انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پاکستان کی ترقی

Friday / May 27 2016

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

مورخہ 10اگست 2015ء کو نیو یارک ٹائمز میں ایک مقالہ شائع ہوا جس میں پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں گزشتہ برسوںمیںجو قابل رشک پیش رفت ہو ئی ہے اسکا ذکر کیا گیا تھا۔ مقالہ کچھ یوں تھا ’’پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے میں ترقی نے آزاد پیشہ ور افراد، آئی ٹی پروگرام بنانے والوں سافٹ وئیر کوڈر اور ایپلیکیشن ڈیزائنروں کیلئے نہایت عمدہ مواقع اور نئی راہیں استوار کر دی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں آئی ٹی کی 15,000 اندراج شدہ کمپنیاں ہیںاور ہر سال تقریباً 10,000 طلبہ آئی ٹی کے شعبے سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔یہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ پاکستان کی اعلیٰ درجے کی جامعات سے تعلیم حاصل کر کے بہت سی ابتدائیہ نمائشوں، میلوں ، ڈیجیٹل اجلاس ، ملک گیر بین الجامعاتی آئی ٹی اور سافٹ ویئر کی تقریبات میں اپنی صلاحیتوں کا لو ہا منوا چکے ہیں‘‘۔ مقالے میں یہ اعتراف بھی کیا گیا کہ پاکستان میں آئی ٹی کی آمدنی( جو کہ 2000ء میں تیس لاکھ امریکی ڈالر کے لگ بھگ تھی) اب بڑھ کر 2.8ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے، جس میں سے 1.6ارب امریکی ڈالر کی آمدنی صرف آئی ٹی تیکنیکی خدمات اور سافٹ وئیر برآمدات سے حاصل ہوتی ہے۔ مقالے میں مزید لکھا ہے کہ ’’ آئی ٹی منڈی میں پاکستانی پروگرامروں کا بالخصوص آزاد پیشہ ور افراد کی فراہمی میں پاکستان کا اب دنیا میں تیسرا نمبر ہے صرف امریکہ اور بھارت ہم سے آگے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت آزاد پیشہ ور افراد کی کاوشوںسے انکی اپنی آئی ٹی کی سافٹ وئیر برآمدات تقریباً 85کروڑ امریکی ڈالر پر مشتمل ہیں اور چند ہی ماہ میں یہ سطح بڑھ کر ایک ارب امریکی ڈالر سالانہ تک پہنچ جائے گی ۔ اس شاندار تبدیلی کی کیا وجہ ہے؟اس کی بنیاد ہم نے 2001ء میں رکھی تھی جب میں وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھا(اس وقت ٹیلی کام اور آئی ٹی بھی اسی وزارت کا حصّہ تھیں ) ۔ہم نے آئی ٹی کی تعلیم، آئی ٹی کی بنیادی سہولتوں اور ڈھانچے اور آئی ٹی کی صنعت کے فروغ کیلئے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ۔ میں نے بحیثیت وفاقی وزیر عہدہ سنبھالنے کے چھ ما میں آئی ٹی کی پالیسی وضع کی اور اسکی کابینہ سے منظور ی بھی کرائی تاکہ واضح راستہ اور سنگ میل سامنے آ سکیں ۔ ان تمام کا وشوں کو بروئے کار لانے میں جناب سلمان انصاری صاحب جو اس وقت میری وزارت کے مشیر تھے انہوں نے اہم کردار ادا کیا ۔ 2000ء تا 2002 ء کے دوران وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے 25 ارب روپے مالیت کے پروجیکٹس منظور کئے ۔ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے اتنے بڑے پروجیکٹس اتنے قلیل عرصے میں نہیں جاری کئے گئے تھے۔ انٹرنیٹ کی سہولت 29شہروں سے بڑھا کر 850شہروں تک کر دی گئی ۔2 MB انٹر نیٹ بینڈ وڈتھ کے نرخ90,000 امریکی ڈالر ماہانہ سے کم کر کے 3,800امریکی ڈالر ماہانہ کردئیے اور کچھ عرصے بعد مز ید کم کر کے صرف100امریکی ڈالر ماہانہ تک ہوگئے۔ صرف Mb/s30 کی موجود غیر مستحکم صلاحیت کی انٹرنیٹ بینڈ وڈتھ کو بڑھا کر 400 Mb/s کیا گیا۔فائبر کی رسائی کو 53 شہروں سے بڑھا کر 250 شہروں پر محیط کیا گیا۔ خلاء میں پاکستان کی طرف سے مصنوعی سیّارہ بھیجنے کے پانچ مقامات تعین کئے گئے تھے جن میں سے خلا میںچار مقامات کو گزشتہ حکومتیں اپنی سستی و لاپروائی سے گنوا چکی تھیں اور خلاء میں صرف ایک ہی گوشہ ( E 38 )باقی بچا تھا۔2002ء میں ہم نے پاکستان کا اپنا مواصلاتی نظام قائم کرنے کیلئے خلاء میں پاکستان کا پہلا اپنا مصنوعی سیّارہ ’’پاک سیٹ ۔۱‘‘ کامیابی کیساتھ خلاء میں بھیجا اور پاکستان کیلئے بچا وہ آخری گوشہ پاکستان کیلئے مختص کرا لیاگیا۔ اس حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانا انتہائی ضروری تھا کیونکہ دیر اور غفلت کی صورت میں خلا ء میں مختص پاکستان کیلئے یہ آخری مقام یا تو بھار ت یا اسرائیل یا کسی دوسرے ملک کو دے دیا جاتا اور ہمار ا ملک جدید مواصلاتی نظام سے مکمل طور پر محروم ہو جاتا اورپھر کسی دوسرے ملک سے ماہانہ یا سالانہ بھاری معاوضے کی صورت میں یہ سہولت حاصل کرنی پڑتی۔ ان کاوشوں کیساتھ ساتھ لاہور، کراچی، پشاور اور اسلام آباد میں جدید سہولتوں سے آراستہ بین الاقوامی منڈی سے منسلکہ تیز رفتارانٹر نیٹ کے حامل سافٹ وئیر ٹیکنالوجی پارکس قائم کئے گئے ۔2001ء میں تمام سافٹ ویئر برآمدات کو 15 سال کی ٹیکس چھوٹ دی گئی جس کی وجہ سے اس شعبے میں زبردست ترقی ہوئی اس ٹیکس چھوٹ کی میعاد اس سال ختم ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ سافٹ ویئر برآمد کنند گان کو اپنی آمدنی کا35% تک کا حصہ غیر ملکی کرنسی اکا ؤنٹ میں برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی ۔ اس شعبے میں ترقی کیلئے بنیادی ڈھانچے کی سہولتیں اور سازگار ماحول کی تشکیل کے علاوہ مناسب تربیت یافتہ افرادی قوت نہایت اہم ہے۔ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی عام طور پر جامعات میں تعلیم سے متعلق منصوبوں کو فنڈز نہیں دیتی لیکن میں نے اس پالیسی کو تبدیل کیا اور سات ایسی نئی جامعات کو سرکاری شعبے میں قائم کیاجہاں آئی ٹی کی بنیادی تعلیم پر خاص توجہ مرکوز ہو۔ لاہور میں (Virtual University) قائم کی گئی جو کہ آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں نہایت مناسب فیس پر معیاری تعلیم فراہم کر سکے۔ تاہم اس قسم کے اداروں کی بنیاد اسکول کی سطح پر کی جانی زیادہ ضروری تھی۔ اس کام کو بروئے کار لانے میںانٹیل (Intel) امریکہ کے چیف اگزیکیوٹو آفیسر نے کافی مدد کی ان سے میری ملاقات ہانگ کانگ میں ہوئی اور انکی مدد سے ہم نے 25,000 اسکول اساتذہ کو طلبہ کی تربیت کیلئے آئی ٹی کی تکا نیک کے استعمال کی تربیت کروائی۔ اسکے علاوہ 34سرکاری جامعات میں کمپیوٹر سائنس اور آئی ٹی کے شعبے قائم کئے اور 56سرکاری جامعات کو دنیا کے دیگر تعلیمی اداروں سے قومی تعلیمی انٹرانیٹ منصوبے کے تحت منسلک کیا گیا۔ اس وقت تک ملک کی جامعات میں اوقاف کبھی قائم نہیں کئے گئے تھے۔ ہم نے ایک اہم تبدیلی حکومتی پالیسیوں میں شامل کی اور آئی ٹی کی تعلیم پر بنیادی توجہ مرکوز کرتے ہوئے تمام سرکاری انجنئیرنگ جامعات کیلئے 1.3ارب روپے کے (Endownment funds) مختص کی گئیں۔ ای۔ تجارتی قانون نافذ کیا گیا جس کے تحت ای ۔ حکومتی اقدامات کے طور پر تقریباً 20.8 ارب روپے کے منصوبے چاروں صوبوں بشمول آزاد جموں کشمیر میں شروع کئے گئے جن کے تحت تمام سرکاری محکموں کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا۔ اسکے ساتھ ساتھ کئی ای ۔حکومتی پروگرامزایک مرکز سے جڑے 34 وزارتوں میں شروع کئے گئے۔ کامسیٹس ادارہ برائے معلوماتی ٹیکنالوجی اور پاکستان کمپیوٹر بیورو کے ذریعے15,000 وفاقی سرکاری ملازمین کو کمپیوٹر کی تربیت دی گئی ۔آئی ٹی ماہرین کوتربیت دینے کیلئے 1000 وظائف بھی جاری کئے گئے۔ ایک اور منصوبے کے تحت عارضی تعیناتی سرکاری افسران کو آئی ٹی مہارت حاصل کرنے کا موقع دیاگیا۔ ایسی اکادمی اور پیشہ ورانہ آئی ٹی کے تربیتی پروگراموں کا آغاز کیا گیا جہاں سے تقریباً ایک لاکھ سے زائد آئی ٹی ماہرین سالانہ فارغ التحصیل ہوں۔ آئی ٹی کا شعبہ ٹیلی مواصلاتی نظام سے باہمی منسلک ہے۔ اس لئے اس شعبے میں بھی سیل فون کے حوالے سے کافی شاندار تبدیلیاںکی گئیں ۔ 2000ء میں پاکستان بھر میں صرف 22لاکھ موبائل فونز تھے جبکہ موبائل کمپنیاں دس سال سے بھی زائد عرصے سے کام کر رہی تھیں۔ اس اہم شعبے میں ترقی نہ ہونے کی دو اہم وجوہات تھیں جن پر سنجیدگی سے توجہ دینا ضروری تھا۔ اوّل یہ کہ سیل فون کے ذریعے کال کے نرخ بہت زیادہ تھے لہٰذا ہم نے یوفون کے نام سے ایک سرکاری موبائل کمپنی کا آغاز کیاجس کے کال کے نرخ بہت کم تھے اس قدم سے دیگر نجی کمپنیوں میں نرخوں میںمقابلے کا شدید رجحان پیدا ہوا اور اس طرح کال کرنے کے نرخوں میں بہت کمی واقع ہوئی۔ دوسری اہم وجہ اس ٹیکنالوجی میں ٹھہرائو کی یہ تھی کہ کال موصول ہونے والے کو بھی کال وصولی کے پیسے دینے پڑتے تھے لہٰذا ایک عام آدمی موبائل فون خریدنے اور استعمال کرنے سے گھبراتاتھا کیونکہ اسے اس کال کے بھی پیسے ادا کرنے پڑتے تھے جو وہ موصول کرے گا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس نظام کو تبدیل کیا جائے اور ’’جو کال کرے وہ رقم ادا کرے ‘ ‘کے اصول کو رائج کیا ۔ ان اقدامات کے نتیجے میں مواصلاتی نظام میں دھماکہ خیز ترقی ہوئی۔صرف ایک سال ہی میں 13لاکھ موبائل فون خریدے گئے۔ یہ شاندار ترقی اس وقت سے آج تک جار ی ہے اور اب ہماے ملک میں تقریباً 15کروڑ موبائل فونز کے صارفین موجود ہیں۔ یہ حیرت انگیز ترقی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ چند سمجھدار فیصلے کس طرح پوری ملکی معیشت پر زبردست طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں ۔ نیویارک ٹائمز میں پیش کردہ مندرجہ بالا رپورٹ پاکستان میں تکنیکی مہارت سے لیس حکومت کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔ اگر پاکستان ترقی کا خواہشمند ہے تو ہمیں اپنی کابینہ میں ملک کے قابل ترین لوگوں کو شامل کرنا ہوگا جیسا کہ چین ، کوریا اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک نے کیا ہے ،کیونکہ اس علم کی دنیا میں صرف وہی ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہیں جو اپنے ملک کی حقیقی دولت یعنی نوجوان طلبہ کی صلاحیتوںکو اجاگر کرنے کیلئے انکی تعلیم پر بھر پور سرمایہ کاری کررہے ہیں اور جو ممالک ایسا نہیں کررہے وہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ واضح رہے کہ آج کی دنیا میں قدرتی وسائل کی اہمیت کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے اور علم پر مبنی معیشت قومی ترقی کا سب سے اہم ستون بن چکی ہے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں