ایجادات ۔ قومی ترقی کے لئے ناگزیر

Thursday / Nov 03 2016

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

کسی بھی ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی میں تعلیم وتحقیق کا انتہائی اہم کردار ہو تاہے۔ وہ جامعات اور کمپنیاں جو حکومت کی مدد سے جدید تحقیقات پر عمل پیرا ہیں وہ اپنے ملک کو ترقی کی جانب گامزن کررہی ہیں اور ایک مضبوط علم پر مبنی معیشت (knowledge based economy) بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان میں ابتدا ہی سے سائنس و ٹیکنالوجی کو نظر انداز کیا گیا ہے سوائے 2000 سے 2002 کے دوران جب میں وفاقی وزیر برائے سائنس وٹیکنالوجی تھا اس وقت سائنس کے ترقیاتی بجٹ میں 6000% اضافے کا مشاہدہ کیا گیا۔ اس وقت سائنس و ٹیکنالوجی کا بجٹ ہمارے GDP کا 0.8% تک پہنچ گیا تھا جو کہ درجہ بہ درجہ کم ہوتے ہوتے اب صرف GDP کا 0.3% رہ گیا ہے۔ اسی طرح تعلیم کا بجٹ ہمارے GDP کا تقریباً صرف 2% رہ گیا ہے۔ افسوس کہ ہمارا شمار دنیا کے ان نو ممالک میں ہوتا ہے جو تعلیم پر سب سے کم خرچ کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں شائع کردہ اقوام متحدہ کی عالمی رپورٹ (United Nations Global Education Monitoring Report 2016) کے مطابق پاکستان تعلیم کے میدان میں دنیا کے دیگر ممالک سے 50سال پیچھے رہ گیا ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کی تمام حکومتوں کے بڑے بڑے دعووں اور کھوکھلے وعدوں کا پردہ بھی فاش کیا گیا ہے۔ یہ بات ہمیں گرہ میں باندھ لینی چاہئے کہ پا کستان اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا جب تک کہ ہماری حکومتیں تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی قومی ترجیح نہ دیں۔ گزشتہ مقالے میں میں نے دنیا ئے سائنس کے مختلف شعبہ جات میں جاری چند پیش رفتوں کا احاطہ کیا تھا۔ اس مقالے میں آپ کو شعبہ صحت سے متعلق جدید دریافتوں سے آگاہ کیا جائے گاجن کا براہ راست تعلق ہم سے اور ہمارے معامشرے سے ہے۔ ایک صحتمند جسم و دماغ ہی صحتمند معاشرے اور صحت مند قوم کو تشکیل دے سکتا ہے۔ چھپکلی اور دیگر رینگنے والے جانوروں میں عمل نو پیدائش (process of regeneration) کا مشاہدہ آپ نے ضرور کیا ہوگا مثال کے طور پر ایک چھپکلی کی دم اگرکٹ جائے تو تھوڑے ہی دنوں کے بعد نئی دم آجاتی ہے، اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں؟ کیا یہ عمل انسانوں میں ہو سکتا ہے؟ مثال کے طور پر اگر کسی حادثے کی وجہ سے کسی آدمی کا ہاتھ یا پاؤں ضائع ہو جائے تو کیا ایسے ہی دوبارہ ہاتھ پاؤں آسکتے ہیں؟ ارتقائی اعتبار سے چھپکلیاں انسانوں سے کئی اعتبار سے مماثلت رکھتی ہیں اور کچھ اندرونی عوامل دونوں میں یکساں پائے جاتے ہیں۔ اب سائنسدان چھپکلیوں میں کٹے ہوئے اعضا کی پیدائش کے جینیاتی عمل کو سمجھنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ نہایت جدید جینیاتی اور کمپیوٹرازڈ تجزئیے کے بعد تین سوئچswitch) micro RNA) دریافت ہوئے ہیں جو کہ انسانی اعضا کی پیدائش نو کے عمل کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہونگے۔ یہ سوئچ سینکڑوں جین کو کنٹرول کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک مہتمم (conductor) سرورگاہ (orchestra) میں سازندوں (musicians) کے جھرمٹ کو کنٹرول کرتا ہے۔ بلاشبہ اعضا کی پیدائش نو نسیج انجینئرنگ (tissue engineering) کے شعبے میں ہو رہی حیرت انگیز دریافتوں میں سے اس دہائی کی سب سے بڑی کامیابی کی ترجمان ہوگی۔ بنی نوع انسان عہد پارینہ ہی سے ’’دائمی جوانی کے راز‘‘ (Fountain of Youth) کا متلاشی رہی ہے۔ کیا ہم عمررسیدگی کے عمل کو آہستہ کر سکتے ہیں؟ کیا اس عمل کو الٹ سکتے ہیں؟ عمر رسیدگی کیمیائی عملیات کے سلسلوں کے سوا اور کچھ نہیں جن میں سے بہت سے ردعمل کا الٹ بھی دریافت کرلیا گیا ہے۔ عمر بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک ہمارے جسموں میں طے کردہ پروگرام کے تحت خلیاتی موت ( apoptosis) ہے۔ جب ایک خلیہ ایک عرصے تک تقسیم ہوتا رہتا ہے تو پھر ایک خاص وقت کے بعد کچھ کیمیائی اشارے (signals)نمودار ہوتے ہیں جو خلیئے کو تقسیم سے رکنے اور مر جانے کے احکامات جاری کرتے ہیں۔ اسے ’’موت کا اشارہ‘‘ (death signal)کہتے ہیں۔ اب سائنسدان ان احکامات کی حقیقت کو سمجھ گئے ہیں اور انہیں پتہ چل گیا ہے کہ ان احکامات کے راستے میں کس طرح رکاوٹ پیدا کی جاسکتی ہے اور خلیوں کی تقسیم کو جاری کیسے رکھا جا سکتا ہے۔ بڑھاپے کی دوسری وجہ آکسیجن (Oxygen) ہے ۔ جہاں آکسیجن ہماری زندگی کے لئے انتہائی ضروری ہے وہاں یہ کسی حد تک بڑھاپے اور ہماری موت کی بھی ذمہ دار ہے۔ ایک تعاملی (reactive) آکسیجن(طبعی آکسیجن) ہمارے ڈی این اے پر حملہ آور ہوتی ہے اور اس میں ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتی ہے جو بڑھاپے کے عمل کو تیز کرتاہے۔ لہٰذا اس عمل کے تدارک کیلئے مائع تکسید (anti-oxidant) استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ بہت سے جینز (genes)بھی بڑھاپے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ خلیات میں موجود مائیٹو کانڈریا (Mitochondria) ’’توانائی انجن‘‘ (energy dynamos) کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ یہ بھی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتے جاتے ہیں۔ مائیٹو کانڈریا (Mitochondria) کی تباہی کا عمل بھی بڑھاپے کا اہم عنصر تصور کیا جاتا ہے جو حرکت قلب کے رکنے سے لے کر اعصابی ٹوٹ پھوٹ (neurodegeneration) پر محیط ہوسکتاہے۔ حال میں یہ حیرت انگیز دریافت ہوئی ہے کہ کچھ اضافی غذائی مرکبات بھی بڑھاپے کوآہستہ کرنے بلکہ الٹا کرنے کیلئے مدد گار ثابت ہوئے ہیں۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول (Harvard Medical School ) کے سائنسدان ڈیوڈ سنکلیر (David Sinclair)نے اپنے ایک تجربے کے دوران دو سال کی عمر کے چوہوں کو ایک کیمیائی مرکب NADکو مستقل ایک ہفتہ دینے کے بعد دیکھا کہ وہ چوہے دوبارہ چھ ماہ کی عمر کے لگنے لگے (انسانوں میں اس تناسب کو ایسے جانچ سکتے ہیں کے ساٹھ سال کی عمر کے انسانوں کے خلئے بیس سال کے خلیوں جیسے ہو جائیں)۔ انسانی جسم میں ’’عمر رسیدگی کی گھڑی (clock of ageing) لونجسیمہ(chromosome) کے آخری سروں پر جہاں تقسیمی ڈی این اے (repetitive DNA) موجود ہوتے ہیں وہاں پائی جاتی ہیں۔ یہ ایک حفاظتی ٹوپی کی طرح ہوتے ہیں جنہیں جزء آخر (telomere)کہتے ہیں۔ جب خلئے ہماری زندگی میں بار بار تقسیم ہوتے ہیں تو یہ حفاظتی ٹوپی گھستی جاتی ہے۔نتیجتاً یہ چھوٹی ہو جاتی ہے اور پھر غائب ہو جاتی ہے۔ ہماری زندگی کے بقیہ سال بھی اسی کے ساتھ کم ہوتے جاتے ہیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں