Monday / Oct 10 2016
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
جنوب ایشیائی ممالک کی اقتصادی صورتحال کا موازنہ کیا جائے تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان ممالک کی GDP کے مقابلے میں آج پاکستان کی معیشت کتنی سست رفتاری سے بڑھ رہی ہے مثلاً میانمار کی معیشت 8.6%ہے، بھوٹان کی معیشت 8.4 % ہے، بھارت کی 7.5% ہے اور بنگلہ دیش کی معیشت 6.6% پرہے ۔ ان کے مقابلے میں حکومت پاکستان % 4.7 GDP بڑھنے کا دعویٰ کرتی ہے جبکہ آزاد ماہرین اس دعوے سے قطعی متفق نہیں، ان کے مطابق یہ شرح 4% سے بھی کم ہے۔ ایسا ہم نے کیا غلط کیا ہے کہ بھوٹان اور میانمار سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں ؟ وجہ بالکل صاف ہے۔ دراصل ہماری حکومتوں کو ابھی تک یہ اندازہ ہی نہیں ہوا ہے کہ آج وہ جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہ علمی معیشت کی دنیا ہے اور ترقی کا اہم ترین ذریعہ بھی علم ہی ہے ۔ لیکن ہم اس حقیقت سے بہت دور آج بھی تعلیم پر اپنی GDP کا تقریباًصرف 2% حصہ ہی خرچ کر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملک کا تعلیمی نظام درہم برہم ہے اور ہم دوسرے ممالک کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہے۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ جلد از جلد اعلیٰ تکنیکی صنعتیں قائم کی جائیں جس کے لئے علم پر مبنی معیشت کا قیام نہا یت ضروری ہے۔یہ کرنے کے لئے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کو مضبوطبنانا ہوگا۔ گزشتہ پچاس سالوں میں ملکی ترقی میں نمایاں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اب قدرتی وسائل ملکی ترقی میں وہ اہمیت نہیں رکھتے جو پہلے تھی۔ اب عالمی GDP میں قدرتی وسائل کی حیثیت نہایت قلیل رہ گئی ہے ۔اب ترقی کا اصل دارومدارکسی بھی ملک کی اعلیٰ اور درمیانہ درجے کے تکنیکی سامان کی صنعتوں ، سامان تجارت کی تیاری ،اور اسکی بر آمدی صلاحیت پر ہے ۔ اس لئے ابھرتی ہوئی معیشتوں کے نقش قدم پر عمل کرتے ہوئے ہمارے وزرائے مالیات و وزرائے ترقی و منصوبہ بند ی کو کسی بھی منصوبے کو منظور کرتے وقت اس منصو بے میں اعلیٰ تکنیکی سامان کی پیداواری اور برآمدی صلاحیت کو اہم ترین درجہ دینانہایت ضروری ہے۔ اس قسم کے اقدامات اور اس کے مطابق حکمت عملی پر مشتمل ایک مکمل مسودہ بعنوان ’’ سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتی نظریہ اور حکمت عملی ‘‘ میری زیر نگرانی ملکی اور غیر ملکی ماہرین کی مشاورت سے تیار کیاگیا تھا جسے 30 اگست 2007ء میں کابینہ نے منظور بھی کرلیا تھا لیکن اس پر آج تک عمل درآمد نہیں کیا گیا ۔ اس مسودے میں بیان کردہ تجاویز میں سے چند قارئین کے لئے پیش ہیں۔ اس وقت ملک کی سب سے اہم ضرورت ملک کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ اس کا سہل حل یہ ہے کہ تمام غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری منصوبوں کے لئے ٹیکنالوجی منتقلی کو لازمی قرار دیا جانا چاہئے ۔ ہمیں اپنی معیشت کو علم پر مبنی معیشت کے طور پر ڈھالنے کے لئے کثیر تعداد میں تربیت یافتہ اور معیاری تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہوگی ۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ صنعتوں کو انتہائی اعلیٰ درجے کے ماہرافراد کی ضرورت ہے جبکہ ان ضرورتوں کے مقابلے میں ہمارے عام گریجوئیٹس کی صلاحیتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے لہٰذا اس فرق کومٹانے کے لئے عالمی معیار کے نجی تربیتی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے اور موجودہ قائم تربیتی اداروں کا معیار بلند کرنے کے لئے اعلی تربیت یافتہ اساتذہ اور بہترین لیباریٹریاں قائم کی جانی چاہئیں۔ سائنس کے اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے بے روزگار ڈگری یافتگان کے لئے کنٹریکٹ کا نظام متعارف کرایا جا ئے۔ اپنے تعلیمی نظام میں معیار اور احتساب متعارف کرانے کے لئے ہمیں تمام تعلیمی اداروں میں شفاف معیار کی بنیادیں قائم کرنا ہونگی مثلاً استاد وں اور طلباء کا تناسب ، طالبعلم کی ثانوی اور اعلیٰ ثانوی امتحانوں میں کارکردگی، اور پھر اسی طرح انکی قومی سطح پر درجہ بندی پر زور دینا ہوگا۔ہر سال ان اداروں کا آڈٹ کرایا جائے اور ان اداروں کی کارکردگی کے مطابق ان کی درجہ بندی پرنظر ثانی کی جانی چاہئے۔اس طرح ملکی اداروں میں آپس میں ایک صحت مند مقابلے کا رجحان پیدا ہوگا۔ کار کردگی کے اعتبا ر سے اداروں کی درجہ بندی کا نظام میں نے بحیثیت چئیر مین ایچ ای سی، سرکاری اورنجی جامعات کا معیار بلند کرنے کیلئے شروع کیاتھاجس میں نجی جامعات کو W,X,Y, Z کے زمروں میں ڈالا گیا تھاجس میں(زمرہ X) غیر معیاری اداروں کیلئے تھا۔ یہ ان جامعات کو دیا جاتا تھا جہاں کم اہلیت کے اساتذہ، غیر معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہوتے تھے۔ یہ درجہ جن اداروں کو دیا جاتا تھا وہ ان اداروں کیلئے باعث شرم ہوتا تھا۔ لہٰذا ان نتائج کی روشنی میں وہ اپنی کارکردگی بڑھانے کیلئے اگلے سال زیادہ محنت کرتے تھے ورنہ انکے چارٹر ختم کر دئے جاتے تھے۔ ترقی یافتہ ممالک میں فی دس لاکھ کی آبادی میں 2500 سے 3000 سائنسدان اور انجینئر ہیں۔جبکہ پاکستان کی صورتحال نہایت ابتر ہے ہمارے یہاں صرف 15 سائنسدا ن و انجینئر فی دس لاکھ کی آبادی پر موجود ہیں جوکہ نہایت کم تعداد ہے اور ترقی ناممکن ہے ۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ہمیں موجودہ کالج جو بی اے اور بی ایس سی کی ڈگریاں فراہم کر رہے ہیں انہیں ’’ سماجی تکنیکی کالجوں‘‘ میں تبدیل کردینا چاہئے تاکہ ماہر افرادی قوت حاصل ہو سکے۔ ایسے طریقہء کار متعارف کرانے چاہئیںجس کے تحت تحقیق و ترقی کی تما م کاوشیں صنعت، زراعت، خدمات اور دفاعی شعبوں سے منسلک ہوں مثلاً مختلف ترغیبی منصوبوں کی ترویج، حکومت کی جانب سے ٹیکس کی لمبی چھوٹ، ٹیکنالوجی پارکوں کا قیام، نئے کاروباریوں کے لئے سرمائے کی فراہمی شامل ہوں۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے تمام اداروں بالخصوص تعلیمی اور پیداواری اداروں میں ’’معیار‘‘ کے لئے آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔چھوٹی،درمیانی اوربڑی صنعتوں کی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے نئی علمی قابلیت کو جدید ٹیکنالوجی مصنوعات میں منتقل کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ اس تناظر میں بین الاقوامی معیار کے سائنس پارکس قائم کئے جائیں جن کی جانب تمام شعبوں سے متعلق سب سے بہترین سائنسدان اور بہترین تکنیکی ماہرین متوجہ ہوں۔ اقوام متحدہ کے مشورے کے مطابق ’’پیش بین‘‘ مشقیں باقاعدگی سے کرنی چاہئیں تاکہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر مستقبل کی تکنیکی ضروریات کا اندازہ لگایا جا سکے، متوقع مواقع اور ان ٹیکنالوجیوں کے سماجی ،اقتصادی، صحت، اورماحولیاتی پہلوؤں کا اندازہ ہو سکے۔اس تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے میں مسابقتی برتری کی ترقی کے لئے بین الاقوامی سطح پر بہترین کارکردگی کے مراکز منتخب شدہ ترجیحی شعبوں میں قائم کرنے چاہئیں تاکہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر مقابلے میں آجائے بلکہ بعض شعبوں میں عالمی لیڈر بن جائے۔ان مرا کز کا بنیادی مقصد سائنس اور انجینئرنگ کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ و معیاری صلاحیتوں کو اجاگر کرنا، صنعت ، زراعت اور صحت کے شعبوں کے ساتھ روابط قائم کرنا ہے تاکہ قومی مسائل سے آسانی سے نمٹا جاسکے۔عمدہ کارکردگی کے مراکز تکنیکی ترقی اور تکنیکی تجارت کے لئے بھی قائم کرنا ضروری ہیں۔ صنعت اور تحقیق و ترقی کے اداروں میں تعاون کا رجحان پیدا کرنا بہت ضروری ہے تاکہ سائینسی اداروں کے ماحصل کا درست استعمال ہوسکے۔ اس کے لئے تحقیق و ترقی کے ا داروں کو مضبوط تجارتی یونٹ قائم کرنے چاہئیں جو کہ صنعتوں سے مؤثر رابطہ قائم کر سکیں۔ ان یونٹوں کو مناسب فنڈزفراہم کئے جائیں اور ان کا انتظام تجر بہ کار مارکیٹنگ کے اہلکاروں کے ذریعے کیا جانا چاہئے تاکہ وہ فنڈنگ کو اہم تجارتی مقاصد اور مضبوط مارکیٹنگ کے لئے مناسب طریقے سے استعمال کر سکیں۔ تحقیقی ماحصل کو قابل استعمال بنانے کے لئے پاکستان میں سب سے بڑی رکاوٹ عملی انجنئیرنگ کا فقدان ہے۔ ایسے اداروں کا جلد از جلد قائم ہونا نہایت ضروری ہے جوکہ ان تحقیقی ماحصل کے ڈیزائن کے اعداد و شمار اور مظاہری سطح کے تحقیقی مواد کو صنعتی شعبے کے لئے تیار کرسکیں۔ اسکے علاوہ ایسا نظام قائم کرنا چاہئے جس سے تحقیق و ترقی کی کوششوں میں مصروف نجی شعبوں کو ٹیکس مراعات دی جائیں، تحقیقی اخراجات میں حکومتی اشتراک کیا جائے ، نئے کاروبا ر کے لئے حکومتی سرمائے کے ذریعے فروغ دیا جائے۔ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کو حکومت کی جانب سے ہدایت ہونی چاہئے کہ تحقیق و ترقی کے لئے یونٹوں کے قیا م کی مد میں آسان قرضہ جات تجارتی نرخ سے کم پر فراہم کریں۔ بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ حکومت تمام نجی شعبوں کے لئے اپنے منافع میں سے کچھ حصہ تحقیق و ترقی کی سرگرمیوں کیلئےاور ملکی ضروریات کے مطابق لازمی قرار دے دے۔ بالخصوص ان شعبوں میں جہاں تحقیق و ترقی متبادل درآمدی مصنوعات کی پیداوار میں مدد کرسکے اور برآمدات کو فروغ دے سکے ۔ان سب مندرجہ بالا کوششوں پر عملدرآمد کیلئے سب سے اہم جز قابل طرز حکمرانی ہے ۔اس کے لئے اعلی معیار کے پیشہ ور افراد کو بحیثیت ماہرین حکومت کی متعلقہ وزارتوں میں شمولیت اختیار کر نے کی ضرورت ہے۔ ان وزارتوں کے سیکریٹریز کو اپنی وزارتوں کا بہترین ماہر ہونا چاہئے اور ان کی مدد کے لئے مختلف شعبوں سے متعلق ’’محفل فکر‘‘ قا ئم کئے جانے چاہئیں۔ ہر محفل فکر کے پیشہ ور افراد کو اپنی متعلقہ وزارت کے لئے نجی شعبہ جات کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ اپنے اہداف حاصل کرسکیں۔ پاکستان کی حقیقی دولت اسکی ایک کروڑ بیس سال سے کم عمر نوجوان نسل کی آبادی ہے۔ اگر ہم علم پر مبنی معیشت میں منتقل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں ان نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوںکو اجا گر کرنا ہوگا اس کے لئے بصیرت انگیز ، ٹیکنوکریٹ اور ایماندار حکومت کی ضرورت ہے جو خود کو جاگیر دارانہ نظام کے مضبوط شکنجے سے آزاد کر سکے اور علم پر مبنی معیشت کی جانب گامزن ہو سکے۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں