Tuesday / Nov 08 2016
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
تصور کریں کہ آپ ایک لڑاکا طیارے کے پائلٹ ہیں اور خفیہ مشن پر دشمن کے علاقے پر پرواز کررہے ہیں کہ اچانک بغیر کسی ظاہری وجہ کے آپ طیارے پر قابوکھو بیٹھتے ہیں اور طیارہ قلابازیاں کھاتا ہوا زمین کی جانب گرنے لگتا ہے۔ اسکے پیچھے کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ طیارے میںکچھ خفیہ مائیکرو چپ نصب تھے جو کہ بیرونی اشاروں سے متحر ک ہو گئے اور طیارے کے اہم انتظامات مثلاً پروازپرقابو، رہنمائی نظام، اور فائرنگ میکا نزم کو غیر فعال کردیا۔ اوہیو، کلیو لینڈ کی کیس ویسٹرن جامعہ اور امریکہ ، وسکونسن کی الیکٹرانک کمپنی اور ر اک ویل اوٹو میثن ملواکی نے ایسے برقی آلات ایجاد کئے ہیں جن سے ہوائی جہاز یا آبدوزکو جب بھی ضرورت پڑے بیرونی سگنل کے ذریعے متحرک کیا جاسکتا ہے اور انکو ناکارہ بنا سکتے ہیں۔ اس قسم کی تبدیل شدہ مائیکروچپ کی شناخت کرنا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ طیاروں کے برقی آلات میں کافی پیچیدہ اور سینکڑوںسرکٹ ہوتے ہیں جن میں اس سرکٹ کو تلاش کرنا تقریباًناممکن ہے۔ جو ممالک اپنی افواج کے لئے حساس اور جدید آلات نہیں بنا سکتے انہیں جلد ہی پتہ لگ جائے گا کہ وہ کس قدر گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں کیونکہ آلات بنانے والے ملک نے اگر ان مائیکرو چپ کی معلومات آپ کے دشمن ملک کو فراہم کردیں تو یہ محض دکھاوے کے ہتھیار ہونگے جن کو غیر فعال ہونے کے لئے صرف ایک بیرونی سگنل کی ضرورت ہوگی۔ کیونکہ ایک سادہ سا ریڈیائی پیغام آلہ کو ناکارہ کر سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین نے امریکہ سے لڑاکا ہوائی جہاز اور دوسرے ہتھیار لینے بند کر دئیے ہیں اور اپنی ایک بڑی دفاعی صنعت پر کام کر رہا ہے۔ امریکہ نے مکھیوں اور ان سے مماثلت رکھتے دیگر کیڑوں کے برابر خفیہ ننھے منے فوجی طیارے (drone aircraft ) تیار کر لئے ہیں جو مکھی، شہد کی مکھی، اور جھینگروں جیسے دکھتے ہیں۔ ان میں آنکھوں کی جگہ نہایت کامیابی کے ساتھ کیمرے بھی نسب کر دیئے گئے ہیں تاکہ بیک وقت آواز اور تصویر دونوں منتقل کرسکیں۔یہ کیمرے ایک بہت ہلکی سی مائیکرو چپ پر نصب ہوتے ہیں تاکہ یہ خفیہ کیڑے بہتر طریقے سے نگرانی اور جاسوسی کے کام انجام دے سکیں۔ ان کیڑوں کو کئی کلومیٹر کے فاصلے سے محفوظ متعدد اشاروں کے ذریعے تابع کیا جا تا ہے۔ یہ آلہ پاسادیناکی کالٹیک جیٹ پر وپلژن لیب میں ناسا کی مالی امداد سے تیارکیا گیا ہے۔ اس آلہ کا استعمال سی آئی اے اور دیگر امریکی ایجنسیاں دوسرے ممالک کے لئے بطور جاسوس کر رہی ہیں۔ یہ کیڑے کافی دور سے پرواز کرکے آپکے آرمی چیف یا وزیر اعظم کے میٹنگ روم میں داخل ہوکر وہاں کی تمام روداد آواز اور تصویر کے ساتھ براہ راست امریکی سفارتخانے کو منتقل کر سکتے ہیں۔ یہ ’’حشرات‘‘ ایسے مواد سے بنائے گئے ہیں کہ ان کو شناخت کرنا آسان نہیں ہے۔ سیکورٹی اور دفاعی افراد کو دشمن فوجی یا مفرور مجرموں کو ڈھونڈھنے میں یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ دشمن نظر کے سامنے نہیں ہوتے کہ ان پر براہ راست گولی چلائی جا سکے۔ وہ یا تو بنکروں میں یا موٹی دیواروں کے پیچھے چھپے ہوتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے امریکی فوج نےXM25 رائفلیں ایجاد کی ہیں جن سے ریڈیائی کنٹرول گولیاں نکلتی ہیں ۔ان رائفلوں میں لیزر کا پیمائشی آلہ نصب ہوتا ہے جو تین کلومیٹر کے فاصلے تک کسی دیوا ر یابنکر یا کسی اور رکاوٹ میں چھپے دشمن کو ہدف کرکے درست نشانے پر گولی چلاکر مار سکتا ہے۔ یہ رائفل گولا داغنے والی توپ کی طرح کام کرتی ہے جس میں درست نشانے پر گولا داغنے کی اضافی صلاحیت موجود ہے ۔ رائفل کے 5mm راؤنڈ میںایک چپ (chip) لگا ہوتا ہے جو رائفل سے ہدف کے درمیان کے فاصلے کو ریڈیائی اشاروں سے جانچتا ہے اور ہدف کے اوپر یا پاس گولا اس طرح پھٹتا ہے کہ اس سے بچنا ناممکن ہوتا ہے۔ اسی طرح ڈارپا کی سرمایہ کاری سے ایک اور دریافت پایہء تکمیل پر پہنچ چکی ہے جنہیں ’’ سمجھدار گولیاں ‘‘کہا جاتا ہے ۔ ان گولیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر دشمن گولی چلنے کے بعد جگہ تبدیل کرکے دیوار کے پیچھے بھی چھپ جائے تو یہ گولیاں راستہ ازخود تبدیل کر لیتی ہیں اور دشمن تک پہنچ جاتی ہیں۔ مائیکرو چپ ٹیکنالوجی کی جدیدیت نے ایسے انو کھے آلات بنانا ممکن کر دیا ہے۔ اگر دشمن کے علاقے سے کئی میل دور کے فاصلے پر بھی جوہری دھماکہ کیا جائے تواس سے خارج ہونے والی برق مقناطیسی لہریں دشمن کے علاقے کے نگرانی کے آلات اور دیگر برقی آلات کو غیر فعال کر سکتی ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ امریکی فضائیہ نے اب ایک ایسا ہتھیار تیار کیا ہے جو کہ صرف دس نینوسیکنڈ کے لئے گیگاواٹ برق مقناطیسی لہروں کے دھماکے کرتا ہے جس سے غیر محفوظ تار وں میں برقی رو غیرفعال ہو جاتی ہے اور اس طرح نگرانی کے آلات مثلاً ریڈار، سیٹلائٹ ڈش اور دیگر برقی آلات ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح دشمن کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکتی ہے۔ یہ لہریں خارج کرنے کیلئے بغیر پائلٹ کا خودکار ہوائی طیارہ (UAV)استعمال کیا جاتا ہے جس کا اینٹینا مخصوص چھپے موادسے تیار کیا جاتا ہے۔ بوئنگ نے بغیر پائلٹ کے طیارے کے لئے مخصوص شعاع ’’ فینٹم شعاع ‘‘ دریافت کی ہے جو کہ دشمن تک شناخت ہوئے بغیر پہنچ سکتی ہے۔اسی طرح مائیکرو ویوز بنکروں کی ہوا کی نلکیوں اور پائپ کے ذریعے دشمن کی بنکروں میں داخل ہو کر ان کے نگرانی کے آلات کو ناکارہ کر سکتی ہیں۔ امریکی فضائیہ نے ان ہتھیاروں سے مزید مضبوط اور طاقتور اور زیادہ فاصلے کو داغنے والے ہتھیاروں کی تیاری کیلئے 4 کروڑڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ 11 فروری2010ء میں ایک بیلیسٹک میزائل کو لیزر توانائی کے ذریعے تباہ کیا گیا۔ ہوائی ذرائع استعمال کرتے ہوئے لیزر توانائی سے کسی میزائل کو تباہ کرنے کا یہ پہلا مظاہرہ تھا ۔اس سے طا قتور ہتھیاروں کے استعمال کے نئے باب کی ابتدا ہوئی ہے جو کہ مستقبل میں جنگ کے طریقوں کو یکسر تبدیل کردیگی۔ اس مقصد کے لئے آزاد الیکٹران لیزر کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی یہ لیزر شعاعیں عام لیزر شعاعوں سے مختلف ہوتی ہیں کیونکہ عام لیزر شعاع کی طول موج روشنی کی طول موج تک محدود ہوتی ہے۔ BAE سسٹمز، ایک عالمی کمپنی ہے جوخصوصی طور پر دفاعی آلات اور ہتھیار تیار کرنے میں مہارت رکھتی ہے جس کی سالانہ فروخت 2 کروڑ 20 ارب پاؤنڈ ہے۔ اس کمپنی کے محققین نے ایک دلچسپ دریافت کی ہے، اگر ایک ٹینک دفاعی ہتھیاروں سے لیس یا بکتر بند گاڑی اگر ارد گرد کے ما حول سے پوشیدہ ہو جائے تو دشمن پر بھاری پڑ سکتی ہے۔ BAEانجینئروں نے ایک دلچسپ لبادہ ٹیکنالوجی دریافت کی ہے جس میں ٹینک یا گاڑی کو مسدس مواد کی تہوںسے ڈھک دیتے ہیں۔ یہ مسدس پکسلز کے بطور کام کرتے ہیں جو یکجا ہو کرمختلف تصاویر پیش کرتے ہیں۔ یہ تصویر ان گاڑیوں یا ٹینک میں نصب کیمرے سے لی جاتی ہے جو اردگرد کی زمین کی ریکارڈنگ کرتا ہے تاکہ دیکھنے والے کو یہ ٹینک یا بکتر بند گاڑی کسی درخت یا جھاڑی جیسی دکھائی دے حتیٰ کہ چلتا ہوا ٹینک تصاویر بدلتا جاتا ہے جیسے جیسے ارد گرد کا منظر تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ٹینک کی سطح پر موجود مسدس مضبوط مگر ہلکی دھات سے بنے ہوتے ہیں جو کہ دشمن کی فائر نگ سے حفاظت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ گاڑی میں نصب کمپیوٹر میںدیگر تصاویر اور خاکے ریکارڈ ہوتے ہیں اور بوقت ضرورت انہیں تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے مثلاً ٹینک کبھی گھاس چرتے ہو ئے جانور کی صورت میں نظر آتا ہے تو کبھی چٹان کی صورت اختیار کر لیتاہے۔ نہ صرف انفراریڈ لائٹ بلکہ سفید لائٹ بھی اس مقصد کیلئے استعمال کی جا سکتی ہے۔ یہ شاندار ٹیکنالوجی لڑاکا طیاروں، بحری جہازوں، ہیلی کاپٹروں میں بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں