!جاگو:اب بھی وقت ہے

Monday / Mar 06 2017

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

ابھی حال ہی میں اسلام آباد میں جناب عثمان سیف اللہ خان صاحب کی زیر صدارت منعقدہ سینیٹ کی قا ئمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے اجلاس میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی، جناب رانا تنویر صاحب نے حکومت پاکستان کی جانب سے سائنس کے فروغ کے لئے مختص فنڈزاور پاکستان میں سائنس وٹیکنالوجی کی حالت زار پر روشنی ڈالی جس پر جناب عثمان سیف اللہ خان صاحب نے فرمایا کہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے لئے جو قومی بجٹ مختص کیاگیاہے اس سے کہیں زیادہ اخراجات ایک کلومیٹر میٹر و لائن پر آتے ہیں۔ حکومت پاکستان کے وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے صرف دو ارب روپیہ سالانہ سے کم مختص کیا جاتاہے۔ یہ اس ملک کے لئے خطرناک صورتحال ہے جو خود کو جوہری طاقت ہونے کا دعویٰ کرتاہے۔ یہی صورتحال تعلیم کی بھی ہے، ملک بھرکی 80 سرکاری جامعات کا بجٹ ملا کر بھی ایک جنوب ایشیائی جامعہ، قومی جامعہ سنگاپور کے بجٹ کا صرف ایک تہائی ہے۔ انتہائی چھوٹی سی ریاست، سنگاپور جس کی آبادی کراچی کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے اور کوئی قدرتی وسائل بھی نہیں 2020کے تحقیق و جدت طرازی اینٹر پرائز پلان کے تحت گزشتہ سال ہی 250 ارب روپیہ سالانہ(13.2 ارب امریکی ڈالر )تحقیق و ترقی پر2016ء تا 2020ء کے دوران خرچ کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ جو کہ پاکستان کے مقابلے میں 150 گنا زیادہ ہے جبکہ سنگاپور کی آبادی پاکستان کی آبادی سے 40 گنا کم ہے یعنی سنگاپور پاکستان سے 6000 گنا زیادہ سائنس پر خرچ کرتا ہے۔قومی جامعہ، سنگاپور کے صدر جناب چوڑچوان ٹین کے مطابق ’’RIE2020 کے مجموعی طور پر نہایت مثبت اثرات مرتب ہونگے‘‘ اور نائب چیئرمین، سائنس،ٹیکنالوجی اور تحقیق (A*STAR) نے مزید تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ’’یہ سنگاپور میں مسلسل تحقیق کی یقین دہانی ہے‘‘۔اخراجات کا بڑا حصہ یعنی بجٹ کا 21% حصہ صحت اور حیاتیاتی طبی سائنسز پر استعمال کیا جائے گا۔ یہ بجٹ سنگاپور میں سائنس کے فروغ کے لئے کئے گئے اقدامات کی بھر پور عکاسی کرتا ہے جس کے تحت A*STAR کی جانب سے بائیو پولس تحقیقی کمپلیکس قائم کیا گیا ہے جو دراصل تحقیقی مراکز اور صنعتی لیباریٹریوں کے ایک مضبوط جھرمٹ پر مشتمل ہے۔ اس اقدام کی عکاسی سنگاپور کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ایک علم پر مبنی معیشت ہے۔ ملک محض پُل اور سڑکیں بنانے سے ترقی نہیں کرتے بلکہ اپنی حقیقی دولت یعنی افرادی قوت پر سرمایہ کاری کرنے سے ترقی کرتے ہیں اور اس اہم ترین کام کو ہمارے ملک میں افسوس سب سے کم اہمیت دی جاتی ہے۔دوسرا ملک جس سے ہم کچھ سیکھ سکتے ہیں وہ ملائیشیاء ہے، ملائیشیا نے آج سے تیس سال پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے قومی بجٹ سے سالانہ 25% تعلیم کے لئے مختص کرے گا۔ آج اس فیصلے کے حیران کن نتائج یہ ہیںکہ اسلامی دنیا کی اعلی تکنیکی برآمدات کا 86.5% حصہ اکیلا ملائیشیا ہی کرتا ہے جبکہ بقیہ اسلامی دنیا کے 56 ممالک جن میں ترکی، ایران، پاکستان، انڈونیشیا، سعودی عرب اور دیگر ممالک شامل ہیں، صرف 13.5% اعلیٰ تکنیکی برآمدات کرتے ہیں۔ کوریا کی ترقی کی کہانی بھی ہمارے لئے آزمودہ ثابت ہو سکتی ہے۔کوریا کی معیشت میں گزشتہ تیس سال میں اوسطًا 10% سالانہ اضا فہ ہوا ہے۔ یہ بنیادی طور پر جنرل پارک کی دور اندیشی اور بصارت کی بدولت حاصل ہو سکا کیونکہ انہوں نے تعلیم اور سائنس کو قومی سطح پر اعلیٰ ترین ترجیح دی۔ آج کوریا کا شمار دنیا میں سائنسی تحقیق و ترقی پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے ان ممالک میں ہوتا ہے جو اپنی GDP میں اس کو سب سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ 1960 میں کوریا میں 17-23سال کی عمر کے صرف 5% فیصد طلبا اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے ( طلبا کی تعدادبالکل اتنی ہی تھی جتنی2000ء میں پاکستان میں تھی) اس وقت کوریاکی برآمدات صرف 30 ارب ڈالر سالا نہ تھیں۔کوریا نے اعلیٰ تعلیم پر جو بھر پور توجہ دی اسکے نتیجے میں 2016ء میں 25-34 سال کے نوجوان ڈگری یافتہ طلبا کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ یعنی 70% پر پہنچ گئی۔ اسی طرح سالانہ اعلیٰ درجے کی قیمتی برآمدات کی مد میںبہت اضافہ ہوا جوکہ 548 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ ہر آنے والی حکومت نے جاگیردارانہ نظام کی موجودگی کی وجہ سے اس بات پر توجہ ہی نہیں دی کہ اب قدرتی وسائل کی پیداوار اور برآمدات کی اہمیت بہت کم ہو گئی ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے مصنوعات سازی اور برآمدات کے عالمی رجحانات میں کافی تبدیلی آئی ہے اوراعلیٰ اور درمیانی ٹیکنالوجی مصنوعات کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جبکہ کم درجہ تکنیکی مصنوعات اور قدرتی وسائل کی برآمدات میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے اور یہ سلسلہ مستقل جاری ہے۔ جن ممالک نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ہے انہوں نے بہت تیزی سے علم پر مبنی معیشت کی جانب قدم بڑھا یا ہے اور اعلیٰ تکنیکی مصنوعات مثلاً انجنیئرنگ کا سامان،حیاتیاتی ٹیکنالوجی کا سامان، کمپیوٹر ز، سافٹ وئیر، موٹر گاڑیاں، ہوائی جہاز، دفائی آلات، برقیات، دواسازی، متبادل توانائی کا سامان، اور اسی قسم کے دیگر سامان کی برآمدات پر سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری60%برآمدات کم قیمت کپڑا سازی تک محدود ہیں جو کہ قومی خزانے کے لئے بہت قلیل سرمایہ لاتی ہیںجبکہ کپڑا سازی کی صنعت کا عالمی منڈی میں صرف 6% حصہ ہے۔اس صورتحال کے پیش نظر اعلیٰ تکنیکی برآمدات کی جانب بڑھنے کے لئے ایک ایسی صاحب بصیرت اور ماہرین پر مشتمل حکومت قائم کرنے کی ضرورت ہے جو کہ عالمی سطح پرسماجی اور معاشی ترقی کے لئے علم کی اہمیت کو سمجھتی ہو۔ پاکستان میں صد افسوس خصوصی مہارت او ر عالمی معیار کے تحقیقی مراکز کا فقدان ہے۔ہماری جامعات میں اسوقت دس ہزار سے بھی کم پی ایچ ڈی اساتذہ ہیں۔ عالمی سطح پر ایک پر وقار مقام حاصل کرنے کے لئے ہماری جامعات میں پی ایچ ڈی کے لئے ( اعلی تعلیم کے لئے پندرہ لاکھ طلباکو تعلیم دینے اور طلبا اور اساتذہ کا 1:20 کا تناسب پانے کے لئے) مزید 60,000 پی ایچ ڈی کی فوری ضرورت ہے۔ آج ہمارے ملک کی GDP کا سب سے کم حصہ یعنی تقریباً2.2% تعلیم کے لئے اور 0.3% سائنس و ٹیکنالوجی کے لئے مختص کیاجاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا شمار دنیا کے ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو تعلیم اور سائنس پر سب سے کم خرچ کرتے ہیں۔ ہمیں فوری طور پر ایک قو می تعلیمی ہنگامی صورتحال کا اعلان کردینا چاہئے اور تمام توجہ علم پر مبنی معیشت میں منتقلی پر مرکوز کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں میری نگرانی میں اور کابینہ کے فیصلے کے مطابق ایک 320 صفحاتی مسودہ بعنوان ’’ پاکستان کی سماجی و اقتصاد ی ترقی کے لئے ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر مشتمل صنعتی نظریہ اور حکمت عملی‘‘ تیار کیا گیاتھا جو اگست 2007ء میں کابینہ نے منظور بھی کرلیا تھا لیکن ابھی تک ا س پر عمل درآمد شروع نہیں کیا گیا اور حکومتی فائلوں کی گرد میں کہیں دبا پڑا ہے۔ اس مسودے پر قلیل، درمیانی اور طویل مدتی پروگراموں کی حکمت عملی کے تحت عمل درآمد کیا جاسکتا ہے۔ ہماری حکومت کو قومی پالیسیوں پر فوری طور پر نظرثانی کرنی چاہئے اور تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی پر بھر پور توجہ مرکوز کرنی چاہئے جیساکہ کوریا اور سنگاپور نے کیا ہے۔ تکنیکی ماہرین کی حکومت قائم ہونی چاہئے تاکہ جاگیر دارانہ نظام کے شکنجے سے آزادی حاصل ہو سکے جس نے ملکی معیشت کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔ اسی طرح ہم باوقار طریقے سے اکیسویں صدی میں قدم رکھ سکیں گے۔ دنیا کے بہت سے ممالک کی معیشتیں سائنسی تحقیقات کی بدولت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں مثلاً کمپیوٹر سائنس میں ترقی کی وجہ سے آنے والے وقتوں میں مصنو عی ذہانت نہ صرف صنعتی پیداوار پر اثر اندازہوگی بلکہ جنگیں بھی اسی سے لڑی جائیں گی۔ اسٹیم سیل اور ٹشو انجینئرنگ میدان طب پر کافی تیزی سے اثر انداز ہورہے ہیں اور طب کا نقشہ تبدیل کر رہے ہیں۔ طاقتور بیٹریاں برقی موٹر گاڑیوں میں ایک انقلاب برپا کر رہی ہیں،اور چند ہی سالوں میں پیٹرول پر چلنے والی گاڑیا ں تا ریخ کا حصہ بن جائیں گی۔ میٹامٹیرئیلز کے ذریعے کسی بھی چیز کو نظروں سے اوجھل کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کی دیگر ایجا دات اور دریافتیں کرہ ارض کو تیزی سے تبدیل کر رہی ہیںجو ممالک سائنس و ٹیکنالوجی پر توجہ نہیں دے رہے وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمیں بھی جاگ جانا چاہئے ورنہ خدانخواستہ تاریخ کا ایک بوسیدہ ورق بن کر نہ رہ جائیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں