Monday / Apr 03 2017
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
شمسی خلیات (solar cells) بجلی پیدا کرنے کیلئےسورج سے توانائی حاصل کرتے ہیں. سورج کی توانائی فوٹانز (photons) کی شکل میں ہوتی ہے. اس طرح پیدا ہونے والی بجلی براہ راست رو (Direct Current, DC) میں حاصل ہوتی ہے۔ یہ بجلی بلب روشن کرنے کیلئے یا دوسرے برقی آلات جو کہ براہ راست بجلی کی رو سے چل سکتے ہیں مثلاً پنکھا وغیرہ، ان کو چلانے کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ تجارتی طور پر دستیاب شمسی خلیات عام طور پر سلیکون ویفر (silicon wafers) سے بنے ہوتے ہیں اور 14-18فیصد کے درمیان استعداد کے حامل ہوتے ہیں جدید ’’کثیر جنکشن‘‘ (multi junction) خلیات دیگر مواد سے تیارکئے جا رہے ہیں ان شمسی خلیات کی توانائی کی استعداد بہت زیادہ ہے یعنی 38فیصد 42فیصد کے درمیان لیکن ان کی پیداوار زیادہ مشکل اور مہنگی ہے۔ شمسی خلیات سے پیدا ہونے والی بجلی کی موجودہ لاگت گھٹ کر صرف 2.3روپے فی کلو واٹ گھنٹہ ہو گئی ہے۔ لہٰذا شمسی توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی اب دوسرے ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کے مقابلے میں زیادہ پر کشش بنتی جا رہی ہے۔شمسی توانائی کی جدت میں اگلا قدم شمسی خلیات کی چھپائی ہے جو نئے مواد یعنی (تانبا copper ،indium؛ انڈیم، Gallium گیلیم selenide سیلینائیڈ) پرمشتمل ہے۔ یہ نہایت کم قیمت میں کافی زیادہ تعداد میں تیار کئے جا سکتے ہیں۔ ان خلیات کی استعداد 10-15فیصد کم ہے لیکن کم پیداواری لاگت کی وجہ سے یہ زیادہ کفایت بخش ہیں۔ سوئس محققین کی جانب سے ایک دلچسپ حالیہ پیشرفت، لچکدار شمسی خلیات کی دریافت سے ہوئی ہے ان خلیات کی کارکردگی بالکل اتنی ہی ہے جتنی کہ سیلیکون ویفر کی یعنی 18.5فیصد۔ یہ لچکدار خلیات انتہائی کم لاگت میں تیار کئے جاسکتے ہیں۔ اور اگر کثیر تعداد میں ہوں توبڑے پیمانے پر شمسی خلیات کی مارکیٹ کو تیزی سے تبدیل کر سکتے ہیں۔ خلیات کی نئی قسم اب شفاف (transparent) رول(rolls) میں بھی دستیاب ہوگی جنہیں کھڑکیوں اور دیواروں پر بجلی جذب اور فراہم کرنے کیلئے لگایا جائے گا۔ایک اور اہم پیشرفت شمسی روغن (پینٹ) ہے۔ ایسا روغن جو کہ بجلی فراہم کرسکتا ہے۔ کیونکہ روغن میں شمسی خلیات موجود ہوتے ہیں۔ اوائل میں اس قسم کےخلیات کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کی کارکردگی روایتی سلیکون بنے شمسی خلیات کے مقابلے میں کم تھی لیکن جس طرح اس میدان میں پیشرفت ہو رہی ہے اب جدید ’’ڈائی حساس‘‘ شمسی خلیات (dye sensitized solar cells) کی کارکردگی تجارت کےلئے دستیاب سلیکون خلیات کی کارکردگی کے مقابل ہو گئی ہےاس میدان میں ایک اور حالیہ دریافت کم قیمت اور بہتر استعداد کے مالک ’’کوانٹم ڈاٹ‘‘ (quantum dot) شمسی خلیات ہیں جنہیں چھتوں اور کھڑکیوں کی سطحوں پر اسپرے کیا جا سکتا ہے۔ یہ خلیات نیم موصل (semiconductors) کے چھوٹے ذرات (نینو ذرات) پر مشتمل ہوتے ہیں۔ انہیں بآسانی سطحوں پر پینٹ کیا جا سکتا ہے جبکہ استعمال کیلئے پیچیدہ اور مہنگےسولر پینل کی تنصیب کی ضرورت نہیں ہے۔ نئی اقسام کے جو شمسی خلیات دریافت کئے گئے ہیں انہیں مائع میں شامل کیا جا رہا ہے اس کی وجہ سے انہیں گلاس یا پلاسٹک کی سطحوں پر پینٹ یا پرنٹ کیا جا سکتا ہے۔ یہ خلیات اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ بظاہر آنکھ سے انہیں نہیں دیکھا جا سکتا، صرف چار نینو میٹر جتنے یعنی کچھ 250ارب ایسے خلیات سوئی کے سوراخ کو پر کرسکتے ہیں۔ یہ اتنے چھوٹے ہیں کہ انہیں اخبار کی طرح چھاپا جا سکتا ہے لہٰذا ان خلیات کی کافی تعداد میں چھپائی بہت سستے طریقے سے ممکن ہے۔ حتیٰ کہ ایک معیاری سیاہی جیٹ پرنٹر پر بھی ان کی چھپائی ممکن ہے! اگرچہ ان خلیات کی کارکردگی معیاری شمسی خلیات سے کم ہے، لیکن انتہائی کم لاگت پر بڑے پیمانے پر پیداوار انہیں استعمال کیلئے بہت موزوں بناتی ہے۔جامعہ اسٹینفورڈ (Stanford University) میں محققین نے شمسی توانائی کی پیداوار کو زیادہ مؤثر کرنے کیلئے روایتی طریقوں سے الگ طریقہ تلاش کیا ہے۔ نئے عمل میں، حرارت اور روشنی دونوں بجلی میں تبدیل ہوتے ہیںجبکہ روایتی شمسی خلیے صرف روشنی کو بجلی میں تبدیل کرتے تھے۔اس نئی قسم کے خلیات کو پیٹ(PETE) (Photon Enhanced Thermionic Emission)کہا جاتا ہے۔ یہ نئی اقسام کے خلیات زیادہ گرمی میں بہتر کام کرتے ہیں۔ ووڈافون کمپنی نے شمسی توانائی سے چلنے والی ایک ایسی چھتری بنائی ہے جو آپ کو نہ صرف بارش یا سورج سے پناہ دیتی ہے بلکہ آپ کے موبائل فون یا دیگر آلات کے لئےبجلی بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ چھتری جامعہ کالج، لندن (University College, London) کے پی ایچ ڈی کے طالب علموں نےتیار کی ہے۔ اسے ’’بوسٹر برالی‘‘ (Booster Brolly)کے نام سےجانا جاتا ہے۔اس چھتری کی بیرونی سطح پر سولر پینل سلے ہوئے ہیں اور اس کے ہینڈل پر سورج کی توانائی سے چلنے والی بیٹری لگی ہوئی ہے۔اس سے ایک smartphone تین گھنٹے کے اندر چارج کیا جا سکتا ہے اورکوئی بھی اضافی ایل ای ڈی ٹارچ کو ہینڈل پر نصب کرکے بیٹری سے روشن کیا جاسکتا ہے۔ شمسی خلیات کے علاوہ سورج کی توانائی کوبجلی میں تبدیل کرنے کی ایک اور ٹیکنالوجی کے تمثیلی آئینے (parabolic mirror) ہیں۔اس طریقے سےشمسی توانائی کے حصول کیلئے سورج کی روشنی کے ایک بڑے علاقے میں آئینے نصب کرکے اسکی کی روشنی ایک بوائلر پرمرکوز کی جاتی ہے۔جس کے نتیجے میں شدید گرمی پیدا ہوتی ہے۔یہ گرمی اسٹیم ٹربائن کو بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال کی جا تی ہے.اگر یہ گرمی پگھلے ہوئے نمک کی شکل میں محفوظ کی جا ئے، تو پھر غروب آفتاب کے بعد بھی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ امریکہ کے بعد اسپین اس ٹیکنالوجی کے استعمال میں سب سے آگے ہے۔تاہم سولر پینل کی قیمتوں میں تیزی سے کمی نے اس ٹیکنالوجی کو اقتصادی طور پر ناقابل عمل بنا دیا ہے۔توانائی پیدا کرنے کیلئے سورج کی طاقت کا استعمال کرنے کیلئے ایک اور دلچسپ دریافت شمسی ٹاورز کی تعمیر ہے۔شمسی ٹاور ٹیکنالوجی سے بجلی پیدا کرنے کا کامیاب مظاہرہ ایک دہائی پہلےاسپین میں کیا گیا تھااس ٹیکنالوجی میں سورج کی شعاعوں کوکئی سو مربع میٹر کی ایک بڑی سطح پرمنعکس کیا جاتا ہے،ان شعاعوں سے پیدا ہونیوالی گرم ہوا، جس کا درجہ حرارت 80-90ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے اسے یکجا کرکے ٹاور سے گزارا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بجلی کی پن چکی چلائی جاتی ہے، پاکستان بھی اس طرح بجلی کی ٹربائن تعمیر کر سکتا ہےاور کم قیمت پر بھاری مقدار میں بجلی پیدا کر سکتا ہے۔سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں، اس طرح کے جزوی ٹاور نما ڈھانچے پہلے ہی موجود ہیں جوپہاڑ کے اطراف قدرتی کٹاؤ کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں انہیں آسانی سے بجلی فراہم کرنے والے شمسی ٹاورز میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں روایتی شمسی خلیات کی بنیاد پر ایک 100 میگا واٹ کا پلانٹ مارچ 2015 میں قائد اعظم سولر چولستان صحرا میں نصب کیا گیا تھا۔ اسکا ٹھیکہ ایک فرم کو14.5 روپے فی کلو واٹ گھنٹہ پر دیا گیا تھا جبکہ اس وقت بین الاقوامی شرح 4 روپے فی کلو واٹ گھنٹے تھی۔ اب یہ قیمت مزید کم ہو کر2.3 روپے فی کلو واٹ گھنٹہ ہو گئی ہے۔تاہم یہ پلانٹ نا قص معیار کے مواد کی فراہمی کی وجہ سے طے کردہ100 میگا واٹ کے بجائے صرف 18 میگاواٹ بجلی پیدا کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کیلئے اس میدان میں کافی گنجائش ہے اگر ہم 2.5روپے فی کلو واٹ گھنٹہ کی شرح سے پلانٹ لگائیں جیسا کہ متحدہ عرب امارات میں 1000میگا واٹ پلانٹ لگایا جارہا ہے تو اس سے ہماری توانائی کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اگر حکومتی بدعنوانی یا نااہلی رکاوٹ نہ بنےتو۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں