Monday / Jun 02 2025
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
(گزشتہ سے پیوستہ)
اسی طرح کے مسائل ایک اور اہم قومی ادارے، ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کو بھی درپیش ہیں۔ اس ادارے کو ختم کرنے، ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور انہیں صوبوں کے حوالے کرنیکی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ اس سے پہلے 2010ءمیں بھی ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن میں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ HEC کو ایک مضبوط وفاقی ادارے کے طور پر برقرار رکھا جانا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے میرے حق میں فیصلہ سنایا اور 12اپریل 2011ء کو حکم دیا کہ اعلیٰ تعلیم ایک وفاقی معاملہ ہے، جو آئین کی 18ویں ترمیم کے تحت مکمل تحفظ یافتہ ہے اور اسکی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اعلیٰ تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی براہِ راست قومی سلامتی سے جڑے ہوئے ہیںکیونکہ یہ ہمیں اندرونی طور پر اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات، بشمول دفاعی ساز و سامان تیار اور برآمد کرنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں۔ اگر یہ صلاحیت چھین لی جائے، تو ہم دشمنوں کیلئے آسان شکار بن جائینگے۔ شیماگو (Scimago)، جو دنیا کا معروف علمی ادبی اور تجزیاتی ڈیٹا بیس ہے ،کے حالیہ تجزیے کے مطابق ، پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں متعدد شعبوں میں بین الاقوامی تحقیق کی درجہ بندی میں شاندار ترقی کی ہے،اسکے باوجود کہ جامعات کو پچھلے دس سال میں شدید مالی مشکلات کا سامنا رہا۔ مثال کے طور پر، زراعت کے شعبے میں پاکستان 2000ءمیں48ویں عالمی درجے سےترقی کرکے 2023ءمیں 15ویں درجے پر پہنچ گیا۔ اسی طرح معاشیات میں 96 ویں سے 17 ویں ، طبیعیات میں 59 ویں سے 23ویں، حیاتی کیمیا اور خُردحیاتیات (Microbiology) میں پاکستان کی درجہ بندی 62 ویں سے ترقی کرکے 21ویں تک اورکیمیکل انجینئرنگ میں 63ویں سے 20ویں نمبر پر پہنچ گئی۔ یہ زبردست کامیابیاں ان اصلاحات کی عکاسی کرتی ہیں جو میں نے 2000ء کی دہائی کے آغاز میں سب سے پہلے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے طور پر اور بعد میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کے طورپر متعارف کرائیں۔ ان اصلاحات کا مقصد جامعات میں اعلیٰ تعلیمیافتہ اساتذہ کی تعیناتی اور تحقیق پر مبنی تعلیمی ثقافت کو فروغ دینا تھا، جس میں معیار پر بھر پور توجہ دی گئی۔ ہزاروں طلباء کو امریکہ اور یورپ کی ممتاز جامعات میں پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تربیت کیلئے بھیجا گیا، جس کیلئےدنیا کا سب سے بڑا فل برائٹ اسکالرشپ پروگرام شروع کیا گیا۔ اس بات کو یقینی بنانےکیلئے کہ یہ طلباء واپس آ کر مؤثر طریقے سے کام کرسکیں، ان کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے اور انکی واپسی سے ایک سال قبل تحقیق کیلئے ایک لاکھ ڈالر تک فراہم کیے جاتے رہے۔ اسکے علاوہ، ان اسکالروں کو عالمی سائنسی جرائدو کتب تک مفت رسائی فراہم کی گئی اور ملک بھرسے جدید تحقیقاتی آلات کو بلا معاوضہ استعمال کر نےکا انتظام کیا گیا۔ معیار کی یقین دہانی کیلئے جدید اقدامات بھی نافذ کیے گئے، جن میں بین الاقوامی تعاون کیساتھ پی ایچ ڈی پروگرام ، غیر ملکی ماہرین کے ذریعے تھیسس کا سخت جائزہ، اور جامعات میں معیار کی یقین دہانی کےشعبوں (Quality Assurance Cells) کا قیام شامل تھا۔ بین الاقوامی درجہ بندیوں میں ہونے والی بے مثال ترقی اس بات کا ثبوت ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے بنیادی ڈھانچے میں وسیع سرمایہ کاری ایک ترقی پذیر ملک کو عالمی سطح پر ترقی کی جانب لے جا سکتی ہے۔ 2002ء میں پاکستان کی اعلیٰ تعلیم میں متعارف کرائی گئی اصلاحات نے بین الاقوامی سطح پر وسیع پذیرائی حاصل کی۔ معروف تحقیقی جریدے، نیچر (Nature) کی ایک رپورٹ نے پاکستان کو 2018 ء میں عالمی سطح پر تحقیقاتی مضامین میں سب سے زیادہ سالانہ اضافہ کرنیوالا ملک قرار دیاگیا۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سائنس و ٹیکنالوجی ترقی نے پاکستان کی ترقی کو’’انتہائی شاندار‘‘ قرار دیا، اور ملک کی سائنسی ترقی اوربنیادی ڈھانچے اور جدت طرازی کو تسلیم کیا۔ سائنسی جریدوں تک مفت رسائی کی فراہمی، تحقیقی آلات تک رسائی، اور نئی سائنس و ٹیکنالوجی جامعات کا قیام، جن میں سائنس پارکس شامل ہیں، جیسے اقدامات نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کیا اور ملک کے تعلیمی نظام کو مستحکم کیا۔ جامعہ ٹیوبنگن سے جرمن ماہر تعلیم ولف گینگ وولٹر نے، جن کو پاکستان تعلیمی و تحقیقی خدمات پر کئی اعزازات سے نواز چکا ہے، ان اصلاحات کو ’’معجزہ‘‘ قرار دیا۔ اسی طرح، سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے تعلیم کے چیئرپرسن نے ایچ ای سی کے ابتدائی چھ سال (2002-2008ء) کو’’پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کا سنہری دور‘‘ قرار دیا۔ تھامسن رائٹرز جو کہ دنیا کا ایک مشہور ادارہ ہے اِس نےایک تحقیق میں بین الاقوامی اشاعتوں میں اس دہائی کے دوران حوالہ شدہ مقالات میں دس گنا اضافے کا ذکر کیا، جو BRIC ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ گیا۔ امریکی ماہر تعلیم فرڈ ایم ہیورڈ نے اپنی ایک حا لیہ شائع شدہ کتاب میں 2002ء کے بعد پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ’’غیر معمولی تبدیلیوں‘‘کا ذکر کیا، جس میں تقریباً 4,000 اسکالرز کی ملکی و غیر ملکی سطح پر پی ایچ ڈی پروگراموں میں شرکت کا ذکر بھی شامل تھا۔ علاوہ ازیں 2002ء میں تعلیم کا بجٹ 500ملین روپے سے بڑھا کر 2008ء میں 28ارب روپے تک یعنی 5600فیصد اضافہ کر کے ہم نے انسانی سرمائے کی پائیدار ترقی کی بنیاد رکھی۔ اس دوران تحقیق اور جدت پر زور دینے سے ایک بڑی تبدیلی آئی۔ ایک اور انقلابی قدم پاکستان کی پہلی قومی ڈیجیٹل لائبریری کا قیام تھا، جو25,000عالمی تحقیقی جرائد اور 65,000 درسی کتب تک مفت رسائی فراہم کرتی تھی۔ بین الاقوامی تنظیموں جیسے United Nations Commission on science, Technology and Development نے ایچ ای سی کی کوششوں کی تعریف کی اور پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کی اصلاحات کو’’ترقی پذیر ممالک کیلئے ماڈل‘‘ قرار دیا۔ عالمی اداروں جیسے برٹش کونسل ، ورلڈ بینک اور معروف جامعات کیساتھ شراکت داریوں نے علم کے تبادلے، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور صلاحیت سازی کو فروغ دیا۔ ان تعاونوں نے 300ملین ڈالر سے زائد کی بین الاقوامی فنڈنگ کو متوجہ کیا، جس سے پاکستان کی ترقی کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہوا۔ اسی طرح آئی ٹی اور ٹیلی کام کے میدان میں ہماری پالیسیوں نے پاکستان کو ایک ڈیجیٹل معاشرہ بنا دیا۔ براڈبینڈ کا استعمال2008ء تک بالکل صفر سے بڑھکر 2.5ملین روابط (Connections) تک پہنچ گیا، جسکی ابتداء 6,000کلومیٹر کی فائبر آپٹک نیٹ ورک کی توسیع سے ہوئی۔ اس بنیادی ڈھانچے نے شہری اور دیہی علاقوں کو آپس میں منسلک کیا، ڈیجیٹل فرق کو کم کیا اور جامع ترقی کے مواقع پیدا کیے۔ آئی ٹی کی صنعت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہم نے آئی ٹی پارکس اور انکیوبیشن مر اکز قائم کیے تاکہ نئے محققین کی مدد کی جا سکے اور کاروباری جذبے کو فروغ دیا جا سکے۔ اب جبکہ ہم نے ایک مضبوط تحقیقاتی ماحول قائم کر لیا ہے، ہمیں اپنی تحقیق کو معاشی و سماجی ترقی کے عمل سے منسلک کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ جامعہ - صنعت روابط قائم کیے جا سکیں۔ حکومت کو ایسے روابط کیلئے بڑے قومی فنڈز فراہم کرنے چاہئیں تاکہ نئے کاروباریوں کی حوصلہ افزائی کی جا سکے ۔ تمام جامعات میں ٹیکنالوجی پارکس قائم کیے جانے چاہئیں ۔ پاکستان کو ایک ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت میں منتقل ہونا چاہئے۔ ہمیں موجودہ قدیم ترقیاتی پالیسیوں کو چھوڑنا ہوگا جو قدرتی وسائل پر مبنی ہیں تاکہ ہم علم پر مبنی ترقی کی جانب گامزن ہوں۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں