کشش ثقل لہریں ۔ حیرت انگیز دریافت

Friday / Mar 25 2016

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

ماہرین ِطبعیات نے حال ہی میں،کشش کی ثقل لہروں کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے جبکہ آئن اسٹائن نے ان لہروں کی موجودگی کے بارے میں ایک صدی پہلے ہی پیش گوئی کر دی تھی۔ماہرین فلکیات کے مطابق یہ لہریں آج سے 13 ارب 70 کروڑ سال پہلے ہو ئے (big bang) کے ظہور کے 3لاکھ 80,000 سال بعدکے ایک ایک واقعہ کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ یہ کشش ثقل لہریں انفجار عظیم کے بعد سے اب تک پوری کائنات میں گردش کر رہی ہیں ۔ تاہم یہ لہریں اسقدر نحیف ہیں کہ ان کی پیمائش موجودہ تکنیکی آلات سے اب سے پہلے نہیں کی جاسکتی تھی۔ ’ کائناتی زیر موجی پس منظر تابکاری( radiation cosmic microwave background )کےذریعے اب یہ ممکن ہو گیاہے۔ لہٰذاتخلیق کائنات کے ابتدائی زمانے کے واقعات کا اس ریڈیائی دوربین کے ذریعے ان لہروں کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے یہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ انفجار عظیم کے ابتدائی لمحات میں کائنات ایک اکائی سے جڑی ہوئی تھی اور پھر ایک عظیم ترین دھماکے کےذریعے یہ وجود میں آئی، ٰفجار عظیم کا تصور سب سے پہلے ایک (Belgium) کے سائنسدان (Georges Lemaitre) نے 1927ء میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ پوری کائنات ایک اکائی کی شکل میں ایک نقطے پر مرکوز ہے اور (big bang) کے نتیجے میں کائنات کی وسعت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ دنیا کے سائنسدانوں کوغالباً یہ پتہ نہیں کہ اس بات کا اشارہ قرآن مجید میں بھی موجود ہے جہاں اللّہ تعالیٰ سترہویں سپارے کی آیت 30میں فرماتے ہیں کہ’’اور کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا ۔ حال ہی میں لیگو کے ایگزیکیوٹو ڈا ئر یکٹر Laser Interferometer Gravitational -Wave Observatory (LIGO) ,ڈیوڈ ریٹز David Reitzنے واشنگٹن میں پریس کانفرنس میں کشش ثقل لہروں کی موجودگی کا اعلان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ پچاس سالوں سے سائنسدان ان لہروں کی موجودگی کی کھوج میں سرگرداں تھے اور پچھلے پچیس سالوں سے ایسے حسّاس آلات بنانے کیلئے کوشاں تھے کہ ان لہروں کو جانچا جاسکے جن کے اشارے نہایت کمزور ہیں۔ جدید و حساس آلوں کی مدد سے ہم ان کشش کی ثقل لہروں کی پیمائش کر سکیں گے جو کہ ستاروں کے پھٹنے کے شدید عمل کے نتیجے میں یا دو ثقب اسود (black holes) کے تصادم سے جڑ کر ایک ہونے کے عمل کے دوران خارج ہوتی ہیں۔ ان لہروں کا مطالعہ کرنے کیلئے انٹارکٹک (Antarctic) کو منتخب کیا گیا کیونکہ وہاں کی ہوا خشک ہے، فضاء میں پانی کے بخارات کی موجودگی زیر موج تابکاریوں کیلئے رکاوٹ کا سبب بنتی ہے اور جانچ کے عمل کو مشکل بناتی ہے۔ اسلئے Amundsen-Scott South Pole Station میں اسکا مطالعہ کیا گیا جو کہ انٹارکٹک کی 2,800 میٹر کی برفیلی تہہ پر محیط ہے جہاں کوئی آبادی نہیں ہے لہٰذا کسی قسم کے موبائل فونز، ٹیلیوژن اور دیگر برقی آلات کے سگنل موجود نہیں ہیں جو ان لہروں کو پہچاننے میں دشواریاں پیدا کر سکیں۔ بیسویں صدی کے اوائل تک وقت اور خلاء کا آپس میں کوئی ربط تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ خلاء میں کسی بھی جگہ کی وضاحت تین مخصوص جسامتوں کی ناپ یعنی ، لمبائی ، چوڑائی اور اونچائی سے ظاہر کی جاتی تھی۔ اور وقت کو علیحدہ چوتھی جسامت سمجھا جاتا تھا۔ بعد میں آئن اسٹائن نے اندازہ لگایا کہ وقت اور جگہ ایک ہی زاوئیے کے دو پہلو ہیںاور ان میں آپس میںتسلسل پایا جاتا ہے ۔ مثلاً ہونے والے واقعات کس جگہ رونما ہوئے کی بھی نشاندہی کی جا تی ہے۔ اگر آپ کے پاس زمین پر جوہری گھڑی ہو ایک ایسی ہی گھڑی ایک خلائی شٹل (جوکہ بڑی تیزی سے زمین کے گرد گھوم رہا ہے) میں بھی موجودہو اور دونوں گھڑیوں پر سے وقت کا موازنہ کیا جائے توخلائی شٹل میں وقت زمین والی جوہری گھڑی سے نسبتاً زیادہ سستی سے گزرے گا ۔دوسرے معنوں میں وقت کا گزرنا رفتار پر بھی منحصر ہے اس کا اندازہ وہ شخص بخوبی لگا سکتا ہے جو روشنی کی رفتار کے قریب رفتار سے چند گھنٹوں کیلئے سفر کرے تو اسکے وہ چند گھنٹے دنیا میں صدیوں کے برابر ہونگے اور جب وہ زمین میں واپس آئیگاتو صدیاں گزرنے کے بعد ایک نئے زمانے میں ہوگا لہٰذا آئین اسٹائن کے اس اصول کی تصدیق کرتا ہے کہ وقت بڑی تیزی سے سست ہوتا ہے۔ آئن اسٹائن کے عمومی اضافیت کے اصول کے مطابق ، کسی بھی وزن کی وجہ سے کشش ثقل وقت اور خلاء کی حالت کو مسخ کر سکتی ہے اور ’خلائی وقت ‘ کا پردہ اس وزن کی وجہ سے اس جگہ سے ٹیڑھا ہو سکتا ہے ۔ آئن اسٹائن کے مطابق اس طرح ’خلائی وقت‘کا ٹیڑھا میڑھا ہونا کشش ثقل لہروں کی صورت میں نمودار ہوتاہے اور پھریہ لہریں پوری کائنات میں پھیل جاتی ہیں ۔ یہ لہریں خلاء میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں ۔ اگر آپ کو کبھی کشش کی ثقل لہروں کو دیکھنے کا موقع ملے تو ایسا محسوس ہوگا جیسے یہ لہریں باری باری اوپر نیچے اور دائیں سے بائیںسمتوں میں سکڑ اور پھیل رہی ہیں ۔ کیلی فورنیا ادارہ برائے تکنیکی تعلیم کے پروفیسر کپ تھورن کے مطابق اب تک ماہرین فلکیات کائنات میں خلاء کو ایک پر سکون سمندر سمجھتے تھے لیکن اب حالیہ مشاہدات نے یہ نظریہ بالکل بدل دیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں ’ ثقب اسود‘ (black holes)کے تصادم سے ابھرنے والی کشش ثقل کی لہروں نے خلاء اور وقت کے پردے میںایک سنگین طوفان کی صورتحال اختیار کرلی ہے ، ایسا طوفان جس میں وقت تیزاور کم ہوتا ہے ، پھر تیز ہوجاتا ہے ، ایسا طوفان جس میں خلاء کبھی اِ س طرف جھکتی ہے تو کبھی اُس طرف جھکتی ہے۔جامعہ بر منگھم کے پروفیسر البرٹو ویچیوکے مطابق ، ہم نے اب تک کائنات کا روشنی کے ذریعے مشاہدہ کیا ہے ۔ لیکن ہم صرف وہ حصّہ دیکھ سکتے ہیں جو کائنات میں موجود ہے۔ کشش کی ثقل لہروں میں کائنات کے عوامل کی بالکل ہی مختلف معلومات ہوتی ہیں۔لہٰذا اب ان لہروں تک پہنچ کر ہم نے ایک نیا چینل کھول لیا ہے جو ہمیں ان عوامل سے آگاہی دے گا جن سے ہم بالکل نا آشنا ہیں ، وہ مزید کہتے ہیں، یہ مشاہدہ واقعی حیرت انگیز سائنس ہے اور علم طبعیات میں تین سنگ میل تک رسائی کی نشاندہی کرتا ہے: براہ راست کشش ثقل کی لہروں کا کھوج ، الگ نوعیت کے(black holes) کی حقیقت اور سب سے حیرت انگیزیہ کہ ’ثقب اسود‘ کی موجودگی کاثبو ت جس کی مو جودگی کے بارے میں آئن اسٹائن نے گزشتہ صدی ہی میں آگاہ کردیا تھا۔یہ دریافت نہایت حیرت انگیز ہے کہ سائنسدان اور ماہرین فلکیات (black holes)کے ملاپ کا کھوج لگانے اوراس کے نتیجے میں شدید طاقتور توانائی کے اخراج کو اس حسّاس آلے کے ذریعے دیکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ یہ آلہ اسقدر حساس ہے کہ چار نوری سال کے فاصلے پر نظام شمسی کے ستارے میں باریک سے باریک تبدیلیوں خواہ وہ انسانی بال کی موٹائی تک کی ہی کیوں نہ ہوںبڑی درستگی کے ساتھ دیکھ سکتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب ہمارے پاس ایسے آلات ہیں جن سے (big bang) کے فوراً بعد کے واقعات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔ ایک بہت بڑا اسرا ر یہ ہے کہ کہکشائیں جن میں تمام ستارے، سیّارے ، اور ثقب اسود موجود ہیں وہ صرف پوری کائنات کا5% وزن ہیں باقی 95% کا(mass)کہاں سے آتا ہے ،یہ بہت بڑا رازہے اسے’’سیاہ توانائی‘‘ اور’’سیاہ وزن‘‘ کہتے ہیں۔ کشش ثقل کی لہریں شاید ایک دن راز افشا کریں گی کہ کیوں کائنات کا بیشتر حصّہ پوشیدہ ہے اور اسکے پیچھے کونسے حقائق ہیں یہ ہمیں پتہ نہیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں