اعلیٰ تعلیم۔ ملکی ترقی کی ضامن

Monday / Apr 17 2017

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

اکتوبر 2002میں میں نے جب سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر کے عہدے کو خیرباد کیا اور اعلیٰ تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی) کے بانی چیئرمین کے طور پر عہدہ سنبھالا اس وقت پاکستان کی ایک بھی جامعہ کا شمار بین الاقوامی درجہ بندی کے مطابق دنیا کی چوٹی کی 500سے1000 جامعات میں بھی نہیں ہوتا تھا۔ چھ سال بعد اکتوبر 2008ء میں جب میں نے احتجاجاً استعفیٰ دیا (کیونکہ بیرون ملک ایچ ای سی کے وظیفے کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں طالبعلموں کے وظائف پچھلی حکومت نے بند کر دیئے تھے) اس وقت ہماری کئی جامعات ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی درجہ بندی 2008ءکے مطابق دنیا کی اعلیٰ ترین 250، 300، 400 اور500کے درمیان تھیں۔ جن میں جامعہ کراچی 223نمبر پر، NUST(اسلام آباد) 250 نمبر پر اور قدرتی سائنس میں نیشنل جامعہ برائے سائنس اور ٹیکنالوجی (لاہور)281نمبر پر عالمی درجہ بندی میں تھیں۔ NUSTدنیا میں مجموعی طور پر350کی درجہ بندی پر تھی۔ تاریخ میں اس سے پہلے کبھی6سال کی مختصر مدت کے اندر اتنے ادارے اس سطح تک پہنچ سکے تھے۔ برازیل کی تعلیم کے سابق وفاقی وزیر نے مشہور رائل سوسائٹی (لندن) کی ایک کانفرنس جو کہ برازیل میں منعقد ہوئی تھی، میں یہ اعتراف کیا تھا کہ اسی طرح کا شاندار انقلاب جو پاکستان نے صرف5سال کی قلیل مدت میں حاصل کیا ہے اسے حاصل کرنے کے لئے انہیں برازیل میں40سال لگ گئے تھے۔ بدقسمتی سے آفت اس وقت آئی جب گزشتہ حکومت نے جعلی ڈگریوں کے حامل 200اراکین پارلیمنٹ کے اکسانے پر ایچ ای سی کو تحلیل کرنے کی کوشش کی اور2010میں اس سلسلے میں اطلاع نامہ بھی جاری کر دیا گیا۔ میں ڈیڑھ سال پہلے ہی بطور چیئرمین ایچ ای سی استعفیٰ دے چکا تھا لیکن میں نے ایک عام شہری کی حیثیت سے ایچ ای سی کی بقا کے لئے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ میری سپریم کورٹ میں پٹیشن پر2011 میں ایک تاریخی فیصلہ سنایا گیا جس میں حکومتی نوٹیفکیشن کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن آئین کی اٹھارویں ترمیم کے تحت ایک وفاقی ادارے کے طور پر مکمل محفوظ ہے۔ ان کوششوں سے ایچ ای سی کی تحلیل تو رک گئی لیکن2008ءسے 2013ءکے درمیان ایچ ای سی کی جانب سے شروع کردہ بہت سے پروگرام تباہ ہو گئے جس کےنتیجے میں ہماری جامعات تمام بین الاقوامی عالمی درجہ بندی سے پیچھے ہو گئیں اور اب صرف ایشیائی رینکنگ میں موجود ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا تاریک باب تھا۔ اس کے بعد موجودہ حکومت نے اعلیٰ تعلیم کو بحال کیا ہے اور HECکیلئے فنڈز میں اضافہ کیا ہے۔ ان دنوں میرے سابق ساتھی پروفیسر مختار احمد ایچ ای سی کی قیادت بہت سمجھداری اور لیاقت سے کر رہے ہیں. تاہم اس سے پہلے ہم نےجو کچھ گنوا دیا ہے اس کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے سالوں درکار ہوں گے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہمیں اپنی جامعات کا قابل احترام انٹرنیشنل رینکنگ مقام بحال کرنے کیلئے اب کیا کرنا چاہئے؟ اول یہ کہ شیخ الجامعہ کسی بھی جامعہ کے لئے ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا انہیں بڑی احتیاط سے منتخب کیا جانا چاہئے وہ نہ صرف ایک اعلیٰ ماہر تعلیم اور محقق ہوں بلکہ ایک ایسےقابل رہنما ہونے چاہئیں جو کہ تمام تعلیمی امور، انتظامی امور اور دیگر عملے کے ساتھ ساتھ طالب علموں کو علم کے حصول میں متحرک کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہوں۔ پاکستان میں سرچ کمیٹی کا عمل بڑی حد تک ناکام ہو گیا ہے کیونکہ صوبائی حکومتیں تلاش کمیٹیوں کے لئے تعلیمی قابلیت اور تجربے کے اعتبار سے کمزور اراکین کا انتخاب کرتی ہیں جو شیخ الجامعہ کو منتخب کرتے وقت میرٹ کو اکثر نظر انداز کرتی ہیں اور ایسے شیوخ الجامعہ کا انتخاب کرتی ہیں جو صوبائی حکومتوں کی خواہشات کے آگے جھک سکتے ہوں۔ لہٰذا یہ بہت اہم ہے کہ شیخ الجامعہ کے عہدوں پر تقرر کئے جانے والے افراد کو کچھ کلیدی کارکردگی اہداف دئیے جائیں اور ان کا ہر6 ماہ بعد جائزہ لیا جائے۔ ان میں:پی ایچ ڈی کی سطح کی فیکلٹی اور طالب علم تناسب میں اضافہ (تجویز کردہ 1:15) صنعتی زرعی اور دیگر شعبوں کے ساتھ مضبوط روابط قائم کرکے سماجی و اقتصادی ترقی کے حصول کے لئے آور آفس کی مضبوطی سمیت مالیاتی انتظام اور فنڈز کے حصول، ایچ ای سی کے احکام کا معیار کی ضمانت کے ساتھ سخت نفاذ، تمام نئی فیکلٹی تقرریوں کے لئے ٹینیور ٹریک نظام کا نفاذ، پی ایچ ڈی کی پیداوار میں اضافہ، اس کے ساتھ ساتھ اچھے امپیکٹ فیکٹر والے رسالوں میں تحقیقی مطبوعات، بین الاقوامی پیٹنٹ کا حصول، فیکلٹی کی جانب سے کتب کی اشاعت میں اضافہ شامل ہیں۔ دوم ہماری جامعات میں قابل پی ایچ ڈی حاصل شدہ اساتذہ کی سخت کمی ہے۔ عام طور پر ایک اچھی جامعہ میں ہر پندرہ طلبہ پر ایک پی ایچ ڈی استاد ہونا ضروری ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں اکثر جامعات میں ہر سو طلبہ کے لئے صرف ایک پی ایچ ڈی استاد ہے۔ یہ تناسب فوراً تبدیل کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کرنا ہونگی۔ سوم بیرون ملک مقیم ہمارے تعلیم یافتہ تارکین وطن اساتذہ کے ساتھ روابط معیار تعلیم اور تحقیق پر نمایاں طور پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اس کے لئے مقامی پی ایچ ڈی کی سطح کے فیکلٹی ممبران کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ادارے سے غیر ملکی پروفیسروں کی بطور شریک سپروائزر تقرری کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے اور انہیں پاکستان میں طلبہ کے تحقیقی کام کی نگرانی کے لئے کم ازکم سال میں دو مرتبہ دورہ کرنےکی پیش کش کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ پاکستانی طلبہ/مقامی پی ایچ ڈی کے سپروائزر کے ساتھ اسکائپ کے ذریعے ہر پندرہ روز کے بعد ملاقات کرنی چاہئے۔ اس طرح فیکلٹی اور طلبہ کا معیار بہتر ہو سکتا ہے۔ چہارم یہ کہ تدریس اور تحقیق کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے، ہر جامعہ میں کوالٹی کی گارنٹی کے مراکز قائم کئے جائیں جو کہ کمزور اور کم کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اساتذہ کی نشاندہی کریں اور انہیں تبدیل کریں۔ ایک بہترین فیکلٹی تشخیص کا ماڈل جامعہ کراچی میں بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم میں لاگو کیا گیا ہے۔یہ ادارہ پاکستان کے سب سے عمدہ تحقیقی ادارے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور حال ہی میں یونیسکو کا بہترین کارکردگی کے مرکز کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔ صوبائی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا غلط قیام بھی ایک اہم مسئلہ ہے جوکہ سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے فوری طور پر توجہ طلب ہے۔ اس کمیشن کا قیام سپریم کورٹ کے فیصلے کی صریحاً توہین ہے۔ ایک مسئلہ جسے فوری حل کرنے کی ضرورت ہے وہ ہمارے کالجوں کی قابل رحم حالت ہے۔ کالج چاروں صوبائی وزارتوں کے دائرے کار میں آتے ہیں اور جو اسلام آباد میں واقع ہیں وہ وفاقی وزارت تعلیم کے دائرے میں آتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا ان پر کو ئی کنٹرول نہیں ہے سوائے ان کالجوں کے جو ڈگری دینے کا درجہ رکھتے ہیں، دراصل کالجوں کے لئے مختص فنڈز بہت کم ہیں اور پھر جو طلبہ ان سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں ان میں سے بیشتر بڑی جامعات میں داخلے کے لئے یا کاروبار یا صنعت میں ملازمتوں کے لئے مکمل طور پر نااہل ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس انتہائی اہم شعبے میں اصلاحات مطلوب ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری ترجیحات غلط سمت میں ہیں۔ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں انتہائی کم سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اس سال ہماری سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کا کل مجموعی ترقیاتی بجٹ صرف1.8 ارب روپے ہے، یہ قومی خودکشی کا بہترین نسخہ ہے کیونکہ قابل غور حقیقت یہ ہے کہ2017میں بھارت کا سائنس کا بجٹ 840ارب روپے ہے جو کہ پاکستان کے سائنس کے بجٹ کے مقابلے میں460گنا زیادہ ہے۔ اگر ہم اب بھی نہیں جاگے تو بھارت جلد ہی ہم پر غلبہ حاصل کرلے گا۔ لہٰذا یہ بہت اہم قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ ہمیں اعلیٰ درجے کی جامعات کے قیام کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ہمیں تحقیق کو صنعتی اور زرعی ترقی کے ساتھ منسلک کرنے کی بھی ضروررت ہے۔ پاکستان کے لئے یہی واحد راستہ ہے کہ تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں سرمایہ کاری کے ذریعے ایک مضبوط علم پر مبنی معیشت تشکیل دے۔ صرف اسی طرح ہم ایک کروڑ سے زائد 20سال سے کم عمر پاکستان کے نوجوانوں میں موجود زبردست تخلیقی صلاحیتوں کو ابھار کر پاکستان کا مستقبل روشن بنا سکتے ہیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں