سائنس اور ٹیکنالوجی میں نئی پیش رفت

Monday / Sep 09 2024

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

(گزشتہ سے پیوستہ)
کوانٹم کمپیوٹنگ (Quantum Computing) بھی روایتی (Classical) کمپیوٹرز کے مقابلے میں اپنی تیز ترین عملی (پروسیسنگ) صلاحیتوں کیساتھ کمپیوٹنگ کے منظر نامے میں انقلاب لانے کیلئے تیار ہے۔ کوانٹم کمپیوٹرز کوانٹم میکینکس (Quantum Mechanics) کے اصولوں پر کام کرتے ہیں، جس کیلئے کوانٹم بٹس (Quantum Bits)، یا کیوبٹس (Q-bits) کا استعمال کرتے ہیں، جو بیک وقت متعدد حالات میں موجود ہو سکتے ہیں۔ یہ خاصیت، جسے سپرپوزیشن کے نام سے جانا جاتا ہے، کوانٹم کمپیوٹرز کو ایک ساتھ کئی حسابات کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ آئی بی ایم (IBM)، گوگل اور ڈی ویو (D- Wave) جیسی کمپنیاں اس تکنیکی انقلاب میں سب سے آگے ہیں، اور ہر ایک نے قابل ذکر سنگ میل طے کئے ہیں۔ 2021ء میں کوانٹم کمپیوٹنگ مارکیٹ کی مالیت 472ملین ڈالر تھی اور توقع ہے کہ 2026ء میں یہ 1.76ارب ڈالرتک پہنچ جائے گی ۔

ایک اور اہم متعلقہ شعبہ 5G ٹیکنالوجیوں کا شعبہ ہے۔ موبائل نیٹ ورکس کی یہ پانچویں نسل 4G LTE سے 100گنا زیادہ تیز رفتار ہے، جس میں ملی سیکنڈ تک کی تاخیر کو جانچا جاسکتا ہے۔ یہ بہتر کارکردگی حقیقی وقت (Real Time) میں معلومات کی ترسیل (Data Transmission) کو یقینی بناتی ہے۔ 5G کے سب سے زیادہ متوقع اثرات میں سے ایک انٹرنیٹ آف تھنگز (Internet of things) ہے، جہاں گھروں، شہروں اور صنعتوں سے جڑے ہوئےاربوں آلات بغیر کسی رکاوٹ کے مواصلات کر سکتے ہیں۔ خود مختار گاڑیاں (Autonomous Vehicles)بھی اس ٹیکنالوجی سے مستفید ہونگی۔

خودمختار گاڑیوں کی مارکیٹ کی مالیت 2019 ء میں54.23 ارب ڈالر تھی اور اسکے 2026 ء تک556.67 بلین ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ 2019 ء میں عالمی’ انٹرنیٹ آف تھنگز‘ مارکیٹ کی قیمت 250.72ارب ڈالر تھی اور اسکے 1462ارب ڈالر تک پہنچنے کے امکانات ہیں۔ یہ 24.9فیصد کی CAGR سے بڑھ رہی ہے۔ یہ تقریباً 151.8 ارب کی سالانہ مارکیٹ نمو کی نمائندگی کرتا ہے۔

اب توانائی کے شعبے کی طرف رجوع کرتے ہیں، قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی گزشتہ پانچ سال میں نمایاں طور پر تیز ہوئی ہے، جو شمسی، ہوائی، اور توانائی ذخیرہ کرنیوالی ٹیکنالوجیوں میں پیشرفت کی وجہ سے ہے۔ فوٹو وولٹک سیلز (Photovoltaic cells )، ہوائی پن چکی (Wind Turbine) کے ڈیزائن، اور بیٹری ذخیرہ اندوزی (Battery Storage) میں ایجادات نے قابل تجدید توانائی کو زیادہ موثر اور سستا بنا دیا ہے۔ اسمارٹ گرڈز (Smart Grids) اور توانائی منتظم آلات (Energy Management Systems) کے انضمام نے قابل تجدید توانائی کی بہتر تقسیم اور استعمال کو مزید بہتر اور مؤثر بنانے میں مدد کی ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے اور پائیدار توانائی کے مستقبل کو یقینی بنانے کیلئے بہت اہم ہیں

مثال کے طور پر جدید دو طرفہ (Bifacial) شمسی پینل (Solar panels) جو دو طرفہ سورج کی روشنی کو حاصل کر سکتے ہیں اور پیرووسکائٹ (Perovskite) شمسی خلیے (Solar cells)، جو اپنی اعلیٰ کارکردگی اور کم پیداواری لاگت کیلئے مشہور ہیں، شمسی ٹیکنالوجی کی حدود کو وسعت دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ 2021 ء میں عالمی سطح پر صاف توانائی کی سرمایہ کاری تقریباً 500 ارب ڈالر تھی۔

جینیاتی انجینئرنگ (Genetic Engineering) صحت اور زراعت کے شعبوں میں بہت سرگرم ہے۔ CRISPR-Cas9 اور دیگر جینیاتی ترمیمی ٹیکنالوجیوں نے پچھلے پانچ سال میں جینیاتی تحقیق اور بائیو ٹیکنالوجی میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یہ اوزار (Tools) سائنسدانوں کو ڈی این اے (DNA) میں درست ترمیم کرنے، جینیاتی نقائص کی اصلاح کرنے، نئے طریقہ علاج کی ترقی، اور زرعی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھانے کے قابل بناتے ہیں۔ جینیاتی ترمیم (Gene Editing) کی صلاحیت جینیاتی بیماریوں کے علاج، بیماریوں کیخلاف مزاحم فصلیں تیار کرنے، اور یہاں تک کہ معدوم ہونیوالی نسلوں کو دوبارہ زندہ کرنے تک محیط ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی مارکیٹ کا حجم 2020ء میں 449.06ارب ڈالر تھا اور 2027 تک اسکے 952.31ارب ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے، جو کہ 12.3فیصد کی CAGR سے بڑھ رہی ہے۔ یہ تقریباً 71.04 ارب ڈالر کی سالانہ ترقی کی نمائندگی کرتا ہے۔

سماجی و اقتصادی ترقی کی کلید اقوام کی اعلیٰ تکنیکی (High-Tech)اشیا کی تیاری اور برآمد کرنے کی صلاحیت میں مضمر ہے۔ اس اہم ترین شعبے میں پاکستان بری طرح ناکام ہوا ہے اور یہی ہماری برآمدات کے 35ارب ڈالر کے جمود کی بڑی وجہ ہے جب کہ قدرتی وسائل سے محروم چھوٹا سا سنگاپور جو کراچی کی ایک چوتھائی آبادی پر مشتمل ہے، 400ارب ڈالر سے زائد کی سالا نہ برآمدات کا حامل ہے۔ ہمارے لیڈروں کو غفلت کی نیند سے بیدار ہونا چاہئے اور معیاری تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنی چاہئے تاکہ ملک کو ٹیکنالوجی سے چلنے والی ایک مضبوط علمی معیشت میں منتقل کرسکیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں