Monday / Apr 10 2017
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
وسکونسن میں قائم Wicab، نامی کمپنی کے سائنسدانوں نے ایک آلہ ’’برین پورٹ‘‘ (Brain Port)تیار کیا ہےجو نابینا افراد کو اپنی زبان سے دیکھنے میں مدد کرتا ہے ! اس کمپنی کے بانی، پال بیکِ ریٹا کے مطابق، دراصل ہم اپنی آنکھوں سے نہیں بلکہ اپنے دماغ سے دیکھتے ہیں۔ لہٰذا ایسے آلات تیار کرنا ممکن ہے جو کہ نابینا افراد کو دیکھنے کے قابل بنا سکیں۔ایک ننھا سا آلہ نابینا افراد کے چشمے پرنصب کردیا جاتاہے جو کہ ایک چھوٹے ڈیجیٹل کیمرے کا استعمال کرتے ہوئے ارد گرد کی تصاویر محفوظ کرتا رہتا ہے. یہ تصاویر نابینا شخص کی جیب میں رکھے موبائل جتنے بڑے سینٹرل پروسیسنگ یونٹ (CPU) کی مدد سے برقی اشاروں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہ CPU شبکیہ (retina) کے فرائض انجام دیتے ہوئے ایک لالی پاپ نما آلے تک تصویروں کو برقی اشاروں کی صورت میں پہنچاتا ہے۔ نابینا شخص جب اس لالی پاپ کو زبان پررکھتا ہے تو زبان پراعصاب ان برقی اشاروں کو وصول کرتے ہیں اور دماغ میں منتقل کرتے ہیں۔ اس طرح نابینا افراد ارد گرد کے خاکے معمولی سی مشق کے بعد دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ مثلاً کھانے کی میز پروہ ایک چاقو اور ایک کانٹےکے درمیان تفریق کرسکتے ہیں، یا لفٹ کے بٹن کے درمیان تمیز کر سکتے ہیں۔اس آلے کی تیاری کا اعلان 2009 ء میں جامعہ پٹسبرگ میڈیکل سینٹر نے کافی تجزیے کے بعد کیا تھا اوراب یہ آلہ تجارتی طور پر بھی دستیاب ہے۔اسی میدان میں ایک اور حیرت انگیز پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ بازوؤں کے اعصابی نظام کے ذریعے تصویری خاکے بازو پر بندھے بینڈ سےدماغ میں منتقل کئے جا سکتے ہیں،اس طرح لالی پاپ آلے کے استعمال کی ضرورت نہیں رہے گی۔نا بینا افراد کی بینائی بحال کرنے کیلئے ایک اور نقطہ نظر جامعہ ٹیکساس میں پروفیسر مائیکل بیو چیمپ کی جانب سے پیش کیا گیا ہے. وہ بھی اس تجزیے سے متفق ہیں کہ ہم آنکھ سے نہیں بلکہ دماغ سے دیکھتے ہیں۔وہ دماغ کی بصری صلاحیت کو برقی مداخلت سے بحال کرنے کے امکانات تلاش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اگربرقی مداخلت سے حاصل تصاویر کو دماغ کے صحیح خطے میں منتقل کیا جائے تو بصارت بحال کی جا سکتی ہے۔ تقریباً 10٪ نابینا افراد خیالی تصویری خاکوں کی تشکیل کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ ان کے دماغ کی بصری صلاحیت میں سوچ کے انتشار سے منسوب کیا جاتا ہے، تاہم وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ تمام خیالی خاکے تفصیل کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ ان پیش رفتوں کے بعد اس نقطہء نظر پر غور کیا جا رہا ہے کہ نا بینا افراد کے چشمے پرنصب ویب کیم کو دماغ میں برقی مداخلت سے منسلک کیا جا سکتا ہے اور اس طرح بینائی کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ کسی تصویر کو دیکھنے کے دوران دماغی سر گرمیوں کوریکارڈنگ کے ذریعے محفوظ کرنا اورپھراس ریکارڈنگ کو دیکھنا (کہ دماغ میں کیسے خاکے بنے ہیں)، اب تک اسے خالص تخیلاتی سائنس ہی تصور کیا جاتا تھا۔. برکلے(Berkeley)کی جامعہ کیلی فورنیا میں کام کرنے والے سائنسدان فلم ٹریلرز دیکھنے کے دوران انسانی دماغ کی سرگرمیوں کی ریکارڈنگ کے بعد ان کی تصاویر بنانےمیں کامیاب ہو گئےہیں۔ اس کیلئے انہوں نے فنکشنل میگناٹک ریزونینس اسکینر (Functional Magnetic Resonance Scanner) استعمال کیا ہےجس نے دماغ کے کچھ حصوں میں خون کے بہاؤ کو ریکارڈ کیا اور طاقتور کمپیوٹنگ تکنیک استعمال کرتے ہوئے دماغ کی سرگرمیوں کو تصاویر میں تبدیل کیا۔محققین درحقیقت بے ہوشی یا سکتے کی حالت میں یا فالج کےحملے کے بعد مریضوں کے ’’خیالات پڑھنے‘‘ کی امید رکھتے ہیں حتیٰ کہ اب محققین ان لوگوں سے کی گئی گفتگو کے جواب میں سامنے والے کےدماغ کی سرگرمیوں کا پتہ لگانے تک میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ایک اور شعبہ جس میں تحقیقی سر گرمیاں زور و شور سے جاری ہیں وہ طب تشکیل نو ہے جس میں انسانی خلیات کی تشکیل شامل ہے۔ درحقیقت اسٹیم سیل تھراپی خراب گردے اور دل کے خلیات کی مرمت یا ذیابیطس اور اس طرح کی دیگر بیماریوں کے علاج کے لئے ایک انقلاب کی آمد سے کم نہیں۔. اسٹیم سیلزایسے بنیادی خلیات ہوتے ہیں جو مختلف دوسرےخصوصی خلیات (دل، گردے، لبلبہ وغیرہ) کی مختلف اقسام میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ بالغ اسٹیم سیل سے لیوکیمیا اور دیگر سرطان کا علاج طویل مدت سے (ہڈیوں کے گودے کی ٹرانسپلانٹ کے ذریعے ) کیا جارہا ہے۔ برطانیہ کی جامعہ برسٹل کے سائنسدانوں نے اب اسٹیم سیل پر مبنی ایک خاص پٹی کاارٹلیج (cartilage)کی مرمت کیلئے استعمال ہو سکتی ہے۔ اس پٹی کی تیاری کیلئے مریض کے کولہے سے ایک انجکشن کی مدد سےہڈی کا گودا نکالا جاتا ہے، اس گودے سے حاصل کردہ اسٹیم سیلز کی خاص جھلی / بینڈیج میں سرایت کئے جانے سے پہلے علیحدگی سے افزائش کی جاتی ہے۔ پھر اس پٹی کو مرمت والے کارٹلیج پر لگایا جاتا ہے۔ پٹی پر موجود اسٹیم سیلز شفایابی کے عمل میں مدد کرتے ہیں۔ اس طریقہ کار کو استعمال کرکے کھلاڑیوں میں خاص طور پر زخمی کارٹیلیج (meniscal tear) کے علاج کے لئے استعمال کیاجا سکتا ہے۔ سیاہی جیٹ پرنٹرعام طور پر دستاویزات کی چھپائی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے. امریکہ میں ویک فارسٹ انسٹی ٹیوٹ برائے تشکیل نو طب کے ڈاکٹروں نے ایک حیران کن طریقہ دریافت کیا ہے جس میں وہ ایک سیاہی جیٹ پرنٹر سے ملتا جلتا آلہ استعمال کرتے ہیں جو کہ نئے جلدی خلیات کا جھلسے ہوئے زخموں پر چھڑکاؤ کرتا ہے،اس طریقہ کار سے زخموں کی بھرائی بڑی تیزی سے عمل میں آتی ہے۔ اس طریقہ علاج سےشفا یابی کے بہترین نتائج کی بدولت یہ علاج جلدی پیوند کاری کی ضرورت کا خاتمہ کردےگا اور اس کا بہتر متبادل ثابت ہوگا۔ سیاہی جیٹ پرنٹرسے مماثلت رکھتے اس آلے میں موجود ٹینک میں جلد کے خلیات، اسٹیم سیل اورغذائی اجزا موجود ہوتے ہیں، انہیں کمپیوٹر سے جڑے ایک دہانے (nozzle) کےذریعے جھلسے ہوئے زخم پر چھڑکاؤ کیا جاتا ہےاس تکنیک کو جب جانوروں پر تجربے کے طور پر استعمال کیا گیا تو چوہوں میں گوشت کے زخم جلد کی پیوند کاری کی تکنیک کے مقابلے میں پانچ ہفتوں کے بجائے دو ہفتوں ہی میں مکمل طور پر مندمل ہو گئے بلکہ زخم کے نشان بھی کم نمایاں ہوئے اور زخم کے مقام پر بالوں کے دوبارہ اگنے کی تعداد بھی بہتر ہوئی۔ اس ٹیکنالوجی کے بہتر نتائج کی بدولت امریکی فوج میں فوجیوں کے گولیوں کے نشانات اور دھماکے کی صورت میں زخموں کو بھرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ قصہ کہانیوں میں جادوگر اشیاکوغائب کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ تاہم کیاسائنس اب واقعی اشیا کو نظروں سے پوشیدہ کر سکتی ہے؟ 2006 میں پروفیسر جان پینڈرے اور ان کے ساتھیوں نے ایک ایسی چادربنائی ہے جو روشنی کو اپنے ارد گرد جھکا کر پرے موڑ سکتی تھی۔اس کے فوراً بعدجامعہ ڈیوک میں ڈاکٹر ڈیوڈ سمتھ ایک غیر معمولی خصوصی مادے کوبنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان "metamaterials" کے پوشیدہ دھاگے روشنی کی طول موج (wavelength) سے چھوٹے ہوتے ہیں. اس لئے یہ روشنی کی لہروں کو پرےجھکا سکتے ہیں۔ عام مادے میں ایسی خصوصیات موجود نہیں ہوتیں۔ ایسے دھاگے ایک مائیکرو میٹر سے زیادہ موٹے نہیں ہوتے۔ جب ان سے بنی ہوئی چادر کوکسی چیز کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے تووہ چیزنظر وںسے پوشیدہ ہو جاتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے دفاع کے میدان میں بہت سے استعمال ہیں مثلاً اسے فوجیوں، ہتھیاروں، جنگی جہازوں اور طیاروں کو پوشیدہ کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کیا مستقبل میں ہم جنگیں مخصوص مادےسے ڈھکی ہوئی پوشیدہ فوجوں، بحری جہازوں، طیاروں اور آبدوزوں سے لڑیں گے؟ جوممالک جدید تحقیق میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں وہ ایسے منصوبوں کی بدولت اربوں ڈالر کما رہے ہیں۔ اگر پاکستان ترقی کی راہ پر چلنا چاہتا ہے تو اسےتعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی،اور جدت طرازی کو اعلیٰ ترین قومی ترجیح دینا ہوگی۔ اس کے لئے ایک بصیرت انگیز حکومت کی ضرورت ہےجو آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ایک علم پر مبنی معیشت کے اہم کردار کو سمجھتی ہواور پاکستان کو علم اور سائنس کی بنیاد پر ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں