Saturday / Feb 13 2016
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
اگرچہ پاکستان میں کافی انجینئرنگ جامعات ہیں لیکن عملی نقطہء نظر سے تربیت یافتہ فارغ التحصیل انجینئروں کی صنعتی ضروریات ومسائل سمجھنے کی قلّت پائی جاتی ہے ۔کچھ ممالک مثلاً جرمنی ، آسٹریا اور کئی دیگر ممالک نے دو اقسام کی انجینئرنگ جامعات قائم کی ہیں 1۔تکنیکی جامعات ، جن میں مضامین کے نظریاتی پس منظر اور تحقیقاتی پہلو کو مضبوط کیا جاتا ہے اور عملی تربیت پر کم انحصار کیا جاتا ہے۔ 2۔ ’فاکہاک شولے‘"Fachhochschule"ایسی تربیت گاہ ہے جہاں مضامین کے بنیادی نظرئیے کے پس منظر کے ساتھ صنعتی ضروریات کے عین مطابق عملی تربیت پر زور دیا جاتا ہے ۔ اس تربیت گاہ میں گریجویٹ اور ماسٹرز کی سطح کے شاندار پروگرام موجود ہیں لیکن پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹری کی سطح پر تحقیقاتی پروگرام شامل نہیں ہیں۔ بڑی کمپنیوں کے لئے اس درسگاہ سے عملی تربیت یافتہ گریجویٹ اور ماسٹرز طلباء کو کافی اہمیت حاصل ہوگی۔ اس قسم کی جامعات کا قیام پاکستان میں نہایت ضروری ہے تاکہ ایک بہتر اور متوازن صنعتی اقتصادی نظام قائم ہو سکے۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لئے سب سے پہلے ہمیں وسیع تعداد میں نہایت باصلاحیت، انتہائی تربیت یافتہ اور صنعتی عملی واقفیت کے حامل انجنیئروں کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ صنعتی پیداواری کےمسائل حل کرسکیں۔ساتھ ہی اعلیٰ تکنیکی شعبے میں مقامی صنعتیں قائم کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور غیر ملکی صنعتکاروں کو سرمایہ کاری کے لئے ایک مضبوط اور پرکشش ماحول میسّر آ سکے گا۔ یہ نظریہ پاکستان کی ضروریات کے مطابق ہے تاکہ ملک کی دولت میں اضافہ ہو سکے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔اس طرح مجموعی طور پر اعلی ٰ تعلیم کے میدان میں انجینئرنگ ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے معیار کو بہتر کیا جاسکے اور مزید پھیلایا جا سکے۔ ساتھ ہی اعلیٰ تکنیکی صنعت کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔ ابتدائی طور پر اس پروگرام کے لئے مناسب مالی وسائل کی ضرورت ہے ۔ جبکہ اس وسیع سرمایہ کاری کی واپسی معیاری افرادی قوت ، ملازمت کے مواقع اور قومی ٹیکنالوجی ڈھانچے کی جدت کی صورت میں موصول ہو سکے گی جس کی وجہ سے تجارت میں اضافہ ہوگا جس سے قومی دولت میں اضافہ ہو گا۔ اس قومی اقتصادی ترقی کا واضح ثبوت وہ ایشیائی اور یورپی ممالک ہیں جو تیزی سے معاشی ترقی کی جانب رواں دواں ہیں۔ اگر کسی کا بھارت کے شہر ، بنگلور جانا ہوا ہو تو وہ بہت اچھی طرح سمجھ جائیگا کہ ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنا کس قدر مفید ہے کہ صرف ایک دہائی ہی میں ٹیکنالوجی نے بنگلور کو کس قدر بدل دیا ہے ۔اور یہ تبدیلی بھارت میں بڑی تعداد میں انجینئروں اور تکنیکی ماہرین کی معیاری افرادی قوت کی موجودگی کی وجہ سے ممکن ہوئی ۔ 2005میں,میں جب ایچ ای سی کا چیئرمین تھا اس وقت میں نے ایک پروگرام کا آغاز کیا تھا جس کے تحت ہم نے جر منی، فرانس ، اٹلی، سوئیڈن ، آسٹریا، کوریا، چین اور جاپان کی اعلیٰ معیاری انجینئرنگ جامعات پاکستان کے ساتھ شراکت میں قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اس ابتدائی قدم کے لئے 30 غیر ملکی جامعات کے ساتھ معاہدہ بھی ہو گیا تھا کہ وہ اعلیٰ غیر ملکی جامعات انجینئرنگ کے ڈگری کورسز پاکستانی طلباء کے لئے پاکستان میں شروع کرنے والی تھیں۔ اسطرح پاکستانی طلباء پاکستان ہی میں رہتے ہوئے نہ صرف ان اعلیٰ انجینئرنگ جامعات کی معیاری تعلیم سے مستفید ہوتے بلکہ ان جامعات کی ڈگریاں بھی حاصل کر سکتے تھے ہر ایک جامعہ میں ٹیکنالوجی پارک کے قیام کامنصوبہ تھا اور بہت سی غیر ملکی کمپنیوں نے ان ٹیکنالوجی پارکوں میں تحقیق و ترقی کے مراکز قائم کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی ۔اس طرح پاکستان جدید انجینئرنگ سامان کے ماڈل، گھریلو استعمال کی انجینئرنگ اشیاء، موبائل ٹیلیفون وغیرہ کو بنا کر درآمد کرنے والا ایشیائی شیر کی مانند ابھر کر سامنے آسکتا تھا، ان غیر ملکی انجینئرنگ جامعات کے ساتھ کچھ 60 تحقیق و ترقی کے مراکز بھی قائم ہوتے جنہیں دنیا کی بڑی کمپنیاں پاکستان میں چلاتیں۔ ہم میں صلاحیت تھی کہ ہم اس خطّے کی مضبوط انجینئرنگ کی بنیاد بن سکتے تھے لیکن صد افسوس کہ ان انجینئرنگ جامعات کی کلاسز اکتوبر 2008ء میں شروع ہونے والی تھیں کہ سابقہ حکومت نے مئی 2008 میںاس پروگرام کو بند کر دیا۔ اب ایک امید کی کرن نظر آئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان صاحب کی قیادت میں خیبر پختونخوا میں انجینئرنگ جامعات / فاکہاکشولے قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس معاملے میں ابھی مذاکرات جاری ہیں ۔ یہ قدم صوبہ خیبر پختونخوامیں صنعت کو بہت بڑا فروغ دے گا۔اس پروگرام کی سب سے قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ یہ پاکستان میں جدید صنعت کے قیام کے لئے تکنیکی تعلیم و ترقی کی صلاحیت میںدائمی کمی کو پورا کرنے میں نہایت ممدو معاون ثابت ہوگا۔پاکستان میں جدید صنعت کے قیام کے لئے معیاری تعلیم یافتہ اور باصلاحیت افرادی قوت کی شدید قلت ہے ۔ اس کے علاوہ تکنیکی اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے تجارت کے لئے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں کم سر مایہ کاری کی جارہی ہے۔اس کے علاوہ پاکستان میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے جہاں چھوٹے کاروبار کو اعلیٰ تکنیکی کاروبار میں منتقل کیا جاسکے ۔یہ پروگرام بالخصوص ان تینوںکمزوریوں کو دور کرے گا۔ اسلام آباد کے قریب ہری پور جامعہ میں ملک کی ایسی پہلی جامعہ / فاکہاک شولے کے قیام کا منصوبہ تقریباً طے ہو گیا ہے ۔ جہاں غیر ملکی شراکت داروں کی جانب سے بالکل ویسی ہی جدید طرز کے مخصوص آلات سے لیس درس و تدریس کی لیباریٹریاں ہوںگی جیسی کہ وہاں ان کے ملک میں ہیں ۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں