوں۔ سست افسر
شاہی ،طریقہ
کار،
کاروباروں کی
منظوری کی طویل
مدت اور ضرورت
سے زیادہ کاغذی
کارروائیاں
بدعنوانیوں
کو فروغ دیتی
ہیں اور سرمایہ
کاروں کو روکتی
ہیں۔ اسلئے ہمیں
تمام منظوری
کےطریقہ
کارکو آسان
اور کمپیوٹر
سے مرتب کردہ
پروگراموں
کےذریعے کرنے
کی ضرورت ہے
تاکہ تمام
دفتری
معاملات کی
تعمیل کیلئے
درکار وقت اور
محنت کو کم کیا
جا سکے۔اس کیلئے
آن لائن ویب
اندراجات کا
نفاذ، انسانی
مداخلت کے بغیر
دستاویزات کا
آن لائن
اندراج و
خودکار منظوری
کے نظام کا
نفاذ نہ صرف
عمل کو تیز
کرتا ہے بلکہ
کسی بھی قسم کی
بدعنوانی کے
خدشات کو بھی
خارج کرتا ہے
۔ سنگاپور
عالمی EoDB
اشاریہ جات میں
مسلسل اعلیٰ
مقام پر ہے۔
سنگاپور نے BizFile آن
لائن پورٹل کے
ذریعے اپنے
کاروباری
اندراج کے عمل
کو ہموار کیا،
جس سے وقت اور
کاغذی
کارروائی کی
ضرورت کم ہو
گئی۔آج
سنگاپور میں
نئے کاروبار کی
منظوری صرف 24
گھنٹوں میں
مکمل ہو جاتی
ہے جبکہ
پاکستان میںکئی
مہینے لگ جاتے
ہیں ۔ مالیات
تک آسان رسائی
کاروبار کی
کامیابی کا ایک
اور اہم عنصر
ہے، خاص طور
پر چھوٹے اور
درمیانے درجے
کے کاروباری
اداروں کیلئے
پاکستان کو ایسے
منصوبے ترتیب
دینے چاہئیں
جو کاروباری
اداروں کیلئے
قرض کی فراہمی
کوآسان بنائیں۔
اس میں سب سے
اہم ایک مضبوط
معلوماتی
نظام برائے
قرضداران،
قرض ضمانت
منصوبوں کا قیام،
اور کاروباری
افراد میں مالی
خواندگی کو
فروغ دینا
شامل ہو نا
چاہئے۔ نئے
کاروباروں کیلئے
قرضےاورنئے
سرمایہ کاری
کے جال کی
حوصلہ افزائی
بھی نئے
کاروباریوں کی
مدد کرنے کے
رواج کو فروغ
دینے میں
مددگار ثابت
ہوسکتی ہے۔
آئی ایم ایف
کے حکم پر سود
کی شرح میں بے
حد اضافے نے
پاکستان کی
صنعت کو موت
کے دہانے پر
لاکھڑا کیا ہے
اور پاکستان کی
بیشتر صنعتوں
کو ایک ہی
جھٹکے میں
تباہ کر دیا
ہے۔ برآمدی
صنعتوں کے
قرضے پر جو فیس
لی جائے اسکی
زیادہ سے زیادہ
حد 3 فیصد ہونی
چاہیےاور سود
پر پابندی ہونی
چاہئے تاکہ
صنعتیں پھل
پھول سکیں۔
اسٹیٹ بینک کو
اس کیلئے فوری
مداخلت کرنی
چاہئے۔ اس وقت
بینک تو 20فیصد
سے 24فیصدکی
شرح سود کی
وجہ سے پنپ
رہے ہیں جبکہ
صنعت دم توڑ
رہی ہے۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں