Saturday / Jun 04 2016
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
گزشتہ صدی سے عالمی اقتصادی حالات میں ڈرامائی انداز سے تبدیلی آئی ہے جہاں اب علم نے قدرتی وسائل پر سب سے اہم ستون کی حیثیت سے سبقت حاصل کر لی ہے ۔ مغرب اور اسلامی دنیا کے درمیان علم میں فرق کی حد یہ ہے کہ جامعہ کیمبرج کے اساتذہ کو 92 نوبل انعامات مل چکے ہیںجامعہ کولمبیا کے اساتذہ کو 82نوبل انعامات ملے ہیں، ایم آئی ٹی سے85نوبل انعام یافتگان ہیں ۔ 89نوبل انعام یافتگان جامعہ شکاگو سے ہیں۔ صرف ان چار جامعات سے تقریباً 350 فیکلٹی ممبران نے نوبل انعامات حاصل کئے ہیں ۔ اسکے بر عکس سائنس کے میدان میں اسلامی دنیا کے کسی بھی سائنسدان کو آج تک اسلامی ملک میں کام کے بل بوتے پر ایک بھی نوبل انعام نہیں حاصل ہوا ہے۔ ہم اب بھی جہالت اور توہم پرستی کے اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں۔ ہمار ے ماہرین اقتصادیات اور منصوبہ سازوں کو اب بھی احساس نہیں ہوا کہ قومیں سڑکوں اور پلوں کی تعمیر سے نہیں بلکہ انتہائی اعلیٰ درجے کے نظام تعلیم کے ذریعے نو جوان طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھر پور طریقوں سے اجاگر کرنے سے ترقی پاتی ہیں۔ اس اعتبار سے آج کی دنیا دو حصّوں میں تقسیم ہو گئی ہے وہ جو ’’ علم محققین‘‘ ہیں اور وہ جو ’’علم غلام‘‘ (Knowledge Slaves) ہیں ۔ صد افسوس کہ ہمارا شمار دوسری قسم کی قوموں میں ہوتا ہے ۔ کچھ ایشیائی ممالک نے اپنی قوموں کو علم غلاموں سے علمی محققین میں تبدیل کرنے کیلئے کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔ سنگاپور کا شمار ایسے ہی ممالک میں ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے اور اس کی آبادی کراچی کی آبادی سے ایک چوتھائی ہے لیکن اسکے باوجودسنگا پور کی قومی جامعہ کا موجودہ بجٹ 1.8 ارب ڈالر ہے. یہ بجٹ پاکستان کی سرکاری شعبے سے تعلق رکھنے والی تمام جامعات کے جاریہ (recurring ) اور ترقیاتی کل بجٹ سے تین گنا زیادہ ہے۔ سنگاپور میں اسکول ، کالج ، اور جامعہ کی سطح پر اس قسم کی سرمایہ کاری کے شاندار نتائج سامنے آئے ہیں۔ قصّہ مختصر یہ کہ اس چھوٹے سے ملک کی برآمدات آج پاکستان کی برآمدات سے 22 زیادہ ہیںگنا (516 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کی صرف 23 ارب ڈالر ہیں ) جبکہ یہ ملک کسی قسم کے قدرتی وسائل سے بھی مالا مال نہیں ہے ۔ دراصل ہماری حکومتیں اب تک سماجی و اقتصادی ترقی میں علم کی اہمیت سمجھنے سے قاصرہیں اور ہمارے حکام اور منصوبہ سازاپنی ناک سے آگے دیکھ ہی نہیں سکتے یا دیکھنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ علم پر زور دینے سے جاگیردارانہ نظام حکومت جس پر وہ پروان چڑھ رہے ہیںاس کو سخت دھچکا لگے گا۔ پوری دنیا میںجدت طرازی (innovation)کسی بھی ملک کی اقتصادیات پر کیسے اثر انداز ہو رہی ہے اسکی چند مثا لیں قارئین کیلئے پیش ہیں ۔ ـ’’صدابہار‘‘ ایک عام سا پودا ہے جو عموماً ہمارے باغات میںلگایاجاتا ہے اس کے سفید اور جامنی رنگ کے پھول ہوتے ہیں۔اس کی ہری پتّیوں میں سرطان کش منشیات (anti-cancer drugs) ’’ونکرسٹین‘‘ پائی جاتی ہے ۔ اس پودے کی ہری پتیوں سے حاصل کی گئی ایک ملی گرام دوا جسے خون کینسر یعنی لیوکیمیا کے مریضوں کو انجکشن کے ذریعے نس میں دیا جاتا ہے اس کی قیمت 44امریکی ڈالر ہے جو کہ فی کلو 4 کروڑ 0 4 لاکھ ڈالر ( یعنی 4.5ارب روپے فی کلوکے برابر ) بنتی ہے۔ اسی طرح ایک ڈالر کی مالیت کے خام تیل سے حرارتی شگاف (thermal cracking) کے ذریعے ہم30 ڈالرکا خام مال حاصل کر سکتے ہیں جوکہ10,000 ڈالر یعنی 10لاکھ روپے کے زرعی کیمیات میں تبدیل کیاجاسکتا ہے۔ یہ سب علم اور ٹیکنالوجی ہی کی بدولت ہے۔ آئیے اب ہم صحت کے میدان میں حالیہ حیرت انگیز پیش رفتوں کی جانب توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ کیوں روزانہ دن میں کئی بار ادویات کھاتے ہیں؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ کوئی گولی آپ ایسی لیں کہ جس کے فعال جز آہستہ آہستہ ایک ہفتے بلکہ ایک مہینے میں خارج ہوں تاکہ روزانہ دوائی کھانے کی ضرورت کو ہی ختم کردے۔ MIT کے محققین نے ایک ایسی ہی گولی تیار کی ہے جس کے جزیات آہستہ خارج ہو تے ہیںاور ’’ایک گولی ایک ماہ ‘‘ کی حقیقت کو سچ بنا رہی ہے۔تجدید ی طب کے شعبے میں خلیہ جزعیہ (stem cell ) کی مدد سے بھی حیرت انگیز پیش رفت ہو رہی ہیں۔ انسانی گردوں کے جزو 3D چھپائی کے تحت بنائے جا چکے ہیں۔ اسی طرح مثانے (urinary bladders) بھی بائیو انجینئرنگ (bioengineering) کے بعد بنائے جا چکے ہیں اور کامیابی کے ساتھ انسانی جسموں میں استعمال ہو رہے ہیں .عمر رسیدگی کی وجوہات اور اسکے عمل میں کارفرما کیمیائی عوامل بھی اب سمجھ آتے جا رہے ہیں اورحال میں ایسے مرکّبات دریافت ہوئے ہیں کہ جن سے نہ صرف عمر رسیدگی کا عمل دھیما پڑتا ہے بلکہ جانوروں میں عمر رسیدگی کے عمل کو الٹ بھی سکتے ہیں یعنی بوڑھوں کو دوبارہ جوان کرسکتے ہیں۔پروفیسر ڈیوڈ ، ہارورڈ میڈیکل اسکول میں جنیات کے پرو فیسر ہیں ، ان کی تحقیق کے مطابق جب تین سال کی عمر کے چوہوں کو NAD نامی کیمیائی مرکب صرف ایک ہفتے کیلئے دیا گیا تو ان میں ڈرامائی انداز سے عمر میں کمی آئی اور ان کے ولکوں (tissues) کی حالت چھ ماہ کے چوہوں کے برابر ہو گئی ۔ انسانی عمروں کے حساب سے یہ 60 سالہ خلیوں کو 20 سالہ عمر کے خلیوں میں تبدیل کرنے کے برابر ہوگا ۔ مائٹو کونڈریا (Mitochondria) ہمارے خلیوں میں توانائی کی مشینوں کا کام کرتے ہیں اور مرکبات ان توانائی کے انجنوں کی رفتار کو تیز کر سکتے ہیں تاکہ یہ خلیے نو جوانوں کی طر ح کام کرنا شروع کر دیں ۔ لہٰذا ’’ نو جوانی کا امرت ‘‘ (Elixir of Youth)بننے کاخواب اب حقیقت سے زیادہ دور نہیں ہے ۔ اس قسم کی پیش رفتیںدواساز کمپنیوں کو زبردست منافع کے مواقع فراہم کر رہی ہیں اور ان کی بدولت یہ کمپنیاں اربوں ڈالرکما رہی ہیںاور ان ممالک کی علم پر مبنی معیشت میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہیں ۔ اب ہم توانا ئی کے شعبے میں ترقی کا جائزہ لیتے ہیں ۔ نئی ٹیکنالوجیوں کی آمد سے شمسی توانائی گھروں کی قیمتوں میں زبردست کمی ہوئی ہے۔اس سال مئی کی پہلی تاریخ کو پانچ بین الاقوامی کمپنیوں نے دنیا کے سب سے بڑے 500 میگا واٹ کے شمسی گھر جو کہ ، محمد بن راشد ا لامخطوم شمسی پارک ، دبئی کے جنوب میں تعمیر کیا جارہاہے . اس کیلئے 3 روپے فی کلو واٹ گھنٹہ کی شرح سے بولی لگائی ہے۔ یہ کم قیمت کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہواہے جو کہ اٹلی کے پچھلے شمسی پروجیکٹ Enel Green Power جو کہ میکسیکو میں تعمیر کیا جارہا تھا جسکی قیمت 3.5 روپے فی کلو واٹ گھنٹہ ہے اس سے 15% کم ہے ۔ اس نرخ سے تو ہم بھی 5000 میگا واٹ کا شمسی گھر بہاولپور کے چولستان صحرا میں باآسانی لگا سکتے ہیں کیونکہ یہ تو پن بجلی گھر سے بہت سستا ہوگا۔ اس توانائی کو ہم پھر4 روپے فی کلو واٹ گھنٹہ کے نرخ سے اپنی صنعتوں کو بیچ سکتے ہیں ۔ اس ایک ہی قدم سے ہماری صنعتی ترقی کو بہت بڑا سہارا ملے گا ۔افسوس کہ متحدہ عرب امارات 3 روپیہ فی کلو واٹ گھنٹہ کے حساب سے شمسی گھر تعمیر کر رہاہے اور ہم بدعنوانیو ں کے جھمیلوں میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ ٹی وی کی رپورٹوں کے مطابق چولستان کے صحرا میں لگنے والے 100میگا واٹ کے چینی شمسی گھر سے 10پیسہ فی کلو واٹ گھنٹہ کے نرخ پر بجلی فراہم کی جارہی ہے جبکہ اس سے صرف 18 میگا واٹ بجلی حاصل ہو رہی ہے اور ہم نے 100میگا واٹ کی رقم ادا کی ہے۔ توانائی کے میدان میںایک اور پیشرفت نئی بیٹری ٹیکنالوجی ہے۔ ایسی موٹر گاڑیاں اب دستیاب ہیں جو کہ ایک ہی دفعہ کے بجلی کے چارج سے 200 میل سے زائد کا سفر طے کر سکتی ہیں اور اب ایسی نئی بیٹری ٹیکنالوجی تیار کی جا رہی ہے جس سے بجلی سے چارج ہونے والی نئی کاریں10-15منٹوں کی بیٹری چارجنگ سے 500میل کا سفر طے کر سکیں گی ۔ یہ نہایت Disruptive Technology کے روپ میں ظاہر ہوگی جو کہ اگلے 10سال کے عرصے میں پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کی اہمیت بالکل ختم کر دیگی۔ اسی طرح گریفین نہایت اچھوتا مادّہ ہے جو کہ اسٹیل سے 200 گنا زیادہ مضبوط ہے اور کچھ منفرد خصوصیات کا مالک ہے ۔اگلی نسل کی سپر بیٹریوں میں اب گریفین کا استعمال شروع کیا جارہا ہے۔ اگر پاکستان کو ترقی کرنی ہے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اپنی اصل دولت یعنی نوجوان طلباء پر سرمایہ کاری کرے تاکہ ہم کم آمدن زرعی اقتصادیات سے چھٹکارا حاصل کر کے طاقتور اور مضبوط علمی معیشت کی جانب کوچ کریں ۔ تاہم ایسا کرنے کیلئے ایک پر ُ بصیرت، ایماندار اور ٹیکنالوجی مجاز حکومت کی ضرورت ہے ۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں