Monday / Dec 12 2016
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
دنیا بہت حیرت انگیز رفتار سے تبدیل ہو رہی ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی اس تبدیلی میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ ممالک مثلاً کوریا اور آسٹریا نے اپنے وزراء برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور اعلیٰ تعلیم کے عہدوں کو بلند کر کے نائب وزیر اعظم کردیا ہے۔ اس طرح انہیں تعلیم اور سائنس کو ملکی ترقی کیلئے استعمال کرنا آسان ہو گیا ہے۔ایک اعلیٰ تعلیمی ادارہ کس طرح ملکی معیشت پر اثر انداز ہو سکتا ہے اسکا اندازہ MITسے فارغ التحصیل طلبہ کی قائم کردہ کمپنیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ MIT سے فارغ التحصیل طلبہ اب تک تقریباً 11,000 کمپنیاں قائم کر چکے ہیں جن میں تیس لاکھ سے زائد افراد کو ملازمت کے مواقع فراہم کئے گئے ہیں ان کمپنیوں کی سالانہ آمدنی دو ہزار ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے جبکہ پورے پاکستان کی برآمدات صرف بیس ارب ڈالر ہیں یعنی صرف MITکی قائم کردہ کمپنیوں کی بر آمدات پورے پاکستان کی بر آمدات سے 100گنا زیادہ ہیں۔ اسی طرح سنگا پور جیسے چھوٹے سے ملک جسکی آبادی کراچی کی آبادی سے ایک چوتھائی ہے کی برآمدات بھی 518ارب ڈالر ہیں جو کہ پاکستان کی سالانہ برآمدات سے 25گنا زیادہ ہیں۔ اگر ہم اس طرح کی مضبوط علمی معیشت کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے اسکولوں اور کالجوں میں رائج طریقہ ء تدریس یکسر تبدیل کرنا ہوگا۔طلباء میں پیچیدہ مسائل حل کرنے اور تجسس کی صلاحیت اجاگر کرنا ہوگی۔ ذہین طلباء کو تدریس اور تحقیق کے پیشے کی جانب مبذول کرانے کیلئے ان کی تنخواہوں کا معیار بلند کرنا ہوگا۔کسی بھی تعلیمی ادارے کے معیار کے تعین کا سب سے اہم عنصر اس کے اساتذہ کا تعلیمی معیارہوتا ہے۔ معیاری تعلیم سے آراستہ اساتذہ کے حصول کیلئے ذہین و ہونہار طلباء کو بیرون ملک اعلیٰ جامعات میں پی ایچ ڈی کی سطح تک تعلیم حاصل کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر بھیجنا چاہئے تاکہ فیکلٹی اور طلباء کا تناسب 1:10ہو جائے۔ اس تناسب تک پہنچنے کیلئے کم از کم دو لاکھ طلباء کو اگلی دہائی تک بیرون ممالک پی ایچ ڈی کی سطح کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجنا ہوگا۔ صرف اتنا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ ان کے وطن واپس لوٹنے کیلئے پر کشش ماحول بھی تشکیل دینا ہوگا۔2006ء میں ہم نے ایسا پہلا قدم اٹھایا تھا جس کے تحت یہ طلباء ایک لاکھ ڈالر کی تحقیقی گرانٹ کیلئے وطن لوٹنے سے ایک سال پہلے ہی رجوع کرسکتے تھے تاکہ ملک میں آتے ہی وہ اگر کسی کمزور جامعہ سے بھی منسلک ہوں تو ان کے تحقیقی کام میں رکاوٹ نہ آئے۔یہ بھی بدقسمتی سے فنڈز کی کمی کی وجہ سے2009ء میں ختم کردیا گیا۔ اب جب کہ مو جو دہ حکومت نے تحقیقی فنڈبحال کردیاہے تو یہ تحقیق حمایتی پروگرام جو بالخصوص بیرون ممالک سے تعلیم حاصل کر کے لو ٹنے والے اسکالروں کیلئے شروع کیا گیا تھا اسے جلد از جلد دوبارہ شروع کرنا چاہئے اور ان جامعات کے بجٹ میں اضافی فنڈز فراہم کئے جانے چاہئیں جو ان اسکالروں کو اپنی جامعہ میں تعینات کریں۔ یہ پروگرام بھی 2006ء میں شروع کیا گیا تھا لیکن سابقہ حکومت کی جانب سے بجٹ میں کٹوتی کی وجہ سے 2009ء میں ختم کر دیاگیا۔ ایک اورپروگرام2005ء میں پاکستان میں نافذ کیا گیا جسے بین الاقوامی سطح پر کافی سراہا بھی گیا وہ تھا ’’ تحقیقی آلات تک کھلی رسائی جس کے تحت ملک بھر کے تمام تحقیقی اسا تذہ و طلبہ ملک کے کسی بھی ادارے میں نصب جدید ترین آلات تک رسائی حاصل کرسکتے تھے اور ایچ ای سی اس تجزئیے کے بل اس ادارے کو ادا کرتا تھا۔ ا س پروگرام میں بھی کٹوتی کر دی گئی ہے2008ء کے مقابلے میں اب صرف 20%محققین ہی اس سہولت سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی محققین کو وطن واپس لانے کیلئے متحرک اور لچکدار پروگرام متعارف کرائے گئے۔ اس کوشش کےذریعے تقریباً چھ سو اعلیٰ تعلیم یافتہ دانشور وطن واپس آئے۔ اس پروگرام کو بھی بحال کرنا ضروری ہے کیونکہ ہمیں اپنے تارکین وطن لوگوں سے استفادہ کرنا ہے۔ ٹیکنالوجی پارکس کے قیام کے ذریعے ایسا نظام متعارف کرانا چاہئے جو کہ جدت طرازی اور کاروبار کو شروع کرنے اور اس کو فروغ دینے والی کمپنیوں تک رسائی ممکن کر سکے۔ اورنئے کاروبا ر قائم کرنے کیلئے قرضہ او ر دیگر سہولتوں کے حصول کیلئے قانونی اور مالی رہنمائی فراہم کرسکے۔ ایم آئی ٹی، ہارورڈ، اسٹین فورڈ یئل اور جامعہ کیلیفورنیا نےOnline Courses کے ذریعے طلباء کو اعلیٰ معیاری تعلیم تک مفت رسائی کیلئے بہت عمدہ موقع فراہم کیا ہے۔ہم نے ان سب MOOCs پر مشتمل ایک مجموعی ویب سائٹ (iMOOCs) تیار کی ہے جس کا باقائدہ افتتاح آج سے تین سال پہلے صدر پاکستان نے کیا تھا۔ اس ویب سائٹ کا پتہ یہ ہے www.lej4learning.com.pk یہ ویب سائٹ علم و دانش کا خزانہ ہے جو اسکول، کالج، جامعات اور ہر سطح کا علمی مواد مفت فراہم کرتی ہے۔ اسے ہمارے کالجوں اور جامعات میں متعارف کرانا چاہئے تاکہ ’’ مرکب تعلیم‘‘ کے رجحان کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ اس طرح ہمارے طالب علم زیادہ بہتر اساتذہ کی رہنمائی کے ساتھ اپنے مخصوص شعبوں میں عالمی سطح کے معروف دانشوروںکے ریکارڈ کردہ لیکچروں سے بھی استفادہ کرسکیں گے۔ پاکستان کی معیشت کو ایک مضبوط علمی معیشت میں منتقل کرنے کیلئے ان مندرجہ بالا اقدامات کو ملکی پالیسی میں یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے نہایت واضح مختصر، درمیانے، اور طویل مدتی نقطہء نظر، حکمت عملی اور عملی منصوبے بنانا ہونگے۔اسکے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی صنعتوں کو بھی متحرک کرنا ہوگا تاکہ وہ اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات بر آمد کریں۔ اس کیلئے ہمیں نجی صنعتوں کو مضبوط کرنے کیلئے ان کے احاطے میں عالمی سطح کی تحقیق و ترقی کی سہولتیں فراہم کرنا ہونگی۔نجی شعبہ ء تحقیق و ترقی کو مراعات کی مد میں طویل مدتی ٹیکس کی چھوٹ فراہم کرنا ہوگی۔ نئے تحقیقی منصوبوںکیلئے قرضوں کی فراہمی، تکنیکی پارکو ں کا قیام، ہنر مند افرادی قوت کیلئے تربیتی فنڈز کی فراہمی اور اور دیگر عوامل جن سے علم پر مبنی معیشت کے قیام کو فروغ حاصل ہو سکے۔ایسی اعلیٰ تکنیکی صنعتیں جو جدید تقاضوں کے پیش نظر مصروف عمل ہوں انہیں حکومت کی جانب سے ’’ رہنما کا درجہ‘‘ دیا جائے۔اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی برآمدات کو فروغ دینے کیلئے ان صنعتوں کو طویل مدتی ٹیکس کی چھوٹ دی جائے، حکومت کی جانب سے غیر ملکی کمپنیوں کو مخصوص اعلیٰ تکنیکی شعبوں میں صنعتیں قائم کرنے اورکسی بھی قسم کے نقصان کو پورا کرنے کیلئے بیمہ کرانے کیلئے ایک گردشی جدت طرازی فنڈ قائم کیا جائے جو ملک میں نجی و سرکاری سطح پر اعلیٰ تکنیکی ترقی کو فروغ دے۔CPEC (چین پاکستان اقتصادی راہداری) کے ہمراہ فوری طور پر علمی مراکز یعنی جامعات، تکنیکی تربیتی ادارے، اور اعلیٰ ٹیکنالوجی مصنوعات کی صنعتیں قائم کرنی چاہئیں جن کی بھرپور توجہ کا مرکز اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی برآمد ہو۔ان میں خصوصاً انجینئرنگ کا سامان، ادویات سازی، نئے مواد، برقیات، دفاعی سامان، اور دیگر ایسے ہی شعبوں سے تعلق رکھنے والی صنعتیں قائم کی جائیں۔ ہماری وزارت منصوبہ بندی کو قومی خود انحصاری کو پروان چڑھانے کیلئے تمام غیر ملکی مدد اور غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کے منصوبوں کی منظوری کیلئے علمی منتقلی کو لازمی قرار دے دینا چاہئے تاکہ ان منصوبوں کی کم از کم 5% لاگت کو مقامی صلاحیت کی تربیت کیلئے استعمال کیاجا سکے۔ ان تمام عوامل کو برو ئے کار لانے کیلئے تکنیکی ماہرین پر مشتمل کابینہ قائم کی جانی چاہئے جو کہ پاکستان کی معیشت کو ایک مضبوط علمی معیشت میں منتقل کرنے کی اہمیت کو سمجھتی ہو اور اس کے قیام کیلئے اہم اقدامات کرنے کا جذبہ رکھتی ہو۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں